• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مذہب میں سوچنے سمجھنے اور تنقیدی جائزہ لینے کی پابندی،حقیقت کیا ہے؟۔۔۔خرم خان

مذہب میں سوچنے سمجھنے اور تنقیدی جائزہ لینے کی پابندی،حقیقت کیا ہے؟۔۔۔خرم خان

مذہب پر یہ الزام کہ اس میں سوچنے سمجھنے، غورو فکر، اورتنقیدی نظر یا جائزہ لینے کی پابندی ہوتی ہے سوائے الزام اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کے اور کچھ نہیں  ۔ اور شاید اس کے ماننے والے سب سے زیادہ اس پروپیگنڈہ  کا نا صرف شکار ہوتے ہیں، بلکہ اس کو خود بھی ٹھیک ہی  سمجھتے ہیں اور اس کو اپنے عمل اور مذہب کی تبلیغ میں شامل بھی کرتے ہیں۔ تقریباً ہر مذہب میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو چاہتے ہیں کہ  مذہب پر ان کی اجارہ داری ہو  گی ،اور وہ جس عمل اور عقیدے کو مذہب کہہ دیں گے بس وہ ہی مذہب کہلائے گا اور ان کا کہنا حرفِ آخر کہلائے گا اور ان پر سوالات نہیں  اٹھائے جا سکتے اور نہ  کوئی نئی تحقیق کی گنجائیش ہوگی۔

اسی غیر فطری اور غیر علمی رویے کی وجہ سے کافی لوگ خاص طور پر نئی نسل مذہب کو وہ حیثیت  یا اہمیت نہیں  دیتی جس کا وہ متقاضی ہے۔ کیونکہ کسی بھی انسان کا فہم سو فیصدغلطی سے پاک نہیں  ہو سکتا، تو سوالات اور تحقیق پر پابندی لگانے سے و ہی ہوتا ہے جو ایک جگہ کھڑے پانی کے تالاب میں ہوتا ہے کہ اس میں ایک عرصے کے بعد بوُ اٹھنے لگ جاتی ہے، بجائے اس کے کہ اُس سے کسی کو فائدہ ہو وہ ہر  ایک  کے لیے اذیت بن جاتا ہے۔

ہمیں یہ رویہ بدلنا ہوگا ،کیونکہ اسی رویے کی  بدولت  اس جدید علمی اور تحقیقی دور میں نا صرف مذہب پر انتہائی درجے کی تنقید  آتی ہے،  بلکہ لوگ  بڑی  تعداد میں مذہب سے متنفر ہوتے جارہے ہیں۔

میں جس مذہب کا ماننے والا ہوں، جب تک میں نے اس کو خود علمی طریقے سے جاننے کی کوشش نہیں  کی تھی اور اس کی کتاب کا خود مطالعہ نہیں  کیا تھا، تو میں بھی ہمیشہ یہ ہی سمجھتا رہا کہ  مذہب ہم پر ہر قسم کی سوچنے سمجھنے، غورو فکر، مشاہدہ اورتنقیدی نظر یا جائزہ لینے پر پابندی لگاتا ہے۔ جب کہ یہ  بات سراسر نا صرف غلط ہے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ غور و فکر اور تنقیدی نظر کا رویہ برقرار رکھیں کیونکہ یہ ہی رویہ خود بخود کائنات کے خالق سے متعارف کروادے گا۔

مثال کے طور پر مندرجہ ذیل آیات کو ملاحظہ کیجیے اور دیکھیے کیسے اللہ رب العزّت کے ایک جلیل القدر پیغمبر   نظامِ فلکیات پر تنقیدی نظر ڈال کر اپنے خالق کو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔

اِنھیں ابراہیم کا واقعہ سناؤ، جب اُس نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا:کیا تم بتوں کو معبود بنائے بیٹھے ہو؟ میں تو تمھیں اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھ رہا ہوں۔

ابراہیم کو ہم اِسی طرح زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مشاہدہ کراتے تھے تاکہ وہ اپنی قوم پر حجت قائم کرے اور خود بھی اُن لوگوں میں سے ہو جائے جو پورا یقین رکھنے والے ہوں۔ چنانچہ (ایک دن)جب اُس پر رات طاری ہوئی تو اُس نے تارہ دیکھا (اور لوگوں کو متوجہ دیکھ کر) کہا: یہ میرا رب ہے۔ پھر (اِسی طرح کے ایک موقع پر) جب تارہ  ڈوب گیا تو اُس نے کہا: میں (خدائی کے لیے) اُن کو پسند نہیں کرسکتا جو ڈوب جاتے ہیں۔

پھر (ایک دن) جب چاند کو چمکتے دیکھا تو کہا:یہ میرا رب ہے۔ لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو اُس نے کہا: اگر میرے پروردگار نے میری رہنمائی نہ فرمائی تو میں گمراہ لوگوں میں سے ہو کر رہ جاؤں گا۔

پھر (ایک دن) جب سورج کو چمکتے دیکھا تو کہا: یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے۔لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو اُس نے (اپنی قوم کو مخاطب کرکے) کہا: میری قوم کے لوگو، میں اُن سب سے بَری ہوں جنہیں تم (خدا کے) شریک ٹھہراتے ہو۔ میں نے یکسو ہو کر اپنا رخ اُس ہستی کی طرف کر لیا ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔

اُس کی قوم (اِس بات پر) اُس سے جھگڑنے لگی۔ اُس نے جواب دیا: کیا تم اللہ کے بارے میں مجھ سے جھگڑتے ہو،  حالانکہ اُس نے میری رہنمائی فرمائی ہے؟ میں اُن سے نہیں ڈرتا جنہیں تم اُس کا شریک ٹھہراتے ہو۔ ہاں، اگر میرا پروردگار ہی کچھ چاہے۔ میرے پروردگار کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
قرآن ۶ ۔ ۷۵ : ۸۰

یہ آیات پڑھ کر کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ مذہب میں غور و فکر اور مشاہدے پر پابندی ہے؟؟ یہ مشاہدہ ہی ہے  جو سائنس کی اساس ہے اور اللہ کے پیغمبر خود اس کا استعمال کرکے حق بات پر پہنچنا چاہ رہے تھے، حالانکہ ان کے والد خود بتوں کو پوجنے والے تھے، چاہتے تو ماں باپ کے مذہب پر چلتے جو کہ زیادہ تر لوگوں کا رویہ ہوتا ہے، مذہب کے بارے میں۔ اللہ تعالیٰ کا اپنی کتاب میں یہ واقعہ اس طرح پیش کرنے سے پہلے یہ کہنا کہ اس طریقے سے پورا یقین ہو جائے۔۔

“ابراہیم کو ہم اِسی طرح زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مشاہدہ کراتے تھے تاکہ وہ اپنی قوم پر حجت قائم کرے اور خود بھی اُن لوگوں میں سے ہو جائے جو پورا یقین رکھنے والے ہوں۔”

یعنی یہ تحقیق اور مشاہدے کرنے کا رویہ ہر لحاظ سے ہماری عقل کو کامل یقین دے گا بغیر کسی خلجان کے۔ اگر تو کوئی مذہب واقعی اس پروردگار کی طرف سے بھیجا گیا ہے کہ جس نے ہمیں  خود پیدا کیا ہے اور غور و فکر اور مشاہدہ کر کے کسی نتیجے پر پہنچنے کی صلاحیت دی ہے تو یہ ممکن نہیں  کہ وہ ہم سے یہ تقاضا  کرے کے مذہب میں غورو فکر کی گنجائش نہیں  ہے۔ اگر کوئی مذہب اس بات کا متقاضی ہے تو یہ ہی اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ وہ مذہب اس خدا کا نہیں  ہو سکتا جس نے ہم انسانوں کو پیدا کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر کو ڈر کس بات کا ہے کہ سوال اور غورو فکر نہ  کرو ؟۔۔یا مذہب کے مقدمے میں کمزوری پائی جاتی ہے؟ کیا وہ خدا جس نے انسانوں اور کائنات کو پیدا کیا وہ ہمارے سوالات   سے ڈرتا ہوگا ؟کیونکہ کہیں کوئی کمزوری پائی جاتی ہے؟ ہم سب کو جو بھی مذہب کو ماننے والے ہیں، یہ جاننا چاہیے کہ اگر   ہمارا مذہب غوروفکر کرنے پر پابندی عائد کرتا ہے اور اگر پابندی عائد کرتا ہے تو پھر ہمیں  سوچنا ہوگا کہ کیا جس مذہب کو ہم مانتے ہیں وہ واقعی اس خدا کا مذہب ہے جس نے ہمیں   پیدا کیا ہے؟

Facebook Comments

خرم خان
شعبہ سوفٹوئیر انجئینیرنگ سے تعلق ہے میرا۔ مذہب کے فہم کو بڑھانے کے لئے قرآن کا مطالعہ کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ اسلام کے مختلف اہل علم کی رائے اور فہم کو پڑھ اور سن کر اپنا علم بڑھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ مذہب میں تقلیدی رویے کی شدید مذمت کرتا ہوں، اور عقل کے استعمال کو فروغ دیتا ہوں جیسا کہ قرآن کا تقاضہ ہے، اور کسی بھی فرقے سے تعلق نہی رکھتا، صرف مسلمان کہلانا پسند کرتا ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply