فیصل عرفان پوٹھوہاری زبان کا محسن۔۔۔ڈاکٹرزاہدحسن چغتائی

خود رو پودے اور درخت انسانی زندگی کی بقا اور شفا کی علامت بن کر عرف عام میں جڑی بوٹیوں کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں،ان کے مقابلے میں کاشت کاری کے اصولوں کے مطابق اگائے گئے پودے و درخت فطری اور کسبی خواص رکھتے ہیں۔ مختلف خطوں کی علاقائی اور قومی زبانوں کی اہمیت بھی کچھ اسی طور اجاگر ہوتی ہے۔دنیا کی بڑی زبانیں جو اپنے اپنے انسانی معاشروں میں قومی ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ تحقیق اور جستجو سے اپنا دامن وسیع سے وسیع تر کرتی چلی جاتی ہیں۔ ان کے باوصف خود رو علاقائی زبانیں عمومی طور پر تحریری خواص کی حامل نہیں ہوتیں بلکہ بول چال کے سانچے میں ڈھل کر آکاس بیل کی طرح پھلتی اور پھولتی چلی جاتی ہیں۔ مشرق کی علاقائی اور خود رو زبانیں سراسر عوامی مزاج رکھتی ھیں اور مٹی کی بوباس کے طفیل ثقافتی، تہذیبی اور صوفیانہ رنگ اختیار کرتی چلی جاتی ہیں۔ پوٹھواری زبان کا شمار بھی اسی قبیل کی علاقائی اور خود رو زبانوں میں ہوتا ہے۔ یہ زبان پوٹھوہار کی طبقاتی اور ہفت رنگ تہذیبوں کے بہت سے مزاج سنبھالے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس زبان میں بھانت بھانت کی لفظیات اور لہجے گھل مل کر ایک ایسا ماحول بناتے ہیں،جس کے زیر اثر یہاں کے رہنے والے اسے خاص تلفّظ اور مخارج کے ساتھ بول کر جانان رنگا رنگی پیدا کرتے ہیں۔

پوٹھواری زبان بولنے والوں کے دل میں یہ احساس پوری طرح جاگزیں ہے کہ یہ زندہ دل،خوشگواریت اور مزاح سے لبریز معاشرے کی عکاسی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس زبان میں دنیا کی بڑی زبانوں کے اسٹائر اور ہیومر کی خود رو جھلکیاں بخوبی نظر آتی ہیں۔ یہ خوشگواریت سے لبریز ہر دو عناصر اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ پوٹھوہاری زبان ایک پوری جاندار ثقافت اور تہذیب کی زبان ہے۔ اس زبان کے عوامی مزاج سے لے کر فنون لطیفہ کے انگ سے حظ اٹھانے کی تمام صلاحیت بھی خود رو ہے۔ اس کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ پوٹھوہاری زبان میں اصول تحقیق کا وہ دور دورہ دیکھنے کو نہیں ملتا،جو دیگر علاقائی زبانوں میں نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ فیصل عرفان نے پوٹھوھاری زبان کے محاوروں کی ایک جاندار فرہنگ تیار کر کے تحقیق اور جستجو کی تازہ نیو ڈال دی ہے۔ میں اس دلچسپ امر پر حیران ہوں کہ ان کے ادراک میں یہ خیال کیسے در آیا؟؟؟اور یہ بھی کہ انہوں نے پوٹھواری اکھانڑ اور محاورے جمع کرتے ہوئے کن مشکلات کا سامنا کیا؟؟؟ یہ بات میں اس وثوق کے ساتھ بھی کر رہا ہوں کہ پوٹھوہاری زبان کا لسانی سرمایہ کتابوں کی صورت یا تو بالکل ناپید یا پھر معدوم ہے۔

فیصل عرفان کی زیر نظر کتاب پوٹھواری اکھانڑ تے محاورے ایک ایسی بارش کے پہلے قطروں جیسی ہے، جسے کھلی آنکھ سے دیکھنے کیلئے ابھی سالوں کا سفر درکار ہے۔ یوں بھی اگر پوٹھواری زبان و ادب کی بات کریں تو اس کے نقوش چار نامور اور قدآور شعراء کے ہاں ملتے ہیں، جن کے نام بالترتیب میاں محمد بخش رح، پیر مہر علی شاہ رح، سائیں پشاوری اور باقی صدیقی ہیں۔ اگرچہ ان چاروں میں پیر مہر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ اور باقی صدیقی کا شعری لب و لہجہ پوٹھواری زبان کی پوری غمازی کرتا ہے جبکہ میاں محمد بخش رح اور سائیں پشاوری کے ہاں اس زبان کے بکھرے ہوئے نقوش ملتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی اپنے وثوق تک پہنچی ہوئی ہے کہ پوٹھوہاری شاعری کو صفحہ و قرطاس پر لانے کے ضمن میں ان دونوں کو تقدیم حاصل ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ فیصل عرفان نے پوٹھواری زبان کی لسانیات پر کام کرنے سے پہلے یہ پس منظری مطالعہ بھی کیا ہے یا نہیں؟ تاہم اس حقیقت کو آشکار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ فیصل عرفان کا تعلق جدید پوٹھواری زبان و ادب سے ہے، لہذا ان کے مرتب کردہ پوٹھواری اکھانڑ اور محاوروں میں جدیدیت کا جوہر سر چڑھ کر بولتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان کی اس مساعی میں جہاں پوٹھواری زبان کے فطری طنز و مزاح کی جھلکیاں نظر آتی ہیں وہاں یہ امر بھی پوری طرح عیاں و بیاں ہے کہ اس زبان کی شیرینی اور مٹھاس کا بھی قارئین کو بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ اس تناظر میں باقی صدیقی کے پوٹھواری شعری مجموعہ کچے گھڑھے کو سامنے رکھ لیں تو یوں لگتا ہے جیسے فیصل عرفان کو اس حقیقت کا پورا ادراک ہے۔ باقی کے اشعار دیکھئے ع
سرگی ناں ویلا ہویا جاگ پئیاں گلیاں۔۔۔۔۔ کسے کی بلان پئیاں اونٹاں نیاں ٹلیاں
یا پھر ع
نکے نکے بوٹیاں تے نمی نمی چانڑی۔۔۔۔۔ رات چٹا ریشمی دوپٹہ پئی تانڑی
فیصل عرفان کے جمع کردہ پوٹھواری اکھانڑ اور محاوروں کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اس تفاخر کا بھی ثبوت فراھم کیا جا سکتا ہے کہ پوٹھوہاری زبان پنجابی زبان کی کوکھ سے نکلنے والی دیگر علاقائی زبانوں (بھاشاؤں) سے بھی خوشہ چینی کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر’’آپے میں رجی پجی آپے ماھڑے بچڑے جینڑ‘‘
اور یہ بھی’’اللہ چنگی گلے اپر راضی ہونڑاں۔۔۔۔‘‘
پوٹھواری زبان کے طنز و مزاح کی ایک جھلک اس محاورے میں دیکھئے’’بیچی کے ریوڑیاں کھاڑناں‘‘
ایک محاورہ اور دیکھئے’’بلنی ہر کوئی سیکے‘‘
اس محاورے کی مٹھاس کا اندازہ کیجئے ’’چیترے نی چڑھی نہ کوٹھا نہ کڑی‘‘
ایک اور محاورے کی انفرادیت سے حظ اٹھائیے’’رج سکھے پچایا یا مجھی‘‘
ایک اور محاورہ’’کال چلا گسنا سکال نئی گسنا‘‘
اس محاورے میں طنز کی گہری چھاپ دیکھی جا سکتی ہے ’’کھائیے رج کے تے سوئیے منہ کج کے‘‘
یہ محاورہ دیگر علاقائی زبانوں سے خوشہ چینی کا غماز ہے ’’کھکھڑیاں نی راکھی گیدڑ‘‘
المختصر فیصل عرفان نے پوٹھواری زبان کی تحقیق کا ایسا در کھول دیا ہے جو پوٹھواری محاوروں کے دوش پر محقیقین کو اس زبان کے در و بست کی جستجو پر اکسائے رکھے گا۔ اس پر میں پوٹھواری اکھانڑ تے محاورے کے مؤلف کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اس زبان سے پیار کرنے والے سارے پوٹھواریوں کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں جو اپنے شب و روز پوٹھوہاری کے لب و لہجے سے استوار کرتے ہیں۔ میں یہاں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ آنے والا دور پوٹھواری زبان کی تحریری صلاحیتوں کو یوں بڑھاوا دے گا کہ اس کا سرمایہ کتابوں کی صورت آپ کے ہاتھوں میں ہو گا، ایسے بھلے وقت میں فیصل عرفان کی اس کاوش کو پوٹھوہاری زبان کے محسن کے طور یاد رکھنا ناگزیر ہوگا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply