آنکھوں میں اداسی، چہرے پر پریشانی، ماتھے پر بےشمار بل، رخساروں پر آنسوؤں کے نشانات اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کے آثار قدیمہ بھی نہیں تھے۔
شاید آخری مرتبہ مسکرائے صدیاں بیت چکی تھیں۔
وہ آئینے کے سامنے کسی مورتی کی طرح ساکن کھڑا اپنے وجود کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس کی پتھر نما آنکھوں میں حرکت ہوئی۔
جلدی سے دوسرا چہرہ اٹھا کر پہلے چہرے کو ڈھانپ لیا۔
اب اس کی آنکھوں میں رونق تھی، ماتھا صاف تھا اور لبوں پر مستقل مسکراہٹ تھی۔
دنیا کے سامنے وہ مسکراہٹیں بکھیرنے والا ایک “زندہ دل” انسان تھا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں