میں، میں، اور میں ۔ I, me & myself/احمر نعمان

70  اور80 کی دہائی میں اکثر محلے یا خاندان کا نکما ترین بندہ جسے گھر میں دوسری کیا پہلی بار بھی سالن نہیں ملتا تھا، کسی طرح باہر پہنچ جاتا اور پھرجب ‘ٹو ر’ پر واپس لوٹتا تو ٹور ہی وکھری ہوتی، چاہے سٹیکروالی عینک لگا کرائیرپورٹ سے اترا ہو، یا پہلے سے زیادہ ہونق لگ رہا ہو، شان نرالی ہوتی اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اسی حلقہ میں پذیرائی بھی مل جاتی جو پہلے اسے منہ لگانا پسند نہیں کرتے تھے۔ کچھ عرصہ ان لوگوں میں رہ کراسے وہ سب بیوقوف لگنے لگتے اور اپنا آپ بہتر، کہ یہ اتنا پڑھ لکھ کریا اتنی محنت کر کے دھکے کھا رہے ہیں، میں ہی کوئی توپ شئے  ہوں۔

اب سٹیکروالی عینک اور ٹیگ لگے کپڑوں کا دور نہیں مگرابھی بھی بظاہر لکھے پڑھے اور بلیو کالر ورکر دو زندگیوں میں دو الگ روپ کا شکار ملتے ہیں، باہر بھلی بُری جیسی بھی زندگی گزر رہی ہو، پاکستان پہنچتے ہی  انداز بدل جاتے ہیں، باہر شاید انہیں ساتھ رہنے والا نہیں جانتا مگر واپس آ کر دور دراز کے رشتہ دار بھی نظر آنے لگ جاتے ہیں، غیر متوقع پذیرائی سے اپنے آپ کو خواہ مخواہ اہم سمجھنے لگتے ہیں اور نرگسیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ایک دانشور فیس بک کی وساطت سے ملے، باتیں دلچسپ لگیں، زندگی کا تجربہ دکھائی دیا مگر رفتہ رفتہ وہ انتہائی قسم کی نرگسیت narcissismکا شکار ہوتے گئے، شروع میں تعجب ہوا، پھر ہنسی آنے لگی مگر اب تشویش ہونےلگی ہے، روزانہ ان کی بےشمار پوسٹیں آتی ہیں، ہر ایک کا لب لباب یہی ہوتا ہے کہ وہ کس قدر اہم شخصیت ہیں، ان جیسا جہاں میں کوئی نہیں، نہ ان جیسی شخصیت کسی کی ہے، نہ ان سے پُرکشش کوئی نہ ہی ان سے بہتر فیشن کوئی کرتا ہے اور نہ ہی ان سے زیادہ کوئی سمجھدار ہے۔ لوگ اپنی فیک آئی ڈی سے ایسی خود تعریفی نہیں کر سکتے جتنی یہ صاحب اپنی اصل آئی ڈی سے اپنی کرتے ہیں۔

نرگسیت نفسیاتی مرض ہے، ایسا شخصی عارضہ Personality disorder ، جس میں انسان اپنی اہمیت کا نا  صرف قائل ہوجاتا ہے بلکہ وہ حصول توجہ کا اس درجہ کا طالب بن جاتا ہے کہ چاہتا ہےساری دنیا اسی کی تعریف کرے، نہ کرے تو وہ اپنی تعریف میں انہی کی طرح صبح شام مگن رہتا ہے، نقصان بےشمار جیسے اس قدر نرگسیت میں ممکن ہے وہ اوروں کے جذبات سمجھنے سے عاری ہو جائے، ذرا سی تنقید برداشت نہ کرپائے، وغیرہ۔ بس میں نے کہہ دیا ناں، بس یہیں بات ختم۔

دلچسپ بات ہے کہ ہمارے ہاں سمجھا جاتا ہے کہ خواتین خود پسندی کا شکار ہوتی ہیں مگر جدید نفسیات کہتی ہے کہ نرگسیت کا مرض مردوں میں خواتین کی نسبت زیادہ ملتا ہے۔
اب اپنے کیس پر لوٹیں تو ایک اور مشترکہ دوست سے ان کے بارے میں بات ہوئی، میں نے عرض کی کہ ان کی مَیں مَیں دیکھ کر لگتا ہے کہ آئرش وہسکی /رم میں جیسے ڈیری کا استعمال ہوتا ہے، یہ وہسکی میں بکری کا دودھ ملا کر پینے لگے ہیں۔ بچپن میں ٹی وی پر ایک کردار حسین و جمیل مگرمچھ آتا تھا،جو آئینہ دیکھ کرکہتا تھا، بول آئینے بول مجھے بتا، میں اتنا حسین کیوں ہوں اور ساتھ ہی آئینہ بیچارہ تڑخ  کر جاتا۔

تاریخی طور پر دیکھیں تو یونانی دیومالا میں نارسسس Narcissus ایک شکاری گزرا ہے، بعض روایات کے مطابق وہ پانی کے خدا کفیسس کا بیٹا تھا اور قدیم یونان میں موجود ازمیر – موجودہ ترکیہ سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ اپنے حسن اور وجاہت کی وجہ سے معروف تھا مگر حسیناؤں سے عدم التفات کا مظاہرہ کرتا، بالکل جیسے سلطان راہی کے آگے پیچھے انجمن ٹھمکے لگا رہی ہوتی تھی مگر وہ روبوٹ بنا بےنیازی سے کھڑا مونچھوں کو وٹ دے رہا ہوتا تھا۔(اور مونچھیں بھی نقلی)۔

معروف شاعر اووڈ کی داستان میٹا مورفسز کے مطابق اس کی ماں ایک اپسرا تھی، اس نے کسی کاہن/غیب دان سے مشورہ کیا جس نے کہا یہ لمبی عمر پائے گا اگر اس نے اپنا آپ نہ دیکھ لیا۔
ایک دن اسے ایک اور اپسرا “ایکو” echo نے دیکھا ، اس کی وجاہت سے متاثر ہوئی اور عشق میں گرفتار ہو گئِی۔ اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔ نارسس کو احساس ہوا اس نے چلا کر پوچھا، ‘کون ہو تم’۔ جواب میں اسی کی صدا لوٹ آئی۔ ” ۔ ‘کون ہو تم’۔

کچھ عرصہ بعد ایکو نے پردہ ہٹایا اور اسے گلے لگانے کی کوشش کی مگر نارسس نے ٹھکرا دیا، ایکو اتنا دکھی ہوئی کہ اس نے اپنی باقی عمر تنہائی میں گزار دی اور آخر میں بس بازگشت یا گونج ہی بن کر رہ گئی۔ پرانی فلموں میں آپ نے دیکھا ہو گا کہ پہاڑوں پر جا کر ہیرو/ہیروئین اسی (ایکو) یا بازگشت کو سنا اور سنایا کرتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

خیر نارسسس کی اس حرکت پر بدلے کی  دیوی نے سزا دینے کا فیصلہ کیا، ایک شکار کے بعد نارسس کو پیاس لگی تو ایک تالاب کی جانب گیا ، پانی پیتے اس نے پھولوں میں گھرا اپنا عکس دیکھ لیا اور اپنے عشق میں گرفتار ہو گیا۔ وہیں اپنے عکس کو یہ سمجھ کر دیکھتا رہا کہ یہ کوئی اور ہے، مگر عکس کو پا تو سکتا نہیں تھا، ایک کہانی کے مطابق اس نے وہیں خودکشی کر لی، اووڈ کی داستان کے مطابق وہ وہیں بیٹھا اپنا آپ دیکھتا یعنی خود پر ہی مر گیا اورنرگس کے پھول میں تبدیل ہو گیا۔ پاولو کوہیلو نے الکیمسٹ کے آغاز میں اسی کہانی کا ایک ورژن بیان کیا ہے۔
اسی پھول کے نام پر ہم اسے نرگسیت کا مرض کہتے ہیں، انگریزی میں نارسسٹ۔ فلسفہ میں Solipsism ایک انتہائی قسم ہے جو ایک قسم کا self obsession ہی ہے۔
تصویر انگریز مصوروپینٹرجان ولیم واٹرہاؤس John William Waterhouse کی “سنسر شدہ” تصویرہےجو اووڈ والی داستان سے کچھ مختلف لگ رہی ہے کیونکہ اس وقت تک تو محترمہ بازگشت پرلوک سدھارچکی تھیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply