روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

جہاں میں ہوں غم و شادی بہم ہمیں کیا کام
دیا ہے ہم کو خدا نے وہ دل کہ شاد نہیں
۔۔۔۔۔۔
ستیہ پال آنند
نہ جانے آج تک میں کیوں سمجھ نہیں پایا
یہ اک روایتی تفصیل اس حوالے سے
کہ کوئی ادنیٰ سا شاعر بھی اپنے بارے میں
ہمیشہ “مَیں” کی جگہ “ہم” ہی کیوں برتتا ہے
“ضمیر جمع متکلم” کی کیا ضرورت ہے؟

مرزا غالب
تو گویا یہ بھی ، عزیزی، ہے مجھ پہ ہی تہمت
کہ میں نے ہی تو یہاں ایسی جسارت کی ہے

ستیہ پال آنند
جناب توبہ مری، توبہ استغفار، استاد
حضور میرا تو ادنیٰ سا اک سوال ہی تھا
مجھے معاف کریں، کان پکڑے سو سو بار
مگر جواب تو دیں اس حقیر جملے کا
ضمیر ِ جمع متکلم کی کیا ضرورت ہے؟

مرزا غالب
تمہیں تو علم نہیں، تم ہو ایک پنجابی
یہی ہے طور و طریق ا پنے دلی والو ں کا
کہ خود کو “ہم” ہی کہا جاتا ہے دلی میں ، میاں

ستیہ پال آنند
اگر ہو اِذن تو اس ضمن میں کچھ عرض کروں؟

مرزا غالب
ضمیر جمع متکلم کی با ت ختم ہوئی
اب اس پہ ترک کرو اختلاف ِ رائے، میاں
کہو تو شعر کی بابت اگر ار ادہ ہو

ستیہ پال آنند
غم و خوشی کے تناسب میں بات جب بھی ہو
تو لوگ “نغمہ و شادی بہم” ہی کہتے ہیں
حضور ، آپ نے یہ بات تو درست کہی
پھر اس کے بعد کہی ایک یک مرادف بات
“دیا ہے ہم کو خدا نے وہ دل کہ شاد نہیں”
مراد یہ ہے کہ یہ دل ہمیشہ غمگیں ہے
مراد یہ ہے کہ ا س میں خوشی سِرے سے نہیں
خوشی کا کوئی بھی عنصر نہیں ہے اس میں، حضور؟
جہاں میں ہوں غم و شادی تو پھر غلط ٹھہرا

Advertisements
julia rana solicitors london

مرزا غالب
بہم پہ اور ذر ا غور و فکر واجب ہے
جو بات میں نے کہی ہے ، وہ صاف بیّن ہے
غم و خوشی ہیں بہم۔۔۔ کوئی بھی تناسب ہو
یہ بات عین حقیقت ہے سب جہاں کے لیے
مگر مرے لیے یہ بات بھی درست نہیں
کہ میں تو ایسی حقیقت کا ایک مظہر ہوں
کہ جس میں شائبہ تک بھی نہیں مسرت کا
“دیا ہے ہم کو خدا نے وہ دل کہ شاد نہیں”
غم و خوشی کے تناسب کا کیا حساب کتاب؟
کہ جب سِرے سے ہی مفتود ہے خوشی کا خراج
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply