سفر نامہ روس(1)-ہاں ابھی تو میں بھی ہوں/سید مہدی بخاری

کئی برس بیتے، تب لہو جسم کی نالیوں میں یوں دوڑتا تھا کہ نہ سرد ہوا کاٹنے کو آتی نہ ہی تپتی لو کے تھپیڑے محسوس ہوا کرتے تھے۔

 

 

 

 

 

 

 

تب ساری کائنات جوان تھی۔ سرد صبحوں میں ابھی افق روشن نہ ہوا کرتا ، خلقت گرم کمروں کے نرم بستروں پہ سوئی ہوتی، میں چپکے سے اپنی موٹرسائیکل گھر سے باہر یوں نکالتا کہ جیسے چور کوئی دبے پاؤں کھسکنا چاہے۔ منہ اندھیرے بیمار اماں اور تندرست بیوی کو اپنی آمد و رفت سے جگانا معیوب سا لگتا تھا۔ کچھ یہ بھی کہ گر اماں کی آنکھ کھل جاتی تو وہ آواز دے کر پوچھا کرتی ” مہدی ، تو اس وقت کہاں جا رہا ہے ؟ جیکٹ پہنی ہے ناں ؟ ” ۔۔ پھر اماں کے کمرے میں جا کر انہیں تسلی کروانا پڑتی کہ دیکھ لو سب کچھ پہنا ہے، میں بس ہیڈ مرالہ تک دریائے چناب کے کنارے فوٹوگرافی کر کے آیا امی۔ آپ سو جائیں۔

لال یاماہا تیزی سے ہوا کو کاٹتا بھاگتا رہتا۔ مجال ہے جو کبھی سردی محسوس ہوئی ہو۔ ذہن میں اک ہی سودا رہتا کہ آج فلاں مقام سے تصویر لینی ہے، یوں لینی ہے، یوں کرنا ہے اور یوں کر کے رہنا ہے۔ رستہ پلان ترتیب دیتے بیت جاتا۔ سیالکوٹ شہر سے دریائے چناب کا کنارہ  30 کلومیٹر کی مسافت پہ تھا۔ ہیڈ مرالہ پہنچنے تک بھنویں و پلکیں اوس سے بھیگ چکی ہوتیں۔ یاماہا سٹینڈ پر لگا کر لاک کرتا۔ اک بار اپنی جیکٹ کو اتار کر زور سے ہوا میں پٹختا تا کہ اس پر رُکی اوس اک بار بہہ نکلے۔ چہرے کو کپڑے سے صاف کر کے یاماہا کی ٹینکی میں پھنسا دیتا۔ یہ کپڑا میرا چہرہ و یاماہا دونوں کی جھاڑ پونچھ کے کام آتا تھا۔

کمر پر کیمرہ  بیگ لٹکائے۔ دبے پاؤں چلتے۔ دریائے چناب کے کنارے کنارے اُگ آئی لمبی جھاڑیوں و سرکنڈوں کے بیچ اپنے بیٹھنے کو جگہ کی تلاش شروع ہوتی۔ منہ اندھیرے جھاڑیوں میں چلنا ایک مشقت بھرا عمل ہوا کرتا۔ آل اطراف نہ کوئی بندہ نہ بندے کی ذات۔ ایک سنسنی خیز سنسناہٹ میرے قدموں کی چاپ سے ہی ابھرتی تھی۔ دھند کچی لسی پر در آئی جھاگ کی مانند دریا کے سفید پانیوں پر ٹھہری ہوتی۔ دریا علی الصبح رکا ہوا سا لگتا تھا۔ اس کے پانی سورج نکلنے سے قبل سفید دکھا کرتے۔ ان جھاڑیوں کے عین سامنے ایک چوکی ہوا کرتی۔ یہ خفیہ والوں کا ٹھکانہ تھا جو بیراج کی حفاظت کے ساتھ غیر معمولی نقل و حمل پر نظر رکھا کرتے۔

خفیہ والوں کو بخوبی معلوم تھا کہ اس وقت کون شخص یہاں کیمرہ  لئے آیا کرتا ہے۔ ان کے پاس میرا سارا ریکارڈ موجود تھا۔ کبھی کبھی چوکی کا صدر دروازہ کھلتا۔ سول لباس میں ملبوس اہلکار ٹارچ ہاتھ میں لئے باہر نکلتا۔ میرے یاماہا پر ٹارچ مارتا اور یہ جان کر کہ کون آیا ہے وہ واپس اندر چلا جاتا۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا کہ وہ منہ میں دبائی سیٹی بجا دیتا۔ جیسے ہی سیٹی کی آواز دھماکے کی مانند گونجتی، گھاس پھوس و جھاڑیوں کے جھنڈ سے کونجوں کے غول پھڑپھڑاتے اور پھر یکے بعد دیگرے یہ کونجیں ہوا میں غول در غول اڑنے لگتیں۔ سیٹی بجنے پر مجھے سخت غصہ آیا کرتا۔

میں دبے پاؤں ان جھاڑیوں میں علی الصبح اس لئے تو آتا تھا کہ سورج طلوع ہونے سے قبل خود کو کیمو فلاج کر کے کہیں ٹھکانہ بنا کر بیٹھ جاؤں۔ جیسے ہی روشنی پھیلنے لگتی، ان جھاڑیوں میں چھپے کونجوں کے غول نکلنے لگتے۔ آسمان ان سے بھر جاتا۔ دریا کے پانیوں میں روانی آ جاتی۔ سطح آب پر مرغابیوں کے جھنڈ تیرنے لگتے۔ ایک ایسا سماں تخلیق ہونے لگتا جیسے مالک ابھی فرما رہا ہو “کن فیکون” ۔۔ یہ جو اہلکار کبھی کبھی سیٹی مار دیتا تھا اس سے ڈر کر کونجوں کے غول منہ اندھیرے ہی اڑ جایا کرتے۔ پھر وہ ایک طویل چکر کاٹتے۔ اپنے آل اطراف کا جائزہ لیتے۔ کچھ دیر بعد پھر سے اپنے ٹھکانوں پر اترنے لگتے۔ ان کے ٹھکانے لمبی جنگلی گھاس کے یہی جھنڈ تھے جن میں سے ایک کے اندر میں چھپا ہوتا۔

طلوع آفتاب کا وقت قریب آنے لگتا تو ان جھاڑیوں میں ہلچل سی مچ جاتی۔ یوں جیسے زلزلہ آنے کو ہو۔ گھاس کے لمبے تنکے سرسرانے لگتے۔ گمان ہوتا کہ تیز ہوا ان کو لہرا رہی ہے مگر ہوا کہاں ہوتی ؟ ۔۔ کونجوں کے اندر بے چینی پھیلنے لگتی تو وہ بیدار ہونے لگتیں۔ ان کی ہلچل سے یہ گھاس کے جھنڈ لہرانے لگتے۔ جیسے جیسے سورج نکلنے لگتا، اک اک کر کے غول پانی کی سطح پر آنے لگتے ، پھر جہاز کی مانند دو ٹانگوں پر پانی کی سطح پر دوڑنے لگتے، کچھ دور تک دوڑتے اور پھر قطار اندر قطار اڑان بھر لیتے۔ کیمرے کا شٹر گرتا جاتا۔ شٹر سے نکلتیں کڑک کڑک کڑک اور کونجوں کی پھڑ پھڑ پھڑ کی آوازیں مکس ہونے لگتیں۔

پھر سورج چڑھ آتا۔ دریا کے اوپر پھیلی دھند پر پیلاہٹ چھانے لگتی۔ کبھی کبھی یوں لگتا جیسے سونا دریا پر بکھرا ہوا ہے۔ روپہلی سنہری کرنوں میں نہا کر دھند کی تہہ سنہری ہو  اُٹھتی۔ عقب میں دور کہیں جموں کے برف پوش پہاڑ ہیولے سے نظر آنے لگتے۔ یہ پیر پنجال کا پہاڑی سلسلہ ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا، دھند چھٹتی جاتی، مطلع صاف ہوتا جاتا۔ پیر پنجال کی برف پوش پہاڑیاں شفاف دکھنے لگتیں۔ ان کی چوٹیوں پر رکی ہوئی برف سورج کی کرنوں سے چمکنے لگتی۔

صبح کے سات بجنے تک ہیڈمرالہ کے اطراف ہلکی ٹریفک شروع ہو جایا کرتی۔ لوگ اپنے اپنے کاموں کا رخ کرنے لگتے۔ میں کیمرہ  سمیٹتا جھاڑیوں سے نکلتا اور سڑک کنارے لگے بینچوں میں سے اک بینچ پر آ بیٹھتا۔ یہ بینچ بلدیہ نے لوگوں کی تفریح و آرام کی خاطر دریائے چناب کے کنارے ہیڈ مرالہ کے مقام پر بنا دیئے تھے۔ صبح کے وقت وہاں میرے سوا کوئی نہ ہوتا تھا۔ سرد صبحوں میں ان بینچوں پر بیٹھے میں نے کئی سو دنوں کی حدت سمیٹی ہے۔

کبھی کبھی خفیہ والا اہلکار چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے سڑک عبور کر کے میرے پاس آ جاتا۔ مجھ سے سگریٹ مانگتا۔ میں اسے بخوشی سگریٹ دیتا۔ اگر میں بھول نہیں رہا تو اس کا نام صبور علی تھا۔ چالیس کے پیٹے میں ہو گا۔ چہرے پر نسیں ابھر آئی تھیں۔ مسلز کھچے ہوئے تھے۔ جسم کی ساخت مضبوط چٹان کی مانند ہوا کرتی تھی۔ قد چھ فٹ سے قدرے لمبا۔ بال گھنے کالے۔ مونچھیں گہری و گھنی۔ سگریٹ وہ مٹھی میں دبا کر پیتا تھا جیسے بزرگ حقے کا کش مارتے ہیں۔

“ہو گئی تیری فوٹوگرافی؟ تینوں کی لبھدا اے فوٹواں کھچ کے ؟ شہروں ٹر کے توں سویرے سویرے منہ ہنیرے آنا ایں۔ اے کی لت تینوں لگی ہوئی اے ؟ ” ۔ کش مارتے وہ اکثر یہی سوال الفاظ بدل کر آئے دن پوچھا کرتا۔

“ہاہاہاہا۔ بس چاچا، شوق دا کوئی مل نئیں۔ ” میں مسکرا کر اسے لگ بھگ یہی جواب دے دیا کرتا۔

شوق کا کوئی مول نہیں۔ صبور علی سے راہ و رسم ان دنوں کافی بڑھ چکی تھی۔ اک دن وہ نجانے کس موڈ میں تھا۔ ایسے ہی بینچ پر بیٹھے اس نے مجھے اپنی محبت کی کہانی سنا دی۔ کہانی کے مطابق صبور کو جس سے محبت ہوئی تھی وہ خاندان کی لڑکی تھی مگر اس فیملی کی جس کو گاؤں میں لوگ “شریکا” کہتے ہیں۔ سو لاکھ کوششوں و منت و بسیار کے باوجود اس کا نکاح کہیں اور کر دیا گیا۔ صبور علی کو وہ بھولی نہیں تھی۔ کبھی کبھی صبح سویرے جب دریا پر کونجیں اڑتیں وہ ان کو دیکھتا اور مجھ سے مانگے ہوئے ادھارے سگریٹ کے کش لگاتے کہتا “ہائے ہائے۔۔۔ شوق دا کوئی مل نئیں پترا ۔۔۔ ”

اک دن صبور علی اداس سا تھا۔ سگریٹ کا کش مارتے بولا ” اے مرغابیاں کتھوں آندیاں نیں ؟ تینوں کج پتا ہے گا ؟ یار۔۔ بڑا درد ہوندا ایناں دی آواز وچ”۔۔

“ہاں، چاچا، درد تو ہے ان کی آواز میں۔ یہ سائبیریا سے آتی ہیں چاچا”۔ میں نے اسے سنجیدہ سا جواب دے دیا۔

“سائبیریا ؟ او کتھے ہے گا ؟ ” ۔

“چاچا۔۔ بہت دور ہے۔ پانچ چھ ہزار کلومیٹر ہوا میں۔ زمین سے فاصلہ ماپو تو مزید ہو گا”۔۔

“آلا ۔۔۔ چل سانوں کی ؟ اسی کیہڑا اوتھے اپڑ جانا اے۔ جے تیرا کدی چکر لگے تے مینوں آ کے دسیں ایناں دا ملک کنج دا اے” ۔۔۔ صبور علی نے حسب معمول مٹھی میں سگریٹ دبائے لمبا کش کھینچتے کہا۔

“اچھا۔۔ سانوں کی چاچا ۔۔ ” میں نے ہنستے ہوئے کہا تا کہ اس کی سنجیدگی رفع ہو سکے۔

مرغابیوں و کونجوں و راج ہنسوں سمیت دریا پر اترنے والے یہ پرندے مہمان پرندے تھے۔ سائیبریا کی گھاس کی ڈھلوانوں پر جب برف گرنے لگتی اور درجہ حرارت منفی چالیس کو چھونے لگتا، یہ پرندے ہجرت کرتے۔ لمبی اڑان بھرتے۔ ملکوں کو عبور کرتے یہ گرم پانیوں کی تلاش میں نکل آتے۔ کچھ بلوچستان کی ساحلی پٹی پر اتر جاتے۔ کچھ سندھ کی منچھر و کینجھر جھیلوں پہ ڈیرہ ڈالتے اور کچھ پنجاب کے میدانوں کی جانب آن نکلتے۔ موسم سرما ان کا یہیں بسر ہوتا۔ مارچ کے وسط سے یہ دوبارہ ہجرت کر کے واپس اپنے دیس سائبیریا جانے لگتے۔ ان کے غول اڑان بھرنے لگتے۔ بوڑھے بزرگ پرندے واپس جانے کے قابل نہ ہوتے تھے۔ وہ یہیں دریا میں رہ جاتے۔ ان کو چھوڑ کر جب جھنڈ واپسی کی اڑان بھرتا تو بچھڑ جانے والوں کی یاد میں کُرلاتا جاتا۔ ایسی وحشت انگیز و افسوسناک آوازیں ان کی حلق سے نکلتیں کہ سارے میں اداسی پھیل جاتی۔

وہیں دریا کنارے بینچ پر بیٹھے میں نے کرلاتی ہوئی کونجوں کو سنا ہے۔ درد کی ایک سیٹی ہے جو ہوا سے دل میں اترتی جاتی ہے۔ ان پرندوں کے توسط سے سائبیریا سے میرا پہلا تعارف ہوا تھا۔ اس خطے میں دلچسپی پیدا ہوئی جو ان پرندوں کا اصل دیس تھا۔ کئی سال یہ خواہش دل میں کروٹ بدلتی رہی کہ خدا مجھے اک بار سائبیریا دکھا دے۔ میں بس ان پرندوں کے دیس ویسے ہی جانا چاہتا تھا جیسے یہ میرے دیس میں آتے ہیں۔ کچھ دن، کچھ یادیں سمیٹنے، کچھ رشتے بنانے، کچھ سکون کرنے اور پھر واپس ہو لیتے ہیں۔

مسافر اور پرندے میں کئی باتیں مشترک ہوا کرتی ہیں۔ دور کی اڑان بھرنا، اَن دیکھی زمینوں کی جانب سفر کرنا، نئے ماحول میں خود کو ڈھالنا، ملنا، بچھڑنا ، اڑتے رہنا۔۔۔ کسی کے واسطے یہ نہیں رکا کرتے۔ میں ان گھاس کی ڈھلوانوں میں جانا چاہتا تھا جو ان کی ملکیت ہیں۔ جن کی چاہ میں یہ کرلاتے رہتے ہیں۔ خواب جب تعبیر بننے لگے تو انسان کے اندر دھمال پڑنے لگتی ہے۔ جس دن روس کا ویزا پاسپورٹ پر لگا ملا اس دن مجھے لگا کہ اب میں ان کی زمینوں پر کچھ دن مہمان ہوں گا۔ بال تراشے، کپڑے بدلے، سامان پیک کیا۔ آگے دریائے چناب کی کونجیں تھیں جنہوں نے میرا استقبال کرنا تھا۔ آنکھوں میں چمک تھی۔ جسم میں ویسی ہی توانائی بھر آئی تھی جیسے برسوں قبل ایک نوجوان سرد صبحوں میں لال یاماہا دوڑاتا ان سے ملاقات کو جایا کرتا تھا۔ آگے روس تھا۔ ذہن میں ن م راشد کے مصرعے تھے۔

ہاں،ابھی تو میں بھی ہوں
ہاں، ابھی تو تم بھی ہو۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply