ادب نامہ    ( صفحہ نمبر 93 )

پِنجرہ ( چار دِلوں کی داستان )3،آخری قسط۔۔سید علی شاہ

اشعرڈرائیور سے کہہ کر واپس دفتر جانے کی بجائے گھر ہی آ گیا اور سیدھا اپنے کمرے میں پہنچ کر اندر سے کمرہ بند کر لیا ۔۔ شام کو ساجدہ آئی تو اس نے پوچھا کہ کیا ہوا تھا دفتر←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

خیال ِ مرگ کب تسکیں دل ِ آزردہ کو بخشے مر ے دام ِ تمنـا میں ہے اک صید ِ زبوں، وہ بھی ستیہ پال آنند مجھے تو سیدھی سادی بات کرنےکا سلیقہ ہے مجھےیہ استعارہ غیر شائستہ سا لگتا←  مزید پڑھیے

سابقہ خاندان۔۔روبینہ فیصل

مختلف عمروں کے چندبچے، بھاگ کر آئے اور اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئے۔ اس نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے لفافے ایک ایک بچے کا نام لے کر اسے تھمانے شروع کئے۔یہ اس کا خاندان تھا۔ اور یہ اس←  مزید پڑھیے

اردو ادب میں رثائی افق۔۔۔محمد نصیر زندہ

مرثیہ عربی زبان کا لفظ ہے۔یہ رثا سے متعلق ہے،جس کے معنی ہیں مردے کو رونا۔درد انگیز الفاظ سے مرے ہوئے انسان کی توصیف کرنا اور اس کی خصوصیات بیان کرنا۔اہل ِ عرب اپنے مقتولوں پر کرب ناک سوز و←  مزید پڑھیے

وہ آخری بت۔۔حبیب شیخ

میرے جیون ساتھی، آؤ!اب تم واپس آجاؤ! میں اپنے بتوں کو توڑ دوں گی اور تم بھی اپنے بتوں کو پاش پاش کر دینا۔ مجھے یقین ہے کہ پھر ہم خوشگوار زندگی پالیں گے جس میں دونوں کا ایک ہی←  مزید پڑھیے

روٹی مانگنے والا۔۔رمشا تبسم

وہ سات سال کا معصوم سا بچہ تھا۔جب وہ ایک دراوازے پر کھڑا بھیک نہیں بس روٹی مانگ رہا تھا۔کھڑکی سے کسی کے دیکھتے ہی اس نے بس ایک روٹی کا سوال کیا۔روٹی کا سوال شاید دنیا کا وہ واحد←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

تیرا انداز ِ سخن شانہ ٔ زلف ِ الہام تیری رفتار ِ قلم، جُنبش ِ بال ِ جبریل ستیہ پال آنند شاہ کی شان میں ہے یوں تو قصیدہ، لیکن کیوں مرے د ل میں کھٹکتی ہے یہ اک بات،←  مزید پڑھیے

وحشی ماں(دوسرا،آخری حصّہ )۔۔۔رمشا تبسم

“جج صاحب اریبہ کا قتل نورالعین کے قتل سے کچھ روز قبل ہوا تھا۔اسی کے دکھ میں دیوانی ہو گئی  تھی یہ عورت۔ اور اتنی وحشی بن گئی  کہ  اس نے میری دوسری بچی کو بھی قتل کر دیا “۔←  مزید پڑھیے

وحشی ماں(حصّہ اوّل)۔۔۔رمشا تبسم

کمرہ عدالت کے باہر گہما گہمی تھی۔رپورٹرز بار بار اپنے چینل کے ذریعے اپنے ناظرین تک تازہ ترین اطلاعات پہنچانے میں مصروف تھے۔سکیورٹی سخت تھی۔عوام غم و غصہ کی حالت میں عدالت کے باہر کھڑی تھی۔پولیس ان کو کسی بھی←  مزید پڑھیے

خواب۔۔افراح مرتضیٰ

کمرے میں چاروں طرف اے سی کی خنکی پھیلی ہوئی تھی۔ عالیشان کمرے میں ہر چیز اپنی مثال آپ تھی سب کچھ بالکل ویسا ہی تھا جیسا اسے پسند تھا۔ اسے لگتا تھا وہ اپنی خوشیوں کا محل تعمیر کر←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

کمال ِ گرمیٗ سعی ِ تلاش ِ ِ دید نہ پوچھ برنگ ِ خار مرے آئینہ سے جوہر کھینچ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند کوئی حساب بھی ہے ان اضافتوں کا، حضور؟ ’’کمال ِِ گرمی ء سعی ِ ِ تلاش دید‘‘←  مزید پڑھیے

پِنجرہ ( چار دِلوں کی داستان )قسط1۔۔۔سید علی شاہ

نوشین مُٹھیاں بھینچے اور دانت کچکچاتے مسلسل کمرے میں اِدھر سے اُدھر پھِر رہی تھی ابھی کُچھ دیر پہلے اُس نے کانچ کے  دو گِلاس بھی دیوار پر مار کر توڑ دیے تھے ۔ وہ کبھی بیڈ پر بیٹھ جاتی←  مزید پڑھیے

ازدواجی کلیات۔۔سید عارف مصطفیٰ

1 – زوجہ کی تعریف کرتے رہنا چاہیے کیونکہ رفع شر کے جذبے کے تحت بولے گئے جھوٹ قابل معافی ہوتے ہیں۔ 2 – ازدواجی زندگی انہی شوہروں کی خراب گزرتی ہے کہ جو یہ آفاقی حقیقت نہیں سمجھ پاتے←  مزید پڑھیے

غزل پلَس۔۔ستیہ پال آنند

کون ہیں یہ دو جَنمے اِنساں ؟ مَیں اور مَیں ایکــ اکَہرے’ پھر بھی جُڑواں ‘ مَیں اور مَیں تُو اور تُو تو شاید بُوڑھے ہو بھی چکے دیکھ کہ اِس پیری میں جواں ہیں ‘ مَیں اور میں مَیں←  مزید پڑھیے

کیا لکھیں؟ ۔۔۔ معاذ بن محمود

بنام بلوچ برادران۔۔۔ جو کھولیں لب تو اٹھتے ہیں صدائیں دیں تو دبتے ہیں زباں ہے بند، تڑپتے ہیں سہمتے ہیں، سسکتے ہیں، بلکتے ہیں الم کی داستاں بھی کیا لکھیں جو لکھ ڈالیں تو گڑتے ہیں پھر ان کی←  مزید پڑھیے

کینیڈا۔۔۔روبینہ فیصل

ڈاکٹر خواجہ اکرام صاحب، جواہر لعل نہرو یو نیورسٹی کے شعبہ اردو کے چئیر مین اور اردو ورلڈ ایسوسی ایشن کے روح رواں اور گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی کے اردو ڈیپارٹمنٹ کے چئیرمین ڈاکٹر افضال بٹ نے کرونا کے ان←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

میں عدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا میری آہ ِ آتشیں سے بال ِ عنقا جل گیا ستیہ پال آنند بندہ پرور، مجھ سے گر شاکی نہ ہو ں تو یہ کہوں کیا ضر ورت تھی غلو کی←  مزید پڑھیے

راحت اندوری: مزاحمتی لہجے کا شاعر۔۔ڈاکٹر اشرف لون

اقبال ہو ، فیض ، فراز یا جالب سبھی نے اپنی انقلابی اور مزاحمتی شاعری سے عوام و خواص کے دلوں کو گرمایا اور ان میں جوش پیدا کیا۔ قوم کو خواب غفلت سے جگانے میں ان شعرا کی خدمات←  مزید پڑھیے

حقیقت۔۔رؤف الحسن

یونیورسٹی میں اکتوبر کے دوسرے ہفتے کی ایک خاموش شام اتر رہی تھی۔ سڑک کنارے بکھرے خشک پتے خزاں کی نوید سنا رہے تھے۔ اور ہم دونوں قدم سے قدم ملائے, خاموشی سے چلتے جا رہے تھے۔ یہ یونیورسٹی میں←  مزید پڑھیے

گھروندا ریت کا(قسط26)۔۔۔سلمیٰ اعوان

رحمان کے دونوں بچے چھٹیاں گذارنے گھر آرہے تھے۔رات کو کھانا کھاتے ہوئے اُس نے کہا۔ ”بی ہومز کی پرنسپل کا خط آج آفس آیا تھا۔بچے درگا پُوجا کی چھٹیاں گذارنے کل دو بجے آرہے ہیں۔لیکن ایک مسئلہ درمیان میں←  مزید پڑھیے