نوے کی دہائی کی بات ہے جب میں بالکل چھوٹی بچی تھی تب وہ بھی چھوٹا تھا بالکل ننھا میرے قد جتنا،اس کے چھوٹے چھوٹے سانولے ہاتھ جن کی انگلیاں پوری ہونے کے باوجود جانے ادھوری کیوں لگتیں ،جیسے ادرک کی گانٹھیں ہوں ۔
اس کے ننھے قد پہ بڑا سا چہرہ تھا جس پہ موٹے ہونٹ گویا ندی کے کناروں کی طرح الگ الگ دکھتے اس کی چھوٹی چھوٹی خشمگیں آنکھوں پہ بڑے اور موٹے فریم والا چشمہ تھا وہ چہرے سے سنجیدہ لگتا کافی کم گو بھی تھا۔
لیکن گلی محلے کے بچوں کے لیے اس کی آمد خوشیوں کی بارات تھی ،وہ جب بھی گلی میں آواز لگاتا تو چھوٹے بڑے بچے بھاگتے ہوئے آتے اس کے ارد گرد جمع ہوجاتے۔
اس کے ننھے قد جتنی ایک ریڑھی تھی اس کے پاس تین فٹ لمبی ڈھائی فٹ چوڑی جس میں چھوٹے چھوٹے کئی خانے بنے تھے ان خانوں میں بچوں کے لیے الگ الگ قسم کی نمکین اور کچھ میٹھی چیزیں تھیں جیسے نمکو کوئی بیس اقسام کی چپس کئی قسم کے فرائی سویاں میٹھی اور نمکین ۔۔ یہ سب چیزیں وہ اپنے ہاتھ سے بناتا صاف ستھری اور اچھے تیل میں بنی چیزیں ذائقے میں اپنی مثال آپ تھیں۔
کہنے کو وہ ایک چھوٹی بیکری کی دکان ساتھ لے کر نگرنگر گھومتا بچوں کو ان کی پسند کی چیزیں کھلاتا اور اپنی حلال روزی کماتا۔گلی کے سب بچے تقریبا روز ہی اس سے چیز لے کر کھاتے اور اس چھوٹے آدمی کے شکر گزار ہوتے۔اس کی بیوی بھی اسی کے قد کی تھی وہ دونوں خاموش اور جامد زندگی گزار رہے تھے جیسے بندہ زندگی کو بطور سزا کاٹ رہا ہو ۔۔۔۔۔ شور شرابہ مستی ہنگامہ کچھ بھی تو نہیں،
میری گلی کا یہ جوڑا بے اولاد تھا اپنی زندگی میں رنگ بھرنے ، مسکراہٹوں اور قہقہوں کو اپنے گھر کا کرنے کے لیے انھوں نے لاوارث بچہ گود لے لیا، جسے بہت پیار محبت سے پروان چڑھایا۔
اپنے منہ کے نوالے اس بچے کو کھلائے ۔ کچھ امید ہوئی کہ بڑھاپے کا سہارا بنے گا ان کے نام کا امین ہوگا مگر کہاں۔ ۔ تقدیر کیا فیصلہ دیتی ہے کوئی نہیں جانتا، چھوٹا آدمی بھی نہیں جانتا تھا۔
آخر اس بچے کا قد وقت کے ساتھ بڑھنے لگا سات سال کی عمر میں باپ جتنا قد نکال لیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کڑیل جوان بن گیا۔
اس کا قد باپ سے بڑھ گیا باپ چھوٹا رہ گیا۔
وہ آزاد پرندہ نکلا جس نے دانہ ڈالا اس کی منت بھی نہ مانا پُھر سے اُڑ گیا۔
چھوٹا آدمی اس کے بعد قدرے بیمار اور اداس رہنے لگا، مگر سانسوں کی مالا بندھی تھی ، تنہائی وحشت الم کے ماہ سال منتظر تھے۔
“اب نہیں ہوتا نمکو بنانے کا کام مجھ سے۔۔ تو بھی تو کتنی مشکل سے ریڑھی چلاتا ہے ، ہماری گلی کے لوگ بڑے خدا ترس ہیں ۔ ۔مدد کا پوچھتے رہتے ہیں ، ۔۔ ۔۔بس چھوڑ دیتے ہیں اب یہ دھندا۔ ۔”
ایک دن اس کی بیوی نے اس کی خراب حالت دیکھ کر کہا۔
“نہیں ، کبھی نہیں ۔۔۔۔جب تک سانس ہے تب تک راگ ہے ۔”
وہ مٹی کے مٹکے سے پینے کے لیے گلاس میں پانی ڈالتے ہوئے بولا۔
پھر سنا وہ چھوٹا آدمی جسے سب سہارا دینا چاہتے تھے اس کا خیال رکھنا چاہتے تھے آخری سانس تک اپنے ناتواں چھوٹے کمزور ہاتھوں سے محنت کر کے کماتا رہا عزت سے جیا۔
ایک دن امی نے فون پہ بتایا کہ وہ چھوٹا آدمی انتقال کر گیا اپنی گھر والی کے لیے کچھ نا کچھ رزق کا انتظام کر کے مرا
تب سب لوگوں نے یہی کہا .

“چھوٹا آدمی نہیں مرا ۔۔۔ وہ تو ایک بڑا آدمی تھا”
حقیقی معنوں میں بڑے قد کا آدمی جس کی عزت نفس اس کے قد سے کہیں بڑی تھی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں