مٹھاس۔۔ربیعہ سلیم مرزا

شام ہوتے ہی باورچی خانے کے روشندان سے آتی روشنی گہری ہونے لگی ۔دھند نمی میں بدل رہی تھی۔گھر کی خاموشی میں صرف کڑاہی میں گرم ہوتے تیل کی گنگناہٹ سنائی دے رہی تھی ۔
فون کی میسج ٹون نے کسی پیغام کی آمد کا پتہ دیا ۔
” آصف ” نام دیکھتے ہی سیماں مسکرا دی ۔
اس نے میسیج دیکھا
“اگر تم کو انکار نہ ہو تو آج چائے کےساتھ کچھ میٹھا ہوجائے ؟. میں سمجھ جاؤں گا کہ تم نے اپنے دل تک مجھے رسائی دے دی ہے ۔”
سیماں نے مسکراتے ہوئے دل والا ایموجی بھیج دیا۔
آصف کے آنے تک دھند سے اندھیرا مزید گہرا ہوگیا ۔
وہ آیا تو سیماں ابا سے منگوائی چم چم چائے کے ساتھ تھالی میں ُُپروس دی۔
آصف کا میٹھے کی تھالی کی طرف دھیان ہی کب تھا ۔
سیماں سرتاپا مصری کی ڈلی تھی ۔
آصف کوگھر والوں کی غیر موجودگی شہ دے رہی تھی۔۔۔۔۔
اس نے سیماں کو دل کے قریب کرلیا ۔
” چھوڑو ، ابا آنے والے ہوں گے ۔”سیماں نے بےجان مزاحمت کی
“وہ دیر سے آئیں گے۔آ ج مت روکو۔میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔”
آصف کے لہجے کی مٹھاس پھیکی سی تھی ۔
“آپکی بیوی۔۔۔؟ سیماں کو اس کے شادی شدہ ہونے کا تو پتہ تھا ۔لیکن اپنی کنوارگی بھول گئی ۔
“کچھ نہیں کہے گی، اسے پتہ پے۔آصف نے اس کی گردن کو چوم کر کہا ۔
“کیا پتہ ھے ۔ ؟
سیماں پوچھ نہ سکی۔دماغ نے دل پہ ہلکی دستک دی۔دل کبھی کبھار ہی تو سنتا ھے ۔اب کی بار اس کا کچھ بھی سننے کا من نہیں تھا ۔
“میں تمہیں مانگ لوں گا۔”آصف نجانے کیا کہہ رہا تھا اور سیماں ۔۔۔۔۔۔؟
خواب جیسے مدھم مدھم سرکنے لگے۔
دھند سوچوں پہ چھانے لگی ۔اتنی ٹھنڈ تو نہیں تھی ۔جتنی محسوس ہورہی تھی ۔
“میٹھے کی تھالی جادو دکھا رہی تھی “
“شاہ بھٹائی نے کہا تھا
عورت عاشق ہے معشوق نہیں، عورت محبت کے شہد اور معصومیت کی مٹی سے گندھی ہے۔”
محبت کا شہداور معصومیت دونوں مٹی میں مل گئے ۔صرف عورت بچ گئی۔
اور غلطی ہمیشہ عورت کی ہوتی ھے ۔
سیماں کی بھی غلطی تھی، سہاگ رات سے پہلے ہی محبت کے سارے رنگ اس نے اپنے وجود میں اتار لئے ۔
سیماں بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پہ تھی۔فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد، ابا کا کام مسجد آنے جانے تک محدود رہ گیا تھا۔ چھ بیٹیاں سل کی طرح چھاتی پہ دھری تھیں شکر تھا کہ بیٹے کچھ نہ کچھ دیہاڑی لگانے لگے تھے۔رات اماں کو نیندکی بجائے سوچوں کی گھمن گھیریاں آتیں ۔ایسے میں کھاتے پیتے آصف کا گھر میں آنا جانا انہیں قدرت کا غیبی اشارہ لگا ، سبھی سب کچھ دیکھ کربھی نظرچرا گئے ۔
کتنی ناگہانی ضرورتیں ۔بن مانگے پوری ہورہی تھیں ۔
ماں پہ قیامت تو تب گزری، محلے کی ہیلتھ ورکر نے معدے کی خرابی کی وجہ کچھ اوربتائی۔
سیماں کی محبت کے سارے رنگ قوس قزح بن کر آسمان پہ چمک اٹھے ۔
گڈی گڈے کی پینگ دور سے دکھائی دینے لگی ۔
اس سے پہلے کہ پیٹ اور بات پھیلتی ، ابا اللہ رسول کے واسطے لے کر آصف کے سامنےہاتھ جوڑےجا کھڑے ہوئے ۔ایک دن سیماں چپ چپیتے آصف سے نکاحی گئی ۔
نہ مہندی رچی نہ ڈھول بجا نہ بتاشے بٹے،
سہاگ رات تو دور کی بات سسرال کامنہ تک نہ دیکھا۔
رخصتی ہوئی ہی نہیں ۔گھر کی بات گھر تک رہ گئی ۔
جس نے سنا، حیران رہ گیا۔
خود سیماں کو اپنی شادی، شادی نہ لگتی۔ اسے پتہ تھاکہ آصف پہلے سے شادی شدہ ہے۔سیماں کا خیال تھا کہ آصف کو اپنے بیوی بچوں سے محبت تونہیں تھی۔آصف کی محبت تو۔بس اسی کے حصے آئی تھی ۔اور یہی بات اسے اڑائے پھرتی۔ اسی آس پہ میکے میں بیٹھی تھی۔کہ وہ اسے لے جائے گا۔
بس ایک کمی تھی اس کا بہت جی چاہتا، آصف کے ساتھ ایک چھت تلے رہے،
اِسکی صبحیں بھی اُسی کے سنگ گزریں اور شامیں بھی۔
کبھی چٹنی کے ساتھ روٹی کھائے اور کبھی دال بھات کے ساتھ، وہ ہرحال میں گزارہ کر لےگی ۔مگر وہ تھا کہ اسے لے جانے کو راضی نہ ہوا۔کیا چھت اور دو وقت کی روٹی اتنی مشکل ہے؟ سوچنے بیٹھتی تو صدیاں گزر جاتیں۔ا کثر ہم جن کی راہ ميں بچھ بچھ جاتے ہیں وہی ہمیں مٹی کی طرح روند جاتے ہیں ۔
آس پڑوس کی عورتیں ۔رنگ رنگ کی باتیں کرتیں
کوئی اس کی ماں سے کہتی!”آپ نے بیٹی دی کیوں؟ “
بھلا کوئی پہلی بیوی پہ کنواری لڑکی دیتا ہے؟
کچھ شرطیں ہی منوا لینی تھیں ۔؟
سیماں کا جی چاہتا سب کو چیخ چیخ کر بتائے مجھے آصف سے محبت ھے۔اسے مجھ سے محبت ہے،
“محبت میں شرطیں کیسی؟
دھیرے دھیرے سیماں کو سمجھ آنے لگا کہ لوگ سچے تھے ۔
آصف اسی دھند میں گم ہونا شروع ہوگیا جس میں وہ آیا،تھا ۔روشنی میں دور دور تک نظر نہ آتا ۔
پچاس بار فون کرتی تو ایک بار جواب میں جھڑک دیتا ۔
جب آتا تو رات گذار کر چند نوٹ سرہانے تلے رکھ جاتا ۔
سیماں کو اب ان پیسوں سے گھن آنے لگی تھی، جن سے نہ محبت پوری ہوتی نہ ضرورت ۔عورت مرد پہ بہت جلدی اثر کرتی ہے۔وہ گھنٹوں میں پاگل ہو جاتا ہے ۔جبکہ مرد عورت پہ بہت دیر بعد اثر کرتا ہے اور اتنا گہرا اثر کرتا ہے کہ عورت ساری زندگی سنبھل نہیں پاتی۔
جہاں نوالے گنےچنے ہوں، وہاں آنے والی روح عزاب ہی لگتی ہے۔محبت کا ابال کم ہوا تو آنے والے کی فکر ہوئی۔تھک ہار کر ابا نے خرچے کا مقدمہ دائر کر دیا۔ مایوس ہو کر سیماں نے بھی سینے پرونے کا کام شروع کردیا۔
آج وہ اپنے چھ ماہ کےبیٹےاور اپنی محبت کی نشانی گود میں لیے، ابا کے ہمراہ عدالت کی راہداری میں کھڑی تھی۔
چلچلاتی دھوپ ،لگتا تھا صدیوں سے اسے جھلسا رہی ہو ۔کچہری کے احاطے میں اچانک آصف اسکے سامنے آ کھڑا ہوا ۔بے نیازی سی بے نیازی تھی، محبت تو چہرہ کھوجنے پہ بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔سیماں کا دل چاہا ،اس کا پتھر چہرہ نوچ لے ۔
نان و نفقے کا فیصلہ سیماں کے حق میں ہوا ۔کورٹ سے باہر آصف ایک لمحہ کو اس کے سامنے رکا ۔
“میرے بیٹے کا خیال رکھنا “
سیماں اتنی بے اعتنائی سہ نہ سکی تو پوچھ بیٹھی!
اور میں؟ میرا کیا ہو گا؟
۔جانے لگا تو پوچھ بیٹھی
“آصف آپکو مجھ سے محبت نہیں تھی؟”
اس نے کوئی جواب نہیں دیا ۔چلا گیا ۔
” پانچ بیٹیوں والے کو بیٹا چاہیے تھا،
محلے والیاں اب بھی کہتی ہیں ۔ کچھ منوایا توہوتا ۔سیماں سوچتی کچھ لکھوا بھی لیا ہوتا تو کیا ہوتا ۔؟
محبت میں شرطیں نہیں ہوتیں ۔ صرف ذمہ داریاں ہوتی ہیں ۔
سوچوں کی کڑواہٹ سے تھک جاتی تو بیٹے کا منہ چوم لیتی کہ پھر کسی اور سے نہیں جڑتے جو لوگ اندر سے ٹوٹ جاتے ہیں ۔

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply