• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • خالد سہیل اور رابعہ الربا کے خطوط پر مشتمل کتاب “درویشوں کا ڈیرہ “پر تبصرہ۔۔۔۔۔ ثمر زیدی

خالد سہیل اور رابعہ الربا کے خطوط پر مشتمل کتاب “درویشوں کا ڈیرہ “پر تبصرہ۔۔۔۔۔ ثمر زیدی

اس ماڈرن دنیا میں انسان ایمیل واٹس ایپ اسٹا فون جیسی سستی اور تیز ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطے میں ہے۔۔
اس لیے خط لکھنے کا خیال ہی ایک عجیب سی بات ہے لہذا جب خالد سہیل نے مجھ سے کہا کہ آپ مجھے خط لکھیے تو مجھے حیرانی ہوئی مگر یہ حیرانی مسرت میں بدل گئی جب میں نے رابعہ اور درویش کے  خطوط پڑھنا شروع کیے اسی دوران میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش یہ سلسلہ خطوط کبھی ختم نہ ہو یہ دونوں ایک دوسرے کو خط لکھتے رہیں اور جواب دیتے رہیں لیکن ظاہر ہے کہ ہر ابتدا کی انتہا ہے سو یہ سلسلہ خطوط بھی اپنے اختتام کو پہنچا۔ یہ خطوط صرف ایک عورت اور مرد کے ایک دوسرے کو لکھے گئے خطوط نہیں ہیں بلکہ دو مختلف سماجی اقدار وتہذیب وروایات سے تعلق رکھنے والے دو ایسے افراد کا ایک دوسرے سے رابطہ ہے جو الگ الگ خطہ زمین میں سانس لے رہے ہیں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک دوسرے سے لاکھوں کروڑوں میل کی مسافت کے باوجود ایک دوسرے کے دل کی دھڑکن کو محسوس کر رہے ہیں ایک دوجے کی بے چینی واضطراب،دردوفکر کوسمجھ رھے ھیں ‘ایک دوسرے کو کھوج رہے ہیں‘ بوجھ رہے ہیں‘ سوال کر رہے ہیں‘ جواب دے رہے ہیں۔
یہ سلسلہ خطوط ایک ایسا نوری سفر تھا جس کی ابتدا احترام اور انتہا عشق ہے ۔دو افکار کا عشق۔ جستجو اور بے قراری سے اطمینان کی طرف سفر کرنے کا عشق۔
خالد سہیل مسیحائی کرتے ہیں انسانی شعور اور لاشعور کی گتھیاں سلجھاتے ہیں مگر وہ لوگ جوخالد سہیل کی پہنچ سے باہر ہیں جو ان سے ملاقات نہیں کرسکتے وہ اپنی تحریروں کے ذریعے ان کی روحوں کی مسیحائی کرتے ہیں۔ انکی بے چینی و اضطراب کو سکون میں بدلتے ہیں
یہ مسیحائی کا بام عروج ہے اور ایک ادیب کا اوج کمال کہ اس کے الفاظ جانے کتنے زخموں پر مرہم کا کام کرتے ہیں ایسے زخم جو دکھائی نہیں دیتے مگر ان کی جلن بے چین رکھتی ہے جس پر درویش اور رابعہ کے خطوط پھائے کا کام کرتے ہیں ۔نا امیدی کو امید میں بدلتے ہیں۔
جیسے

بات کوئی امید کی مجھ سے نہیں کہی گئی
سو میرے خواب بھی گئے سو میری نیند بھی گئی!
جب امیدیں پوری نہ ہوں تو دبیز راتیں رابعہ کی راتوں کی طرح رتجگوں میں بدل جاتی ہیں اور رات کی تنہائی میں ایسے ایسے گل کھلاتی ہیں کہ بند ذہن دانتوں میں انگلیاں داب لیں۔ سو ان گلوں کا  نام خواب نامہ ہوتا ہے کبھی زندگی مٹھی میں بند ریت کی طرح ہاتھ سے پھسلتی نظر آتی ہے کبھی دیرینہ خواب حسرت بنتے ہیں اور کہیں چار خواہشوں کی تکمیل زندگی میں ایسے رقص کا اہتمام کرتی ہے کہ بدن اور روح دونوں ناچتے نظر آتے ہیں اور جب روح اور بدن کا تال میل مل جائے تو پھر انگلیاں قلم بنتی ہیں اور قلم ہزاروں لاکھوں لوگوں کی زبان بن جاتا ہے اور سب یک زبان بولتے ہیں ہم بھی تو یہی سوچتے ہیں ہم بھی تو یہی چاہتے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

درویش وہ خوش نصیب انسان ہے جسے دنیا کی تمام نعمتیں خاص کر آزادی جیسی نعمت بھی حاصل ہے دوسری طرف رابعہ ہے جس کی خواہش ایک چائے یاکافی کا کپ لےکر اسے پیتے ہوئے کچھ سوچنے کی ہے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک آسانی وآزادی کی معراج پر ہے اور ایک ان دیکھی اور دکھتی ہوئی رکاوٹوں کا قیدی ہے
درویش ایک آزاد معاشرے کا باسی ہے جہاں اسے کچھ بھی کرنے کے لئے کسی پہر کا انتظار نہیں کرنا پڑتا جبکہ رابعہ اپنے سفید سچ کے اظہار کے لئے رات کی سیاہی کا انتظار کرتی ہے۔
رابعہ الربا نے بہت خوبصورت ہلکے پھلکے انداز میں پاکستانی عورت کے دکھ کو بیان کیا ہے وہی اپنے اندر موجود اس اضطراب  کو بھی بیان کیا ہے جو بہت سی عورتوں میں موجود ہے مگر وہ نا لکھ سکتی ہیں نا لکھنا چاہتی ہیں جس حسین انداز سے رابعہ نے موج در موج ڈھلتی ہوئی رات کے آخری پہلو میں یہ خطوط لکھے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں
اس طائر لاہوتی میں سب قید سے آزاد فضا میں سانس لینا چاہتے ہیں لیکن اس دنیا میں کچھ بدنصیب خطہ زمین ایسے بھی ہیں جہاں سانسیں گھوٹ دی گئی ہیں پیروں میں روایات کی بیڑیاں پہنا دی گئی ہیں
رابعہ و درویش کے خطوط ایسے قید خانوں میں امید کی کرن بنتے ہیں جو ایک روشن جہاں کو کھوجنے میں ان کی مدد کرتے ہیں
اپنے آپ کو جاننے پہچاننے اور منوانے کا ایک ایسا زینہ بن کر سامنے آتے ہیں جسکی آخری سیڑھی پہ کھلا آسمان اپکا منتظرھوتاہےجہاں چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے بلا رہا ہے کہہ رہا ہے کہاں تم کہاں ہو اندھیروں میں خوف کے ڈھیروں میں سمٹے پڑے ہو آؤ مجھ سے گلے ملو کیوں کہ تم انسان ہو اور انسان سب سے عظیم ہے
درِ قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے
تو فیض دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں
دو اپوزیٹ حالات میں لکھے گئے رابعہ درویش کے خطوط تخلیق کاوہ سرخ شعلہ ہے جس میں گرمی بھی ہے توانائی بھی نامساعد حالات میں نہ آسکی سرخی کم ھوتی ہے نہ تپش لہذا ہوا کے طوفانوں اور تصادم کے پیکانوں سے گزر کر آگہی و شعور کا نور پہلے سے بھی زیادہ درخشاں ہو جاتا ہے خطوط پڑھتے پڑھتے کہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پریوں کا غول ہے جو ایک طلسمی فضا میں محو پرواز ہے اور قوس وقزح کے عکاس بادلوں سے ایک سترنگی بارش ہو رہی ہے جو کبھی سنہری اور کبھی ٹھنڈی زمین پر برستی ہے جو چاہے اس بحر بیکراں سے بقدر ظرف فیضیاب ہو سکتا ہے
سچی تحریر منظر کی حدود و قیود کو توڑ کر بہت آگے نکل جاتی ہے خطوط کو کسی خاص پس منظر کے سانچے میں محدود کر کے دیکھنا ظلم ہے اسی طرح رابعہ اور درویش کے خطوط کو کسی خاص خطے زمین سے جوڑ کر دیکھنا بھی صحیح نہیں تحریریں زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو کر لکھی گئی ہیں۔
خدا کو ماننے اور نہ ماننے کی بحث سے آزاد یہ دو انسانوں کے درمیان ایک ایسا مکالمہ ہے جو ادب کے آسمان پر اک طویل عرصہ تک روشن ستارے کی طرح جگمگاتا رہے گا اور لوگوں کو راہ دکھاتا رہے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply