کثرت آرائی ء وحدت ہے پرستاری ِ وہم
کر دیا کافر ان اصنام ِ خیالی نے مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستیہ پال آنند
یوں تو یہ شعر ہے توحید حقیقی کا نقیب
پر، حضور، اس میں ہے اک نکتہ ذرا بے ترتیب
سب سمجھتے ہیں کہ توحید ہے بس ایک خدا
کثرت آرائی وحدت ہے خداکی کثرت
یا کہ ہے جمع کی بڑھتی ہوئی تعدیل یہاں ؟
اور ’اصنام خیالی‘ کا بھلا کیا ہے شمار
ان گنت ، حد و نہایت سے پرے، لا تعداد
کثرت آرائی وحدت‘ ہے اگر وہم جناب’
ایک یا ایک سے زاید ہے کیا ’وحدت‘ سے مراد؟
مرزا غالب
تم نے تو اور بھی الجھا دیا اس نکتے کو
اے میاں، کیسے بکھیڑے میں ہو الجھے ہوئے تم
ستیہ پال آنند
یہ بکھیڑا تو، حضور، آپ کا اپنا ہے، مگر
اس میں اب میرا الجھنا بھی ہے اک کار ِ ثواب
مرزا غالب
کثرت آرائی ِ وحدت کو اگر یوں دیکھیں
ایک صد سے فقط اک کم ہیں صفاتی اسما ؑ
ان میں الا حد بھی ہے، یعنی اکیلا، تنہا
اور دیکھیں تو اسی معنی میں الواحد بھی
الموخر بھی ہے تو بعد ازاں الاول
میں کہاں تک انہیں گَنوائوں ،عزیزی آنند
ستیہ پال آنند
نام سے کام بڑا، کام سے ہے نام بڑا
یہ سمجھ پایا ہوں اللہ کے سب ناموں سے
شِرک کا اس سےکوئی خطرہ ، جناب ِ عالی؟
مر زا غالب
ایک اللہ کے ہیں صد اسم ۔۔۔فقط مفروضہ
اور اگر لاکھ بھی ہوں تو بھی بہت کم ہیں، عزیز
کثرت آرائی‘ تو خود میں ہے لا تعداد، مگر’
اس میں نفس الا مر ہے صرف قطعیت، اذعان
تم اگر اس کو سمجھنے پہ ہو خود آمادہ
کچھ معمائی نہیں، کچھ بھی پُر اسرار نہیں
شرک کا کوئی بھی خطرہ نہیں، آنند میاں
ستیہ پال آنند
’’کر دیا کافر اَن اصنام ِ خیالی نے مجھے‘‘
ہو اجازت تو ذرا اس پہ بھی کچھ غور کریں
مر زا غالب
اہل وحدت ہوں گر کثرت ِ موہوم میں گم
اور ہو کثرت موہوم ہیولوں کا جہاں
فی الوجود ایسی شراکت ہے بعینہ الحاد
ستیہ پال آنند
تِس پہ پھر آپ کا اقبال ِ قساوت دیکھیں
کر دیا کافر ان اصنام ِ خیالی نے مجھے
کیا نہیں کج روی، خود کام شقاوت، استاد؟
گویا خود آپ نہیں، ہیں یہ خیالی اصنام
آپ کا پاس ِ نفس، وصف بدلنے والے؟
مرزا غالب
ؔشعر گوئی نہیں منبر سے تلاوت ، آنند
یہ تو ہے دل کی زباں، گفت و شنیداپنے لیے
میری توحید پرستی بھی ہے یکساں، خالص
زیب و زینت کی نہیں اس کو ضرورت کوئی
یہ سمجھ جاوٗ تو تم ہو مرے شاگرد ِ ر شید
ورنہ یاں سینکڑوں پھرتے ہیں مرے دیوانے!
Facebook Comments