• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(سینتیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(سینتیسواں دن)۔۔گوتم حیات

آج مجھ سے کچھ بھی نہیں لکھا جا رہا۔ایسا لگ رہا ہے کہ لکھنے کے لیے سب الفاظ ختم ہو گئے ہیں۔ اس وقت رات کے نو بجنے والے ہیں۔ میں گزشتہ دو گھنٹوں سے اس سوچ بچار میں ہوں کہ کیا لکھوں۔۔۔۔ کیسے لکھوں؟

آج میں اپنی ڈائری کی   37 ویں قسط  لکھ رہا ہوں۔
لکھنا ایک مشکل عمل ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ ایک مشکل ترین عمل ہے، اس بات کا اندازہ مجھے آج سے دو دہائیوں قبل ہی ہو گیا تھا جب میں نے ادب کا مطالعہ شروع کیا تھا۔ اُن دنوں میں کسی بھی ناول یا افسانے کو پڑھ کر حیرت میں ڈوب جاتا تھا۔ افسردگی طاری ہو جاتی اور میں اپنے آپ کو جھوٹی تسلّی دینے کے لیے کہتا کہ یہ تو فکشن ہے، کوئی سچ تھوڑی ہے جو میں یوں ان کرداروں کے غم میں گھلا جا رہا ہوں۔ لیکن پھر اچانک ہی میں سوچنے لگتا کہ نہیں یہ محض فکشن نہیں ہے، یہ فکشن سے بڑھ کر ہے۔۔۔ سب ہی کردار تو فرضی نہیں ہو سکتے۔اس میں کچھ نہ کچھ تو صداقت ہے۔ اگر ان کرداروں میں صداقت نہ ہوتی تو میں کبھی بھی ان افسانوں یا ناولوں کے کرداروں کے لیے مغموم نہ ہوتا۔

کچھ ہے ایسا جو ہمیں ان لفظوں سے جوڑتا ہے۔۔۔ جن کو ہم پڑھتے ہیں اور پھر ان میں جذب ہو جاتے ہیں۔ لفظوں کی صورت میں ہماری آنکھوں کے سامنے وہ کردار زندہ ہو کر اپنی سچائی کی جھلک دکھاتے ہیں اور پھر کہیں روپوش ہو جاتے ہیں۔ کرداروں کے دکھ  سُکھ، ان کی خوشیاں، اور ان کے جذبات ہمارے وجود میں سرائیت کر جاتے ہیں جن کو ہم کبھی بھی اپنے سے علیحدہ نہیں کر سکتے۔ اُس زمانے میں پڑھے گئے بہت سے کرداروں سے مجھے دِلی ہمدردی ہے، ابھی بھی وہ کردار میرے ساتھ سفر کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اشفاق احمد کا گڈریا، قرۃ العین حیدر کے ناولوں کے انگنت کردار، منٹو، غلام عباس کے افسانوں کے کچھ کردار اور احمد ندیم قاسمی کا پرمیشر سنگھ۔۔۔۔ غرض ایک طویل فہرست ہے۔ اس “قسط” میں کس کا نام لکھوں اور کس کو نظرانداز کروں، یہ تو ان سب کرداروں کے ساتھ زیادتی ہو گی جو عرصے سے میرے ساتھ ہیں۔ یہاں میں بات کو مختصر کرتے ہوئے ایک کردار  کا ہی ذکر  کروں گا۔
وہ کردار ہے “راجہ گدھ” کی “سیمی پاشا” کا۔ اس کردار کو تخلیق کیا بانو قدسیہ نے۔ یہ میری زندگی کا وہ پہلا ناول تھا جس کو میں نے پڑھا اور پھر اس ناول کے بعد میں نے باقاعدگی سے ادب کا مطالعہ شروع کر دیا تھا (مطالعہ ابھی بھی جاری ہے)۔

یونیورسٹی میں میرا تیسرا سال تھا۔ تقریباً سب ہی کو اس بات کی خبر ہو چکی تھی کہ عاطف ہر وقت اردو کے ناولوں میں غرق رہتا ہے۔ ایک صبح آرٹس لابی میں “فائن آرٹس” کی  سٹوڈنٹ میرے پاس آئی، اپنا تعارف کروانے کے بعد اس نے مجھ سے کہا۔۔
میں نے سنا ہے آپ نے کافی سارے اردو کے ناول پڑھے ہوۓ ہیں۔۔۔۔ میں نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ، نہیں اب ایسا بھی نہیں ہے، کافی سارے تو نہیں، ہاں کچھ ناول پڑھے ہوۓ ہیں۔ میری بات سن کر اُس نے مجھے بتایا کہ
“میں ایک چھوٹی سی ذاتی قسم کی ریسرچ کر رہی ہوں (اس ریسرچ کا اس کے شعبے سے کوئی تعلق نہیں تھا) اردو میں شائع ہونے والے ناولوں کے کرداروں پر، میرا ماننا ہے کہ اردو کے بہت سے ناولوں کے کردار ایسے ہیں جو عریانی کے زمرے میں آتے ہیں، ایک ادیبہ ہیں بانو قدسیہ انہوں نے اپنے ناول “راجہ گدھ” میں “ولگیریٹی” کا مظاہرہ کیا ہے، خصوصی طور پر ان کا وہ کردار جس کا نام سیمی ہے۔۔۔”

اپنے سامنے کھڑی ہوئی “فائن آرٹس” کی  سٹوڈنٹ کی بات سن کر مجھے حیرانگی ہوئی کہ “آخر یہ کہنا کیا چاہ رہی ہے۔ سیمی پاشا نے راجہ گدھ میں ولگیریٹی کا مظاہرہ۔۔۔؟”
اُس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ۔۔
“ہمارے مذہب اسلام میں اس طرح کے تعلقات کی کوئی گنجائش نہیں ہے، شریعت کی رو سے بھی یہ حرام ہے۔
بانو قدسیہ کو یہ ناول لکھتے ہوئے کچھ تو لحاظ رکھنا چاہیے تھا۔ ان کا یہ ناول پڑھنے والوں کو فحاشی و عریانی کی طرف مائل کر رہا ہے۔سیمی پاشا۔۔ ”
وہ کافی دیر تک “سیمی پاشا” کے بدن پر اپنے عقیدے کی صلیبیں گاڑتی رہی۔۔۔ جب وہ خاموش ہو چکی تو میں نے اس سے کہا۔۔
“میں نہیں سمجھتا کہ بانو قدسیہ نے کوئی نیا کام کیا ہے، مجھے لگتا ہے کہ آپ نے زیادہ مطالعہ نہیں کر رکھا، ادب میں تو وہی کچھ بیان کیا جاتا ہے جو ہمارے گرد ہو رہا ہے یا ہوتا آیا ہے۔ بانو قدسیہ نے بھی اپنے کرداروں کے ذریعے اُسی چیز کو دکھانے کی کوشش کی جو انہوں نے اپنے اطراف دیکھا۔ انسان کی زندگی کو ہم کسی ایک اصول یا کسی ایک عقیدے کے تابع نہیں کر سکتے۔ کسی ایک مذہبی عقیدے پر ایمان رکھتے ہوئے بھی انسان مکمل طور پر خود کو اس کا پابند نہیں بنا سکتا۔ ہر انسان اپنی فہم کے مطابق زندگی کو گزارتا ہے۔ خواہشات سے کوئی بھی انسان انکار نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ اپنے جذبات کو مکمل طور عقیدوں کی بھینٹ چڑھا سکتا ہے۔ اگر انسان کے جسم سے جذبات نچوڑ لیے جائیں تو وہ ایک روبوٹک مشین بن کر رہ جائے گا پھر آپ اس کو اپنے من پسند اصولوں کے تحت زندگی گزارتے ہوئے دیکھ سکتی ہیں ۔۔ لیکن یہ ناممکن سی بات ہے کہ انسان جذبات کے بِنا زندگی گزارے۔ یہ تو ایک فطری سی بات ہے۔ انسان کسی کی کشش میں گرفتار ہو کر اپنے آپ سے بیگانہ ہو سکتا ہے اور ہوتا بھی ہے۔۔۔ خود پر اپنا اختیار کھو بیٹھتا ہے، لاکھ کوشش کے باوجود وہ اس سحر سے نہیں نکل سکتا۔ آخر اسی کشمکش، بےچینی اور بےقراری کی کیفیت میں وہ ختم ہو جاتا ہے۔ اب آپ انسان کی اس لاچارگی کو شریعت کے ترازو میں تولیں  گی تو کبھی بھی کامیاب نہ ہو پائیں گی۔ مجھے تو “سیمی پاشا” سے مکمل ہمدردی ہے، آج بھی اس کردار کے بارے میں سوچتے ہوئے میں اداس ہو جاتا ہوں۔ “راجہ گدھ” پڑھنے کے دوران مجھے “ولگیریٹی” کا ذرا بھی احساس نہیں ہوا۔ جانے آپ کیسی لڑکی ہیں  جو سیمی پاشا کو “ولگر” کے ٹائٹل سے نواز رہی ہیں ۔ آپ کی باتیں میری سمجھ سے باہر ہیں۔۔۔”

میری بات سن کر وہ خاموش رہی۔۔۔ کچھ بھی نہ بولی۔ مجھے کلاس کے لیے جانا تھا وقت بھی کافی ہو گیا تھا، جاتے جاتے میں نے ایک آخری بات اس کے گوش گزار کی۔
میں نے اُس اجنبی لڑکی سے پوچھا تھا۔۔
“اگر ادب میں مذہب یا شریعت کے من پسند اصولوں کو نافذ کر دیا جائے تو پھر ہمارے پاس کیا چیز بچے گی پڑھنے کے لیے۔۔ کل کو یہ مذہبی پیشوا شریعت کے نام پر سورہ یوسف کی آیات پر بھی پابندی کا مطالبہ کریں گے۔۔۔ تو کیا آپ ان کی بات مانیں  گی؟”

میں نے جلدی جلدی اُس کے چہرے کا بغور جائزہ لیا، اس کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں تھا۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ہم نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور اپنے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف چل دیے۔ وہ ہماری پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ اس ملاقات کے بعد ہمارا کبھی سامنا نہ ہوا، دوبارہ وہ مجھے کبھی نظر ہی نہیں آئی۔

لاک ڈاؤن کے چھتیس دن گزارنے کے بعد آج مجھے اچانک اس کی یاد آگئی۔۔۔ میں سوچ رہا ہوں کہ فائن آرٹس کی وہ لڑکی جس کا میں نام تک فراموش کر چکا ہوں اس وقت کہاں ہو گی۔؟؟ کیا وہ اپنی چھوٹی سی ذاتی قسم کی ریسرچ مکمل کر پائی ہو گی۔؟
اگر اس نے وہ ریسرچ مکمل کی ہو گی تو وہ کون خوش قسمت ہوں گے جنہوں نے اس کی “ذاتی قسم کی ریسرچ” کو پڑھا ہو گا۔؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ “سیمی پاشا” کی طرح وہ لڑکی بھی خودکشی کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کر چکی ہو۔۔۔؟ کیونکہ انسان کی زندگی کسی مذہب، شریعت یا سماجی و سیاسی نظریوں اور اصولوں کی محتاج نہیں ہوا کرتی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply