روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

ربط یک شیرازہ ء و حشت ہیں اجزائے بہار
سبزہ بیگانہ، صبا آوارہ، گل نا آشنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ستیہ پال آنند
کیسی ہے شیرازہ بندی اس کتاب ِ زیست کی
چَندی چِندی سب ورق اس کے ہیں بُراں، آختہ
ہیں اگر مربوط بھی تو سِلک ِ وحشت میں ہی ہیں

مرزا غالب
گل، صبا، سبزہ میں ربط باہمی وحشت کا ہے
اور یہــ’’ ـناآشنا‘‘، ’’آوارہ‘‘، ’’بیگانہ‘‘ ہیں سب
شاعری میں یہ سبھی سلک بیاں کا جزو ہیں
ایسے مصطلحات سے اردو مزین ہے اگر
اس کی خوش وضعی پہ، آ ٓب و تاب پہ نازاں ہوں میں
ماقل و دل، من وعن میں نے انہیں برتا ہے یاں
سبزہ بیگانہ ۔۔۔صبا آ وارہ۔۔۔گل نا آشنا
اخترا ع ِ نو نہیں ہے میرے حصے کی، عزیز
مجھ سے پہلے بھی انہیں برتا گیا ہے اس طرح

ستیہ پال آنند
میرا استفسار، استاذی، ہے بس اس ضمن میں
یہ سبھی منفی اشارےاس حوالے سے ہیں کیوں؟

Advertisements
julia rana solicitors

مرزا غالب
ان کو منفی استعارہ مت کہو، اے ستیہ پال
یہ بھی تو اشفتگی کے استعاروں کے ہیں جزو
ساری دنیا ہے پریشاں، یہ خلاصہ صاف ہے
قدر ِ مثبت ہے ، پریشانی کا عالم، ستیہ پال
یوں اگر بیٹھے رہیں چُپ چاپ، بے حرکت تو ہم
نیم مردہ، صم بکم،۔۔گویا ہیں مرگ آسا سبھی
گل، صبا، سبزہ ہمیں تلقین کرتے ہیں یہاں
صرف حرکت، صرف حرکت، صرف حرکت ہے حیات!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply