• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ناول کیسے سیاسی بیانیہ کو طاقتور کرتے ہیں ؟ ایک ذاتی تجربے کی رپورتاژ/عامر حسینی

ناول کیسے سیاسی بیانیہ کو طاقتور کرتے ہیں ؟ ایک ذاتی تجربے کی رپورتاژ/عامر حسینی

” ماں ” ناول کے کئی روسی ایڈیشن میرے پاس ہیں( ماسکو اشاعت گھر سے چھپےانگریزی، اردو، ہندی اور فارسی اشاعتیں)
میسکم گورکی کے ناول “ماں” کو میں نے میٹرک میں پہلی بار استانی میم شائستہ کے توسط سے پڑھا تو میں عجب سی رومان پرور انقلاب پسندی میں مبتلا ہوگیا، میں کئی بار پاویل بنا اور اپنی ماں کو کئی بار پاویل کی ماں جیسا تصور میں بنایا حالانکہ امی نہ اس وقت ایسی تھیں نہ اب ہیں، ہاں وہ اس وقت بھی پابند صوم و صلات تھیں اور آج بھی ہیں، وہ میرے کمرے میں سجی کارل مارکس کے بڑے سے پورٹریٹ کو کسی فرنگی نومسلم صوفی کی تصویر خیال کرتیں تھیں، بعد ازاں جب میرے والد نے انھیں بتایا تو خوب ہنسیں ۔

یوم مئی آتا تو میں عجب شش و پنج کا شکار رہتا میرا شہر ایک مضافاتی تو تھا لیکن یہاں پر بائیں بازو کے رجحانات کے زیر اثر مزدوروں، درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے وکلاء ، اساتذہ، پروفیسرز ، طالب علموں اور کسانوں کی بڑی تعداد موجود تھی اور اس کا سبب تقسیم سے قبل یہاں ریلوے کا انفراسٹرکچر اور اس سے جڑے مزدور اور دیہی زرعی علاقوں میں کسانوں کے اندر کمیونسٹ پارٹی کے کسان فرنٹ ‘کیرتی پارٹی ‘ کا وجود تھا جس کے زیر اثر یہاں پر بائیں بازو کے زیر اثر چلنے والی تحریک ‘پگڑی سنبھال اور جٹا’ سے کسانوں کی بڑی تعداد جڑے گئی تھی ،جبکہ خانیوال بڑا ریلوے جنکشن، مال گودام ، سلیپر فیکٹری، شنٹنگ و آئل ڈپو ہونے کے سبب ریلوے ٹریڈ یونین کا مرکز بھی تھا۔

تقسیم سے قبل سےبائیں بازو کی کسان تحریکوں کا مرکز تھا اور یہاں پر انگریز دور سے بہت بڑا ریلوے جنکشن ، ریلوے یارڈ، سلیپر فیکٹری، انجن شنٹنگ، آئل کی تبدیلی اور بہت بڑی ریلوے کالونی تھی، مرزا ابراہیم کی محنت کش ریلوے یونین اور اوپر لائن اور فیکٹری ایریا دونوں میں موجود تھی، یہاں پر مرزا ابراہیم کے تربیت یافتہ ٹریڈ یونینسٹ قربان شاہ سمیت درجنوں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ریلوے مزدور موجود تھے اور خانیوال شہر میں کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ بعد ازاں سوشلسٹ پارٹی کے روح رواں نور محمد چوہان ایڈوکیٹ بھی تھے اور اسی طرح پی پی پی میں نیپ بھاشانی و ولی گروپوں سے آنے والے کامریڈذ اور خود سابقہ نیپ، اب قومی محاذ آزادی کے بہت سارے کارکن موجود تھے۔

خانیوال ضلع میں کچھ کارخانے جن میں گھی، پی وی سی پائپ، گتا فیکٹری، اور سب سے بڑھ کر کبیروالہ ڈیری فارم /اب نیسلے اور بروک بانڈ فیکٹری کے اندر کام کرنے والے مزدور، سرکاری اداروں میں بائیں بازو کے رجحانات والی ٹریڈ یونینز سے جڑے مزدور یہ سب کے سب یوم مئی پر جلوس، جلسے منعقد کرتے اور میں ناول ماں کے تصورات میں گم ان میں شریک ہوتا تھا اگرچہ حقیقت اور معروض روس اور اس کے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں سے بننے والی حقیقت اور معروض سے بہت مختلف تھا مگر پھر بھی میری رومان پرور انقلاب پسندی کم ہونے کو نہیں آتی تھی۔
میں ان مزدوروں میں میکسی گورکی کی ماں ناول میں موجود مزدور کرداروں کو تلاش کرتا تھا اور یہاں مزدور عورتیں تو بالکل نظر نہیں آتی تھیں وہ ہمیں لاہور اور کراچی میں تعلیم کے دوران نظر آنا شروع ہوئیں۔

پوسٹ کافی طویل ہوجائے گی اس لیے بس یہ کہوں گا کہ ایک زمانہ تھا مجھے جو کامریڈ بھی ملتا اس کی پہلی پہلی انساپائریشن انقلاب بارے ماں ناول ہی ہوتا تھا اور اس کے ہاں جو بائیں طرف کا فکری ارتقا ہوتا وہ سبط حسن کی کتابوں سے پروان چڑھا ہوتا تھا۔

ہم ایک دوسرے سے ‘ماں’ ‘نوید فکر، موسی سے مارکس تک، پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء، ماضی کے مزار ، ادب اور روشن خیالی، پاکستان میں افکار کی جدلیات (انگریزی) ‘ اور ‘کمیونسٹ مینی فیسٹو’ کے ذریعے سے جڑ جایا کرتے تھے۔
اور ان سب کتابوں سے پروان چڑھنے والی رومان پرور انقلابیت ہمارے جذبوں کو مہمیز کرتی تھی۔

میں نے کافی بعد میں مارکسی استادوں کی مبادیاتی کتب اور معروف کتابوں کے انگریزی ترجمے پڑھے جو اس رومان پرور انقلابیت میں گہرے مطالعے اور مشاہدے کی رمق پیدا کرنے کا سبب بنیں ۔
میکسم گورگی کا ناول ‘ماں’آج بھی میری رومان پرور انقلابی مزاج کو تر و تازہ کرنےکا سبب بنتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پس نوشت:
میرا پی پی پی سے عشق ‘خوشبو کی شہادت’ اور ستارطاہر کی کتابوں سے اور زیادہ مستحکم اور میں ڈاکٹر فیروز احمد کا ہمیشہ مشکور رہوں گا جنھوں نے بھٹو اور پی پی پی کے بارے میں مجھے بائیں بازو کے طفلانہ پن اور بعض اوقات بغض و نفرت میں لبرل و نیو لبرل سرمایہ داری کے حامی دانشوروں اور دایاں بازو کے بھٹو مخالف لابی کے لوگوں جیسے خیالات والوں کی ابلہ فریبی سے بچایا ، پاکستان فورم کے شماروں میں ان کے اداریے اور مضامین مجھے تنگ نظری اور بائیں بازو میں اندھے وشواس کے رجحان اور مارکسی ملاں بننے سے بچا گئے۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply