چلے تھے دیوسائی ۔۔۔جاوید خان/قسط26

چلے تھے دیوسائی ۔۔۔جاوید خان/قسط25

بُرزَل ایک قاتل درہ:
درّہ بُرزَل تقریباً 13500ُٖفُٹ بلند ہے۔سلسلہ ِ ہمالیہ کے اَہم دروں میں شمار ہوتاہے۔سال کے اَندازاً سات ماہ بھاری بَرف باری کی وجہ سے بند رہتا ہے۔1947سے قبل یہ سِری نگر،سکردو،گلگِت کے درمیان دِیوسائی کے راستے رابطے کاذریعہ تھا۔یہ ایک مُشکل اَور برفانی شاہراہ تھی۔ماضی میں اِس درّے کو پار کرنے والے سینکڑوں لوگ موت کی وادی میں چلے گئے۔کُچھ اِس کے برفانی تودُوں کی زد میں آئے تو زیادہ تر اِس کی برفانی گُزرگاہوں پہ پھِسل کر اَجل کے ہاتھ جالگے۔اِس کااَحوال کئی مغربی مصنفین نے لِکھا ہے۔سپیڈنگ نے ۱۲ اَکتوبر۱۹۸۱ ء کو یہاں درجنوں اِنسانوں اَور گھوڑوں کو برف میں مُنجمند،مُردہ پایاتھا۔ایک عورت کو تڑپتے دیکھا جو اَپنے مُردہ بچے کی لاش برف پہ تلاش کرتی پھر رہی تھی۔ یہاں موسم اَچانک اپنے تیور بدلنے کا عادی ہے۔آج بھی اَگر چار دِن لگاتار بارش ہو جائے تو برف اَور اولے گِرنے لگتے ہیں۔ بُرزَل کی بَرفوں میں وہ طاقت اَور زور اَب نہیں رہا،نہ ہی ماضی کے قدیم تجارتی راستے اَب اِس کے محتاج ہیں۔ مگرماضی میں اِس کی شاہراہؤں پہ سفر کرنے والے اِسے ایک قاتل درّے کے نام سے جانتے تھے۔

گڈڑیوں کی رونق:
درّے کی طرف چڑھتے ہوئے سڑک موڑوں کے حصار میں آجاتی ہے۔اَردگِرد گڈڑیے اپنی عارضی بستیاں بسائے،بَس رہے ہیں۔ہم خراماں خراماں  بلند ہورہے تھے۔اِک موڑ پہ تقریباً  سو کے لگ بھگ بکریاں لیے ایک عمررسیدہ گڈڑیے کے پاس عاصم نواز صاحب رُکے۔
عاصم:سلامَ لیکُم!
گڈڑیا:وَلیکُم سلام!
عاصم:کیا آپ بکریاں فروخت کرتے ہیں۔؟
گڈڑیا:فروخت بھی کرتے ہیں۔
عاصم:ایک بکری کی کیا قیمت ہے۔؟
گڈڑیا:کوئی سات آٹھ ہزار۔
عاصم:کیا یہ سب آپ کی اپنی ہیں۔؟
گڈڑیا: نہیں ایک دوست کی بھی ہیں۔
میں:کہاں لے جارہے ہیں اِنھیں۔؟
گڈڑیا:اُوپر پہاڑ پہ چرانے کے لیے۔

ہمارا مکالمہ ختم نہیں ہوا تھا کہ عاصم نواز نے موڑ کاٹ لیا۔گڈڑیے کی ذاتی بکریاں 50 تھیں،باقی دوست کی تھیں۔موسم مُڑتے ہی پُورے گاؤں کی بکریاں چند اَفراد لے کر ڈھوکوں (بلند چراگاہ)پہ آجاتے ہیں۔کچے ڈھاروں کو دُرست کرتے ہیں۔پھر سرما آنے تک اِدھر ہی رہتے ہیں۔ ہر چرواہے کو بکریاں چرانے کی اُجرت دی جاتی ہے۔بکریوں کامالک کُچھ نقدی اَور ایک بکری دیتا ہے۔اَگر کوئی بکری یا بھیڑ چراگاہ میں بچہ دے  تو چرواہا اُس بچے کو جھولی میں اُٹھا کر مالک کے سامنے جاکھڑا ہوتاہے۔اَور بدلے میں اُس سے اعلی ٰ چیز کاحق دار ہوتاہے۔اگر اَچھی چیز پیش نہ کی جاسکے تو اِسے سخت بے عزتی تصور کیا جاتاہے۔

بُرزَل چوٹی:
درّہ بُرزَل کی چوٹی پہ سرد ہواؤں کے تھپیڑے شیشوں پہ بج رہے تھے۔یہاں کی ہوائیں سخت ہیں۔ یہاں اِ نہی  کاراج ہے۔وہ اَندر گھُسنے کے لیے زور لگارہی تھیں۔اَور ہم نے شیشے نہ کھولنے کا عہد کررکھا تھاکہ اَچانک چوکی پہ گاڑیوں کو رُکنا پڑا۔مجبوراً ہم نے شیشے اُتارے۔ضروری جانچ کے بعد ہم آگے بڑھے۔یہ شاہراہ عام نہیں،نہ ہی اِدھر ہر کَس وناکَس کاگُزر ہوتاہے۔بُززَل چوٹی پہ یخ ہوائیں تھیں اَور سورج بادلوں کے سامنے بے بَس تھا۔ایک بیرک نماجِستی چادروں تلے رہ کر، ہمالیہ کی اِن سرد ہواؤں کو جھیلنے والے اِنسانوں کو ہمارا سلام۔دائیں طرف ایک ہیلی کاپٹر کا ٹوٹا وجود بِکھرا پڑا تھا۔سپاہی نے بتایا یہ درّہ بُرزَل میں ہی ایک جگہ پرواز کے دوران گِر کر تباہ ہو گیا تھا۔پائلٹ اَور سوار،سب شہید ہوگئے تھے۔

نشیب،گھاس اَور درخت:
اَب بلندی سے اِک دَم نشیب کو سفر شروع ہو گیا۔ہماری منز ل مِنی مَرگ تھی۔چوکی سے کُچھ آگے ایک راستہ بائیں طرف کو جاتا ہے۔ بارش کی ہلکی ہلکی بُوندیں اُکھڑی سڑک پہ پڑ رہی تھیں۔چوٹی پر پہنچتے ہی بُوندا باندی شروع ہو گئی۔کھُر دری کٹاؤ کی ماری سڑک پر کُچھ دیر چلنے کے بعدراستہ صاف ہونے لگتاہے۔لگاتار اُترائی میں گھاس سے بھری زمین دُور تک پھیلی تھی۔کِسی جگہ اِکا دُکا درخت جِس کے سفید تنے،سبز گھاس میں چمک رہے تھے۔یہ درخت شاید درّہ بُرزَل کے قدموں میں بِچھی اِس وادی میں قدیم تاریخ کے گواہ ہیں۔سامنے ایک ایسا ہی پہاڑ بلند ہوتا ہے جیسے اِس طرف ہے۔وہاں بھی چند ایک درخت سر جھکائے کھڑے تھے۔اِن کی سفید چھال سخت ہے اَور پتے سبز،چھوٹے اَور قدرے گول۔درخت زیادہ اُونچے نہیں،کُچھ اُوپر جاکر واپس زمین کی طرف جُھک جانا اِنکی خاندانی عادت ہے۔سفیدنباتاتی وجود کا یہ نرا لہ اَنداز لمبی لمبی گھاس میں دِل موہ لیتاہے۔ ایک سبزہ زار پہ جھُکا بُزرگ درخت اپنی تنہاداری میں مَست تھا۔ایک پہاڑی چشمہ ندی کی صُورَت اِس ساری گھاس اَور اِکا دُکا درختوں کے درمیان گُزرتاہے۔

ناصرکیمپ بُرزَل چوکی کے بعد دُوسری چوکی ہے۔یہ اُترائی کے ایک موڑ پہ واقع ہے۔موڑ کے بائیں بکروالوں کاقبرستان ہے۔پُختہ قبروں پہ سفیدی کی گئی ہے۔اِن راستوں پہ مُدتوں سے اُن کے آباؤ اَجداد سفر کرتے آئے ہیں۔خانہ بدوش زندگی کے عادی اِن لوگوں کی قبریں کسی باقاعدہ قبرستان میں نہیں بنتی۔اِن کو خاموش،ویران اَور اَنجان جگہیں ہی راس آتی ہیں۔ دائیں طرف ناصرکیمپ ہے۔اُترائی جیسے ہی کم ہوئی۔اِک میدان میں بکروالوں نے خیمے لگارکھے تھے۔پُورا خاندان پڑاؤ کیے ہوئے تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔۔۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”چلے تھے دیوسائی ۔۔۔جاوید خان/قسط26

Leave a Reply