• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اشرافیہ کا “سرکاراما” اور ریاستی بحران /ناصر منصور

اشرافیہ کا “سرکاراما” اور ریاستی بحران /ناصر منصور

عدالتی بحران جس شدت کے ساتھ اُبھر رہا ہے اس کی جڑیں ملک میں مقتدرہ قوتوں کے درمیان جاری طاقت کے توازن میں تبدیلی کی جنگ سے جوڑنے کے سِوا کوئی چارہ ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کے 24 کروڑ سے زائد شہری اپنی آواز اور دیکھنے کی قوت سے عرصہ ہُوا محروم کر دیے گئے ہیں،اور ریاست کی قسمت کا فیصلہ ایک تکون ہی کرتی ہے جس میں سیاسی اشرافیہ جو سیاسی جماعتوں کی صورت اپنا اظہار کرتی ہیں تو تکون کے ایک کنارے پر عدلیہ کی بالائی منزل یعنی سپریم کورٹ اور کسی حد تک ہائی کورٹس میں بیٹھے کئی ایک طالع آزماء ججز ہیں۔ اس تکون کا سب سے طاقت ور ترین حصہ فوج کا ادارہ ہے جو اپنی مطلق قوت کے ساتھ ہر بار نا  صرف عدلیہ کو اپنے منصوبوں کے لئے جوڑ لیتا ہے بلکہ تکون کے نسبتاً کمزور حصّہ یعنی سیاسی اشرافیہ کے ایک حصّہ کو بھی توڑ کر اپنے ساتھ ملا کر ریاست کے تمام امور کا نگراں اعلیٰ  بن بیٹھا ہے۔

اس بار لگ یوں رہا ہے کہ تکون کا طاقت ور حصہ یعنی فوج ،تجربہ کار سیاسی اشرافیہ کو ساتھ ملانے کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے ایک ظاہرا ً باوقار حصّہ کو بھی بوجوہ ان کے اپنے انتظامی و ذاتی تضادات کے اپنے ساتھ جوڑنے میں کسی حد تک کامیاب  ہوگئی ہے۔ یہ تجربہ کیا نتائج دیتا ہے اس کے لئے کچھ انتظار ضروری ہے ۔ یہ نئی صف بندی ہی تو ہے کہ مریم صاحبہ اور بلاول بھٹو صاحب کے لہجوں میں بلا کا اعتماد ہے کہ یہ دونوں عدلیہ جو کہ تکون میں فوجی توازن کے لئے کام کرتا ادارہ تھا ،پر پارلیمینٹ اور چوراہوں پر براہِ  راست حملہ آور ہو رہے ہیں۔

آج کا سب سے بڑا سچ یہی ہے کہ ریاست کے تمام ادارے مفلوک الحال عوام کی نظروں میں اپنی وقعت اور تقدس کھو چکے ہیں ۔ تاریخی طور  پر عدلیہ ، افواج اور سیاسی اشرافیہ عوام کے اعتماد اور بھروسے پر پورا نہیں اُترے۔جہاں  24 کروڑ  کی آبادی والی ریاست کے 10 کروڑ  سے زائد شہری غربت کی سطح سے نیچے یعنی غیر انسانی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں ،غیر انسانی کا مطلب ہے جانوروں جیسی زندگی اور پھر ریاستی بحران بتائے کہ اس سال کے آخر تک مزید ایک کروڑ اسّی لاکھ زندہ جیتے جاگتے انسان جانوروں کے باڑے یعنی غربت کی لائن سے نیچے چلے جائیں گے تو پھر ریاست کی ساخت اور اس کی ترجیحات پر سوال تو بنتا ہے۔ یہ ریاست صدی کی تین چوتھائی عبور کرنے کے بعد اپنے شہریوں کو خوراک فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ مفت آٹے اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے ریاستی منصوبوں نے شہریوں کو بھکاری بنانے کے سِوا دیا ہی کیا ہے۔؟

عموماَ ہوا تو یہی ہے کہ تکون کے جس حصّہ پر فوج ہاتھ رکھ دے وہ طے شدہ منزل پا ہی لیتا ہے اور اس کے لئے منزل کی جانب جاتے راستوں کی رکاوٹیں تیزی سے  غائب ہونا شروع ہو جاتی ہیں ۔عدلیہ خصوصاً  چیف جسٹس کی اونچی اْڑان بھرتے پروں کو نا  صرف پارلیمنٹ نے کاٹنے کا انتظام کرلیا ہے بلکہ عدلیہ کے اپنے اندر سے بھی چیف جسٹس کی پرواز کو محدود کرنے کی منصوبہ بندی ہوچکی ہے۔ ہم خیال ججز اور چیف جسٹس پر بُرا وقت ہے ، ان کے لیے ہر لحظہ بڑھتی مشکلات پر میاں محمد بخش کا شعر یاد آ رہا ہے کہ

‏پَھس گئی جان شکنجے اَندر، جُوں ویلن وِچ گَنا
رَوہ نو کہو ہُن رَہوے مُحمد، ہُن رہوے تے مَناں

(جان شکنجے میں اس طرح جا پھنسی ہے جیسے بیلنے میں گنا پھنس جاتا ہے ۔رس سے کہو کہ اب گنےکے اندر رہ کر دکھائے ۔ اگر رہ جائے تو پھر اسے مانیں)۔

کل تک بکری بنی پارلیمنٹ شیر بن کر دھاڑ رہی ہے اور چیتے کی مانند مخالفین پر حملہ آور ہے۔ یہ سب ایسا بھی نہیں کہ یہ سب کسی پردہ داری میں ہو رہا ہو۔ یہ وہی پارلیمنٹ ہے ناں جو اسی عدلیہ کے فیصلے کے مطابق عمران خان ، قاسم سوری اور عارف علوی کے وفاقی اسمبلی توڑنے کے اقدام کو غیر آئینی قرار دینے کے باوجود دم سادھے پڑی رہی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ حالانکہ یہ وہ وقت تھا جب اسمبلی برخاست کرنے پر تُلے وزیر اعظم اور اس کے ساتھ صدر اور ڈپٹی اسپیکر عوام کے شدید غیض و غضب کا نشانہ بنے ہوئے تھے لیکن نیم مردہ پارلیمنٹ میں بیٹھی سیاسی اشرافیہ اقتدار کے نشہ میں اس کھلی آئین شکنی پر “چوں” بھی نہ کرسکی کیوں کہ پنڈی سے اشارہ نہیں تھا۔

اب سب کچھ نئی صف بندی کے مطابق سیدھا ہونے جارہا ہے ،یوں پورا سسٹم اپوزیشن میں بیٹھی سیاسی اشرافیہ کے اقلیتی حصّہ خصوصاً عمران خان کو تمام تر ڈھیل کے باوجود فی الوقت سیاسی منظر نامہ کا کمزور مہرہ بنانے جا رہا ہے۔ جب کہ نواز شریف اور دیگر کے لئے راستہ ہموار کیا جارہا ہے۔ جن کے ساتھ پرانے سسٹم نے انتہائی شرم ناک اور ہتک آمیز سلوک کیا۔

یوں اس اُبھرتے سیاسی منظر نامہ کے خدوخال بتارہے ہیں کہ عمران کو ان کے کالے کرتوتوں کے کارن اس قدر مفلوج   کردیا جائے گا کہ وہ آنے والے سالوں میں کوئی موثر کردار ادا نہ کر پائے لیکن اسے اس قدر سانس لینے  کی اجازت رہے گی کہ اسے آکسیجن ٹینٹ سے کسی وقت بھی باہر نکال کر موجودہ سیاسی اشرافیہ کے گروہ کے خلاف استعمال کیاجاسکے۔

سیاسی اشرفیہ کا ایک حصّہ جو جمہوریت پسند ، روشن خیال اور بعض معنوں میں ترقی پسندی پر خود کو معمور تصور کرتا تھا اس نے ظاہرا ً فوجی اشرافیہ کے  ہاتھوں بیعت کرلی ہے ،یہ سیاسی تقیہ ہے یا کہ حقیقتاً  راستہ بدل لیا ہے۔ حالات و اقعات تو بتار رہے ہیں کہ ان کا نظری  ظاہر و باطن ایک ہو گیا ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو صاحب کا بھارت مخالف جارحانہ رویہ اور ان کی نائب کا طالبان سے ملنا ثابت کرتا ہے کہ تکون کے طاقت ور حلقے کے نظری مقاصد کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔

اگر یہ سب اُسی طرح ہوجاتا ہے جس طرح سوچا یا منصوبہ بندی کی جارہی ہے تو پھر عدلیہ کا ایک بڑا حصّہ فوج اور برسر ِ اقتدار سیاسی اشرفیہ مل کر ایک ایسی تکون بننے جا رہے ہیں جن کے درمیان فی الوقت کوئی بڑا تضاد نہیں۔ فرض کیجیے  نواز شریف واپس آجاتے ہیں ، عمران خان سیاسی منظرنامہ پر آنے والے دنوں میں  کوئی بڑا  تھریٹ نہیں رہتے اور انتخابات کا انعقاد بھی نئی اُبھرتی تکون کی مرضی اور منشاء کے طے کردہ وقت پر ہی ہوتا ہے، تو کیا موجودہ بحران سے نکلنا ممکن ہو گا۔ ؟

میری دانست میں اس کے کم ہی امکانات نظر آتے ہیں ،وجہ یہ ہے کہ یہ حکومتی نہیں ریاست کو درپیش بحران ہے، یہ بحران ریاست کی بُنت اور بنیادوں میں پڑنے والی دراڑوں کا بحران ہے جوکہ اس کی سرشت پر سوال اٹھارہا ہے ، یہ بحران ریاست کی ناکامی کا سوال لئے ہوئے ہے ،جسے دہائیوں سے طاقت کے زور پر ٹالا جاتا رہا ہے۔

آج کا سب سے بڑا سچ یہی ہے کہ ریاست کے تمام ادارے مفلوک الحال عوام کی نظروں میں اپنی وقعت اور تقدس کھو چکے ہیں ۔ تاریخی طور  پر عدلیہ ، افواج اور سیاسی اشرافیہ عوام کے اعتماد اور بھروسے پر پورا نہیں اُترے۔جہاں  24 کروڑ  کی آبادی والی ریاست کے 10 کروڑ  سے زائد شہری غربت کی سطح سے نیچے یعنی غیر انسانی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں ،غیر انسانی کا مطلب ہے جانوروں جیسی زندگی اور پھر ریاستی بحران بتائے کہ اس سال کے آخر تک مزید ایک کروڑ اسّی لاکھ زندہ جیتے جاگتے انسان جانوروں کے باڑے یعنی غربت کی لائن سے نیچے چلے جائیں گے تو پھر ریاست کی ساخت اور اس کی ترجیحات پر سوال تو بنتا ہے۔ یہ ریاست صدی کی تین چوتھائی عبور کرنے کے بعد اپنے شہریوں کو خوراک فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ مفت آٹے اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے ریاستی منصوبوں نے شہریوں کو بھکاری بنانے کے سوا دیا ہی کیا ہے۔؟

ایسی ریاست کو کیا کہیں جہاں شہری آٹے کے حصول کے  لیے جانیں گنوا رہے ہیں، وہاں ریاست گیارہ لاکھ نفوس پر مشتمل فوج پر نو اعشاریہ پانچ ارب ڈالر سالانہ یعنی آج کے حساب سے دو اعشاریہ سات ٹریلین روپےخرچ کر رہی ہو ،اور وفاقی بیوروکریسی کی عیاشیوں کے لئے ایک اعشاریہ دو ٹریلین روپے جھونک دے۔ یہ کیسی ریاست ہے جو اپنی جی ڈی پی ( تین دو اڑتالیس اعشاریہ تین بلین ڈالر ) کا 53 فی صد صرف قرضوں پر سود کی ادائیگی ، فوجی اخراجات اور تنخواہوں کی ادائیگی کی مد میں  صرف کرتی ہے ۔
یہ ایسی ریاست ہے جو شہریوں سے کیے آئینی وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے آج اس کے بنیادی ڈھانچوں کے انہدام کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ ریاست کی مجرمانہ غفلت کے ضمن میں ابھی شہریوں کو صاف پینے کے پانی جیسی بنیادی ضرورت کی فراہمی میں ناکامی سے لے کر حالیہ بارشوں اور سیلاب کے متاثرہ پونے چار کروڑ انسانوں کی بات نہیں ہو رہی جنہیں ریاستی بے حسی نے حالات کے رحم و کرم پر لاچار و بے یارومدگار چھوڑ رکھا ہے۔

ریاستی تکون کی نمائندہ قوتوں کو اندازہ ہی نہیں کہ ریاست کا بنیادی ڈھانچہ ہی لرز رہا ہے ، گو ملک کی ساری اشرافیہ باہمی تضادات کی بنا پر ننگی اور کم زور ہو رہی ہے لیکن انہیں گمان یہی ہے کہ وہ مزید قوت پا رہے ہیں اور یہی خناس ریاست کو نہ ختم ہونے والے بحران میں دھکیل چکا ہے۔ معیشت کی رہی سہی بنیادیں کھوکھلی ہو رہی ہیں ، کوئی بھی بین الاقوامی مالیاتی ادارہ اسے گروی رکھنے کو بھی تیار نہیں ، نام نہاد دوست ممالک کی مالی اعانت بھی اسے گرداب سے نہیں نکال پائے گی۔ ریاست کی مقتدرہ تکون اپنی جبلت کے عین مطابق اپنے  ہی شہریوں کے خلاف کھڑی ہے ، ریاست کا معاشی و سیاسی ڈھانچہ ایڈز زدہ ہو چکا ہے۔ اس کا علاج  سطحی اقدامات سے ممکن نہیں۔ ریاست کے طاقت ور حصّے جو کر رہے ہیں ، کرتے آ رہے اس کے بھیانک نتائج خطہ کے اربوں عوام بھگت رہے ہیں( اس پر بات پھر کبھی تفصیل سے کریں گے)۔

ریاست کو اب اپنا صدی کے تین چوتھائی سے جاری انسان کش مشن ترک کرتے ہوئے تاریخی ” یو ٹرن ” لیتے ہوئے اپنے سیاسی ، معاشی اور سفارتی محاذ  پر مسلط کردہ خود کش نظری بیانیہ کو خیرباد کہنا ہی پڑے گا۔

وقت اور حالات عرصہ دراز سے تقاضا کر رہے ہیں کہ فوج سیاسی، کاروباری اور دیگر معاملات میں مداخلت و حصہ داری ختم کر دے ، فوجی اور بیوروکریسی کے غیر ضروری اخراجات میں بھاری کٹوتی کی جائے،ریڈیکل زرعی اصلاحات کے ذریعے زرعی اراضی بے زمین کسان اور ہاری خان دانوں میں مفت تقسیم کی جائے تاکہ آدھی سے زائد آبادی کی قو ت خرید میں خاطر خواہ اضافہ ہو اور صنعت کا پہیہ رواں ہو سکے۔

انعام و اکرام میں دی گئی زرعی اراضی، فارم ہاؤسز اور پلاٹس واگزار کرائے جائیں، ریاست کی بنیادوں کو حقیقی معنوں میں وفاقی اکائیوں کے رضاکارانہ اتحاد پر مبنی جمہوری وفاق کی حیثیت سے عملاً  تسلیم کیا جائے ، شہریوں کے جبرا ً لاپتہ کیے جانے اور جبر کے زور پر اختلافی آوازیں دبانے کے عمل کو روکا جائے ، ہمیں اپنے تاریخی و ثقافتی جڑت کے لئے مغرب کی جانب دیکھنے کی بجائے مشرق کی جانب در کھولنے چاہئیں ، بھارت سے تجارتی و سفارتی تعلقات کا آغاز بِلا کسی شرط کیا جانا خطہ کے امن اور ترقی کے لئے ضروری ہے ، اگر چین بھارت سے تمام تر سرحدی تنازعات اور جنگ کے باوجود سالانہ ایک سو چھتیس ارب ڈالرز کی تجارت کر سکتا ہے  تو پاکستان کیوں نہیں ؟ ۔

سبھی کو معلوم ہے کہ یہ سب کچھ کرنے سے ریاست پر قابض اشرافیہ کے مفادات پر ضرب پڑے گی جو وہ کبھی بھی نہیں ہونے دیں گے۔ اس پر بدقسمتی یہ کہ ایسے میں کوئی ایسی سیاسی تحریک بھی موجود نہیں جو اس تکون کو توڑے جس نے ریاست کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ گرامچی نے کہا تھا کہ “پرانی دنیا مر رہی ہے، اور نئی دنیا پیدا ہونے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے: اب عفریتوں کا وقت ہے۔” لیکن ہمارے لئے تو ابھی پرانی دنیا ہی ختم نہیں ہوئی اور عفریت ہر سو تباہی پھیلا رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

image;dawn

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply