تو بھی کافر وہ بھی کافر۔۔۔۔۔سید عارف مصطفٰی

حکیم الامت کے اس شعر سے بات کا آغاز کرتا ہوں ۔۔۔

تُو مری نظر میں کافر، میں تری نظر میں کافر
ترا دیں نفس شماری، مرا دیں نفس گدازی۔۔

گزشتہ دنوں میری اک فیسبک پوسٹ زیر بحث رہی جس میں میں نے پاسبان کے جنرل سیکریٹری عثمان معظم صدیقی کی جانب سے کرسمس کی مبارکباد دینے والوں کو کفر کے سرٹیفیکیٹ جاری کرنے پہ سخت تنقید کی تھی اور چند سوالات اٹھائے تھے۔۔۔ یہ وضاحتی تحریر اسی ضمن میں ہے کیونکہ میں کھلم کھلا اس تکفیری طرز فکر کے شدید ترین مخالفین میں ہوں اور زرا زرا سے فکری اختلاف پہ عدم برداشت کی بناء پہ کسی نہ کسی مسلمان کو دائرہء اسلام سے کھینچ نکالنے کو وہ تنگ سوچ خیال کرتا ہوں کہ جو ہماری فکر کو نہ صرف محدود کرتی ہے بلکہ تہذیبی ارتقاء کی راہیں مسدود کردیتی ہے – اس مذکورہ معاملے میں دلچسپ اور ستم ظریفانہ بات یہ تھی کہ خود اسی جماعت یعنی پاسبان کے صدر الطاف شکور صاحب نے بڑے اہتمام سے ایک بینر کی صورت اپنے فیسبک پیج پہ کرسمس کی مبارکباد جاری فرمائی تھی ۔۔۔ اس عجیب و غریب سچویشن پہ میں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا پھر موصوف صدر صاحب بھی اپنے ہی سیکریٹری جنرل صاحب کے فتوے کی رو سے کافر نہیں ٹھہرے۔۔۔؟؟ لیکن مجھے معلوم ہے کہ مجھے اس سوال کا جواب نہیں دیا جائے گا ۔۔۔ کیونکہ اس تلخ حقیقت کا کیا جائے کہ اکثر بہت چھوٹی چھوٹی مصلحتیں بڑے بڑے فکری مغالطوں و لغزشوں کا سبب بن جایا کرتی ہیں

میری اس بات پہ کچھ شور تو اٹھا لیکن پھر خاموشی چھا گئی ۔۔۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ کم ازکم الطاف شکور تواپنے سیکریٹری جنرل کی اس حد درجہ منفی تکفیری سوچ کا نوٹس ضرور لیتے اور نہ صرف فوری طور پہ درکار تادیبی قدم اٹھاتے بلکہ ایک وضاحتی بیان بھی جاری کرتے کیونکہ وہ تو کسی بھی معاملے پہ ترنت بیان جاری کر ڈالنے کی شہرت رکھتے ہیں مگر انہوں نے اپنے کان یکسر لپیٹ لیئے حالانکہ ملک میں تبدیلی اور بہتری لانے کے دعویدار بھی ہیں ۔۔۔ مگر کیا اس طرح ؟؟ ۔۔۔ لیکن یہ سب کچھ غیر متوقع نہیں ہوا کیونکہ ہمارے معاشرے میں ہر سطح پہ یہی دوغلا طرز عمل پورے زور و شور سے جاری و ساری ہے
جس کی جو مرضی آئے کسی بھی معاملے کو کفر و اسلام کی حد فاصل بنا ڈالتا ہے لیکن اسے ایسا کرنے سے کوئی بھی نہیں روکتا ۔۔۔ اور سب کے سب ‘اچھے لوگ ‘ یہ آسان کام کرتے ہیں کہ اپنی اپنی مصلحتوں کے اسیر ہوکے اپنی آنکھیں اور کان ہی بند کرلیتے ہیں اور یوں ایسے فتوہ باز سے اپنے اپنے تعلقات کو خطرے میں ڈالنے کے جھنجھٹ ہی میں نہیں پڑتے جس سے اور تو کچھ نہیں ہوتا بس ایسے لوگوں کو خوب ہلہ شیری میسر آجاتی ہے اور وہ اک ولولہء تازہ سے تکفیری محاز پہ ڈٹ جاتے ہیں- میں سمجھتا ہوں کہ معاشرے کے اہل فکر ونظر اور نمایاں افراد کی جانب سے ایسی خاموشی اور ایسا گریز نری منافقت ہے اور ہمیں ہرسطح پہ اس منافقت کو مکمل طور پہ ترک کرنا ہوگا ورنہ یہ تکفیری سوچ اور اس سے درگزر کا مجرمانہ عمل ہمارے تمدن اور شعور ہی کو لے ڈوبے گا-

بات بڑی صاف اور واضح ہے کہ ہمارے سبھی فعال افراد کو جو خواہ کسی بھی مقام و منصب پہ ہوں یا کسی سطح پہ بھی متحرک ہوں اب منافقت کا یہ لبادہ اتار پھینکنا ہوگا اور انگریزی محاورے کے بموجب پھاؤڑے کو پھاؤڑہ ہی سمجھنا اور کہنا ہوگا کیونکہ ایسی ہی طرز فکر ہمارے دین متین کی کشادہ ذہنی کی تردید کرتی ہے اور اس کے روشن چہرے کی تابناکی کو دھندلاتی ہے ۔۔۔ کسی کو ذرا سی بات پہ کافر بنا ڈالنا کوئی معمولی سی خطا نہیں کیونکہ اسکے مضمرات بڑے ہی دیرپا اور مہلک ہوا کرتے ہیں ۔۔۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسی جن باتوں پہ علماء کی جانب سے سخت ردعمل آنا چاہیئے ان پہ تو اکثر کا رویہ محض ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم والا ہوا کرتا ہے اور یہ شاید ایسا اس لیئے ہوتا ہے کیونکہ خود ان میں سے بیشتر کا پسندیدہ مشغلہ بھی یہی تکفیری تقسیم بن چکی ہے اور وہ بھی مبہم فقہی تشریحات کی آڑ لے کر اس مہم جوئی پہ کمربستہ رہتے ہیں ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں دو ٹوک عرض کرتا ہوں کہ پیغمبر اسلام نے کفر و اسلام کے درمیان جو لکیر کھینچ دی ہے اس سے پہلے ایک اور من مانی لکیر لگانے کا کسی کو ہرگز اختیار نہیں اور یوں کافر صرف وہی ہے جو اسلام کے مبادیات کا انکاری ہے لیکن اسکا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں کہ اس سے محض دعوے کی بنیاد پہ کسی جانے مانے کافر کو بھی کوئی چھوٹ مل سکتی ہے  ۔۔۔ وہ اپنے مذموم عقائد کی بنیاد پہ مسلمانوں کا حصہ قطعی نہیں ہیں تاہم انکےحق میں بھی بڑی ڈھٹائی اوربے شرمی سے الطاف حسین اور چند جیالے و انصافی چیتے و کچھ گلے سڑے دانشور نما حضرات گلا پھاڑتے سنائی دیتے رہتے ہیں اور فاشسٹ لبرلز اور موم بتی مافیاؤں کی جانب سے بہانے بہانے سے انہیں امت مسلمہ ہی کا حصہ باور کرانے اور مظلوم ٹھہرانے کی شرمناک کوششیں کی جاتی ہیں ۔۔۔ لیکن شمع رسالت کے پروانے انکی ان کوششوں کو ہمیشہ سے ناکام بناتے چلے آئے ہیں اور آئندہ بھی انکے پائے استقلال میں کبھی کوئی لرزش نہ آئے گی انشاءاللہ – دین تو بس وہی ہے جو ہے قرآن میں مذکور ۔۔۔۔ خوب جانتے ہیں حق کے شناور کے آذری کیا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply