• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بیرون ملک سے واپسی، وفاق اور حکومت سندھ کی کارکردگی ۔۔۔ معاذ بن محمود

بیرون ملک سے واپسی، وفاق اور حکومت سندھ کی کارکردگی ۔۔۔ معاذ بن محمود

میں دوماہ سے ابو ظہبی میں گھر پر اکیلا تھا۔ ایک ہفتے پہلے تک سوچ سوچ کر ٹینشن ہوتی کہ اگلے دو ماہ گھر پہ اکیلے کیسے گزریں گے۔پھر ایک ہفتے کے اندر اندر کچھ ایسا وقت پلٹا کہ تین دن کے اندر کمپنی مجھے پاکستان جانے کی اجازت پر رضامند ہوگئی، ایمبیسی نےپاکستان کے ٹکٹ کا بندوبست کر دیا، گھر وائینڈ اپ ہوگیا اور میں ابو ظہبی سے دبئی، دبئی سے کراچی اور کراچی میں رمادا ہوٹل کےعارضی کورنٹائن تک آن پہنچا۔ الحمد للّٰہ۔ ثم الحمد للّٰہ۔

اور پھر کچھ لوگ اسے دعاؤں کی قبولیت کی نسبت ایکحسین اتفاق در اتفاقکی chain کہنے پر مصر ہوجاتے ہیں؟ سبحان اللہ۔

سچی بات ہے مجھے کراچی پہنچنے کو لے کر کئی خدشات تھے۔ فلائٹ صبح دس بجے تھی مگر ائیرپورٹ حکام نے ۶ بجے دبئی ائیرپورٹٹرمینل ۲ پہنچنے کی تاکید کی تھی۔ خدشہ تھا کہ سوتا نہ رہ جاؤں۔ خوف تھا کہ کرفیو کی وجہ سے صبح ٹیکسی نہیں ملے گی۔ شک تھا کہ کسیوجہ سے فلائٹ اوور بک ہو کر میں پاکستان نہیں پہنچ پاؤں گا۔ ڈر تھا کہ جہاز کے حالات بہت برے ہوں گے۔ اندازہ تھا کہپاکستان میں ائیرپورٹ پر کرونا کو لے کر سنجیدگی نہیں دکھائی جائے گی جس کے باعث وائرس لگنا یقینی ہوگا۔

الحمد للّٰہ میرے تمام خدشات غلط ثابت ہوئے۔

دبئی میں ہوٹل پہنچنے سے پہلے ہی میں نے صبح ساڑھے پانچ بجے کریم شیڈول کر لی۔ ہوٹل ریسیپشن نے ساڑھے تین بجے جگانے کیدرخواست قبول کرتے ہوئے جگا دیا۔ فلائٹ میں شروع کی سیٹ مل گئی۔ اور سب سے بہترین حقیقت یہ کہ کرونا کو لے کر سندھحکومت کی سنجیدگی اور ذمہ داری کا جو بہترین مظاہرہ دیکھنے کو ملا بخدا دبئی ائیرپورٹ پر بھی وہ سنجیدگی نہ تھی۔

دبئی ائیرپورٹ ٹرمینل ٹو پر پاکستان کی دو فلائٹس کو بیک وقت بلا لیا گیا۔ ان میں ایک فلائٹ کراچی کی تھی، دوسری ملتان کی۔ کراچیکی پرواز صبح سوا دس بجے جبکہ ملتان کی دوپہر سوا ایک بجے کی تھی۔ شاید ملتان کی فلائٹ کسی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوگئی ہو تاہمعموماً ایسے حالات میں مسافروں کو آگاہ کر دیا جاتا ہے۔ پھر دونوں کو بیک وقت بلا کر سوشل ڈسٹینسنگ کی والدہ ہمشیرہ ایک کرنےکی وجہ سمجھ سے باہر رہی۔

حکومت وقت کا شدید ترین ناقد ہونے کے باوجود دو بہترین کاموں کی داد نہ دینا صریحاً بددیانتی ہوگی۔ پہلا کام بیرون ملک پھنسےپاکستانیوں کی واپسی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر فیصلہ جس کے باعث چالیس ہزار کے قریب پاکستانی صرف امارات سے واپس اپنے ملک آرہے ہیں۔پڑوسی ملک بھارت کی جانب سے تاحال اس قسم کے قدم کا عملی مظاہرہ نہیں کیا جاسکا۔ اماراتی حکومت پہلے ہی اس صورتحال پربرہم ہے اور مستقبل میں کوٹہ سسٹم اور ایسے قانون بنانے کا عندیہ دے چکی ہے جن کے تحت تمام ممالک ایسے حالات میں اپنےشہریوں کو اپنا سمجھ کر واپس لانے کے پابند ہوں گے۔ پاکستان اس معاملے میں سری لنکا اور بھارت کی نسبت کامیاب ٹھہرا۔حکومت اس حکمت عملی پر ستائش کی حقدار ہے۔

دوسرا احسن قدم پی آئی اے کی تمام خصوصی پروازوں کا کرایہ تقریباً نصف کرنا تھا۔ یاد رہے کہ یہ قدم ایسے موقع پر اٹھایا گیا جبامارات میں مقیم پاکستانی پہلے ہی شدید ذہنی اور مالی دباؤ سے دوچار ہیں۔ دبئی تا کراچی ٹکٹ ۱۵۵۰ درہم سے کم کر کے ۸۶۰ درہمکیا گیا جبکہ ملتان کا ٹکٹ اب قریب ہزار درہم کا ہے (پرانا ریٹ کنفرم نہیں)۔ اس قدم سے مزدور طبقے اور وزٹ ویزے کےدوران پھنسے پاکستانیوں پر براہ راست مثبت اثر پڑنا طے ہے۔

بہرحال ہم اللہ کا نام لے کر جہاز میں سوار ہوئے۔ جہاز میں ہر دو سیٹوں کے بیچ ایک سیٹ خالی رکھی گئی تھی تاکہ سوشل ڈسٹینسپر عمل درآمد ہوسکے۔ فلائٹ کراچی پہنچی تو قدم قدم پر پانچ فٹ کم سے کم فاصلہ رکھنے کی تاکید پر متعین عملہ مستعدی سے اپنےفرائض سرانجام دیتا دکھائی دیا۔ جہاز سے باہر آنے سے لگیج تک دو جگہ سپرے کیا گیا۔ یہ سپرے کس قدر کارآمد ہے میری اس پر فیالوقت کوئی تحقیق نہیں البتہ سراہے جانے کی بات یہ ہے کہ حکام جہاں تک ممکن ہے وائرس کے پھیلاؤ کو لے کر سنجیدہ ضرور نظرآئے۔ کنوئیر بیلٹس اور سامان ہر بھی سپرے کے نشانات واضح تھے۔

کراچی جناح ٹرمینل کا عمومی خارجی دروازہ بند ہے۔ سامان لینے سے پہلے ہی ایک عدد پرچہ تھما دیا گیا جس میں فلائٹ اور ضرورتکے پیش نظر ضروری کوائف مثلاً پاکستان میں رابطہ نمبر، پاسپورٹ نمبر اور سیٹ نمبر وغیرہ پوچھا گیا تھا۔

اس کے بعد ائیرپورٹ حکام اگلے مرحلے پر ہر کچھ دیر بعد کورنٹائن سے متعلقہ حکومتی پالیسی واضح کرتے دکھائی دیے۔ باہر سے آنےوالا ہر مسافر چاہے تو بلا معاوضہ سرکاری کورنٹائن کی سہولت سے مستفید ہو سکتا ہے یا پھر ۸ سے ۱۴ ہزار روپے فی رات ادائیگی کرکے تین دن ہوٹل میں گزار سکتا ہے۔ تین دن پر محیط یہ دورانیہ دراصل ہوٹل پہنچتے ہی کرونا ٹیسٹ کیے جانے کے بعد عارضی قرنطینہکا دور ہوگا جس میں ہوٹل سے باہر نکلنے پر پابندی ہوگی۔ یہ ریٹ کراچی کے لیے تھے، دوسرے شہروں کے لیے شاید کچھ الگ ہوں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہوٹل انتظامیہ کے بقول پچھلے ٹیسٹ نتائج چونکہ تین دن میں موصول ہوئے تھے لہذا اس بار بھی تیندن کے پیش نظر چارجز لیے جا رہے ہیں۔ اگر اس سے پہلے ٹیسٹ ریزلٹ آجاتے ہیں تو اضافی چارجز واپس کر دیے جائیں گے۔

یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ سرکاری عارضی قرنطینہ کے بارے میں کراچی کی حد تک ملی جلی رائے ہے۔ کچھ لوگوں کا تجربہبہترین رہا جبکہ چند مصدقہ اطلاعات اور ویڈیوز ایسی بھی دیکھنے کو ملیں جہاں بستر پر بچھے گدے اور بیت الخلاء اس قدر غلیظ تھے کہان پر لیٹنا کجا اس کمرے سے باہر بھاگنے کا جی چاہتا تھا۔ حکومت کو اس ضمن میں ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

میں فی الوقت کسی قسم کا رسک لینے کے موڈ میں نہیں تھا لہذا بلا تامل ۱۴ ہزار فی شب کے عوض تین راتیں رمادا ہوٹل میںگزارنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت تک باقی دو مختص ہوٹلوں میں گیلیکسی ہوٹل کراچی ۸ ہزار فی رات اور ائیرپورٹ ہوٹل کراچی ۱۰ہزار فی رات چارجز پر دستیاب ہیں۔ دونوں ہوٹلوں کی بابت میری معلومات ناقص ہیں جبکہ رمادا بین الاقوامی ہوٹل چین ہے جس کاامارات کی حد تک میرا تجربہ برا نہیں لہذا اسی کے حق میں فیصلہ کیا۔ میرا مشورہ ہے کہ باقی دو ہوٹلوں کے بارے میں کسی سےرائے لے کر فیصلہ کیجیے گا۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ اوپر بتائے گئے چارجز فی کس فی کمرہ بنیاد پر ہیں۔ روم شئیرنگ کا آپشن صرف فیملیز کے لیے ہے اور اس صورت میں ۱۴۰۰۰ والے کمرے کے ۱۵۰۰۰ وصول کیے جاتے ہیں۔

یہاں سے مسافرین کے چار گروپ بنائے گئے۔ ایک گروپ سرکاری قرنطینہ والوں کا جبکہ تین گروپس الگ الگ ہوٹل کے۔ انگروپس کو تین پولیس اہلکاروں کی تحویل میں ائیرپورٹ سے باہر بس تک لے جایا گیا۔ بس صاف ستھری تھی۔ بس میں بھی ہر دوسیٹوں پر ایک فرد کے بیٹھنے کی تاکید کی گئی جسے ہمیشہ کی طرح ہماری عوام کے ایک چھوٹے حصے نے نظرانداز کیا۔

ائیرپورٹ سے رمادا ہوٹل تک بس کے آگے، پیچھے اور ایک طرف پولیس کی گاڑی معمور رہی۔ بس میں ایک اور فارم پر کروایا گیاجس میں نام، پتہ اور دستخط کے کوائف پر کرتے ہوئے ایک قسم کی حاضری لی گئی۔ یہاں کے بعد میرا اب تک یعنی عارضی قرنطینہکے پہلے دن تک کا تجربہ رمادا ہوٹل کا ہے لہذا باقی ہوٹلوں کی بابت یہی معلومات الگ ہو سکتی ہے۔ تاہم ہر مرحلے پر حکومتی حکامبشمول پولیس اور محکمہ صحت موجود رہتے ہیں لہذا غالب امکان ہے کہ فرق بہت زیادہ نہیں ہوگا۔

رمادا پہنچنے پر ہر دو اشخاص کے درمیان کم سے کم چار فٹ کا فاصلہ رکھتے ہوئے تمام مسافروں کو ایک بڑے حال کی طرف روانہ کیاگیا۔ حال کے دروازے پر ایک بار پھر سپرے کیا گیا۔ پچھلے سپریز کی نسبت یہ سپرے قدرے مفصل رہا کہ اس بار آنکھیں بند کرکے چہرے تک پر جراثیم کش چھڑکاؤ کیا گیا جس دوران باقاعدہ گھومنے کی تاکید بھی کی گئی۔ حال اچھا خاصہ بڑا تھا جہاں مناسبنشستوں کا بندوبست موجود تھا۔ یہاں پانچ پانچ کر کے ایک بار پھر دو قطاریں بنائی گئیں اور ہر مسافر سے ایک اور فارم پر کروایاگیا۔ یہ ہوٹل کا اپنا فارم تھا۔ ہر فرد سے پاسپورٹ لے کر جمع کیا گیا اور تین دن کے ایڈوانس چارجز لیے گئے۔ آپ یہ چارجز کیش(درہم یا روپے) یا کریڈٹ/ڈیبٹ کارڈ سے ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد ہوٹل کا ایکسیس کارڈ اور سندھ حکومت کی جانب سے قرنطینہکی شرائط پر مبنی ایک کاغذ تھما کر فریش ہونے کے لیے کمرے میں بھیج دیا گیا، اور کہا گیا کہ فریش ہوکر جلدی سے آجائیے ، سندھحکومت کی ٹیسٹنگ ٹیم پہنچنے والی ہے۔

مجھے نہا دھو کر کپڑے بدلنے میں قریب نصف گھنٹا لگا۔ جب تک میں باہر پہنچا محکمہ سندھ کی ٹیم پہنچ چکی تھی۔ ٹیسٹنگ میں میرا نمبرنسبتاً جلد آیا۔ یہ ٹیسٹ کسی حد تک تکلیف دہ تھا جس میں کوٹن بڈ کو نتھنے میں حلق کی حد تک اندر گھسا کر گھمایا جاتا ہے اور سامپل لیاجاتا ہے۔ آدھے گھنٹے کے اندر اندر ٹیسٹ کروا کر میں واپس کمرے میں پہنچ چکا تھا۔

رمادا کا قرنطینہ مسافرین کا سیکشن الگ رکھا گیا ہے۔ کمرہ صاف ستھرا ہے اور شاید عام حالات میں امارات کے اتنے ہی پیسوں میںملنے والے ہوٹلز جیسا ہی۔ ہر کوریڈور کے باہر دو پولیس اہلکار تعینات ہیں۔ اس سیکشن سے متصل ایک ہرا بھرا واکنگ ایریا ہے۔

سفر کے پیش نظر آج میرا روزہ نہیں تھا۔ قریب چھ بجے کمرے کی بیل بجی اور افطاری دی گئی۔ افطار میں چکن بریانی، فَروٹچاٹ، دو اقسام کا میٹھا، سموسے، پکوڑے، کھجوریں اور ہمارا قومی مشروب جام شیریں شامل تھے۔ ذائقے کے لحاظ سے سب کچھمناسب تھا۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ سحری اور افطاری پیکج کے اندر ہی شامل ہیں اور ان کے الگ سے کوئی چارجز نہیں۔ ہاںایک چھوٹا سا مینیو الگ سے موجود ہے جس میں سب سے مہنگا آئیٹم ۹۹۹ علاوہ ٹیکس ہے۔ مجھے چائے کے نرخ جان کر جھٹکا لگاکہ ۲۸۵ روپے کی چائے اور ۲۵۵ کا پانی۔ شاید ایک سال بعد اسی قدر ترقی ممکن تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تفصیلات شاید زیادہ ہوگئیں تاہم کوشش یہی تھی کہ ہم وطنوں خصوصا بیرون ملک پاکستانیوں کے ذہن میں موجود زیادہ سے زیادہسوالات اور شک و شبہات کے حتی الامکان واضح جوابات سامنے آسکیں۔ مجموعی طور پر مجھے حکومت سندھ کی انتظامیہ اور محکمہصحت کے اندر موجود احساس ذمہ داری اور سنجیدگی کو دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ ایک بار پھر وفاق کی جانب سے بیرون ملکپھنسے پاکستانیوں کو واپس لانے کا فیصلہ اور ٹکٹ کی قیمت میں کمی کا اعلان بہت خوش آئیند محسوس ہوا۔ آگے بھی دعا ہے کہخداوند کریم حکومت کو ایسے ہی مثبت اور فلاحی اقدامات کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”بیرون ملک سے واپسی، وفاق اور حکومت سندھ کی کارکردگی ۔۔۔ معاذ بن محمود

Leave a Reply