گیٹ نمبر نو کے چوکیدار اشرف نذیر کا اپنی بیٹی ثریا کے نام خط ۔

میری جان ، 1993 میں ڈبل میتھس فزکس میں بی ایس سی کرنے کے باوجود مجھے کوئی ڈھنگ کی نوکری نہ ملی تو یہاں سکیورٹی اسسٹنٹ کے طور پر ملازمت شروع کر دی کیونکہ تمھاری ماں رقیہ کی چھاتیوں میں تمھاری بھرپور نمو کے لئے زیادہ دودھ نہیں اترتا تھا اور ڈبے کا دودھ افورڈ کرنے کا بس یہی ایک طریقہ تھا کہ جو بھی مجھے آجر بنائے بس اسی کے آگے سر تسلیم خم کر کے عاجز بن جاؤں ۔موت کے منہ میں بیٹھ کر  تمھارے اور اپنے منہ میں روٹی ڈالنے کے لئے یہاں آنے جانیوالے بیکٹیریاز اور پرندوں پہ نظر رکھنے میں صَرف ہونیوالے شب و روز ہر وقت میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑائے رکھتے ہیں کہ اگر سوویت یوکرائن کے شہر چرنوبل میں جوہری حادثہ تابکاری کے اخراج کاسبب بن کے  لاکھوں کو مردہ اور اپاہج بنا سکتا ہے، تو شمالی کوریا اور چین کے نٹ بولٹ کس کھیت کی مولی ہیں۔

اس جگہ کی سکیورٹی انتہائی سخت ہے مگر پھر بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان یہاں سے جوہری اور میزائل ٹیکنالوجی حکومت پاکستان اور فوج کی نظروں میں آئے بغیر عمروعیار کی سلیمانی چادر اوڑھ کر لیبیا ،ایران اور شمالی کوریا پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔انھوں نے جو پیسے کمائے،اس سے انھوں نے سہراب سائیکل خرید لی اور اب وہ ہر سال یوم تکبیر کو گھر سے نکل  کر ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کا کریڈت لیتے ہیں اور ہسپتال بنانے کےلئے چندہ مانگتے ہیں۔

فروری 2004 میں انھوں نے قوم کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے “تن تنہا” ماتا ہری کے نواسے ہونے اور نانی کی طرح پکڑے جانے کا اعتراف کیا اور رحمدل جمہوری حکمران پرویز مشرف نے انھیں ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں معاف کر دیا کیونکہ اگر آدم بہک سکتے ہیں تو بنی آدم کیوں نہیں ۔آج بورڈ پر پراجیکٹ 706 کی جگہ خان ریسرچ لیبارٹریز کا نام جگمگا رہا ہے اور راوی چین ہی چین لکھتا ہے کیونکہ اس سکینڈل سے ریکور ہونیوالے پیسے نیب نے حافظ آباد میں نابینا بچوں کے سکول کو عطیہ کر دیے تھے ۔

اندر رکھے جوہری ہتھیاروں اور میزائلوں پہ قوم کے اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں اور اگر میں جہیز کی وجہ سے تمھاری بروقت شادی نہ کر سکوں تو یہی سوچ کر  خود کو تسلی دے لینا کہ تم نے پاکستان کے کل کےلئے اپنا آج قربان کر دیا ۔

پاکستان کے مایہ ناز سائنسدان ایسے ٹیکٹیکل ویپنز تیار کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں کہ  اگر لاہور سے چندی گڑھ پر برسائے جائیں تو تابکاری سے ہندوستان کے مسلمان محفوظ رہیں گے اور یہ تابکاری پاکستانی سرحد بھی عبور نہیں کر سکے گی ۔اس کو کہتے ہیں آم کے آم گھٹلیوں کے دام ۔پھر ہم اپنی انفنٹری کو زرعی ادویات کے سپرے میں استعمال ہونیوالے ملٹی پرپز ماسک پہنا کر ہندوستان میں داخل کرینگے اور ہمارے جوان زمین اور فضاء کو آب زم زم کے چھڑکاؤ سے تابکاری سے پاک کر دینگے ۔اس طرح اکھنڈ پاکستان کا خواب بھی شرمندہ ہونے کی جگہ شرمندہ تعبیر ہو جائیگا۔

یہ حساس منصوبہ میں نے اپنے وائرلیس پر بریگیڈئیر فاروقی کی فریکوئینسی اوور لیپ ہونے پر سنا تھا ۔صرف تمھیں بتا رہا ہوں ۔خدارا کسی سے ذکر مت کرنا ۔Dr.Strange love or:How I Learned to Stop Worrying and Love the Bomb انیس سو چونسٹھ میں بننے والی سٹینلے کوبرک کی شاندار بلیک کامیڈی فلم ہے جس میں جوہری جنگ کے بعد ڈاکٹر سٹرینج لو صدر سے سفارش کرتا ہے کہ تابکاری سے محفوظ گہری زیرزمین کانوں میں دس ایک کے تناسب سے خواتین اور مرد رکھے جائیں تا کہ وہ ایٹمی تباہی کے بعد زمین پر دوبارہ آبادی بڑھا سکیں ۔فاروقی صاحب کہہ  رہے تھے کہ ہم مرتے مر جائینگے لیکن اپنی ٹوٹی سڑکیں ،خستہ حال ہسپتال اور سکول اور دیگر انفراسٹرکچر دشمن کے ہاتھ نہیں لگنے دینگے ۔ہم بھی ایٹمی حملے کی صورت میں کنئیرڈ کالج لاہور کی دس دس لڑکیوں کے ساتھ جامعہ اشرفیہ کا ایک ایک مولوی رکھ دینگے تا کہ ایٹمی حملے کے بعد پاکستان کو ایک صالح اور خوبصورت نسل سے ریپوپولیٹ کیا جا سکے ۔

تابکاری سے چھٹکارے کے لئے تیس ہزار لیٹر آب زم زم بھی الگ سے محفوظ کیا گیا ہے ۔مجھے یقین تو نہیں آتا مگر فاروقی صاحب یہ بھی کہہ  رہے تھے کہ اٹھائیس مئی 1998 کو یوم تکبیر پہ پاکستانی پوکھران اور ایریا 51 چاغی کےلوگوں پر تکبیر بھی نہیں پڑھی گئی اور انھوں نے ہنسی خوشی اسلام کےقلعے کا دفاع ناقابل تسخیر بنانے کے لئے مختلف جسمانی ،ذہنی اور موروثی عوارض بشمول کینسر کا شکار ہونا قبول کر لیا اور آج چاغی تعلیم و ترقی میں لاہور کو شرماتا ہے ۔آج اگر ٹوٹی کمر والے دہشت گرد پاکستان کےلوگوں کو اندرونی دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں تو صوم و صلوة کے پابند پاکستانی سائنسدان عنقریب ایسا ایٹم بم بھی بنا لیں گے جو سویلین آبادی میں چھپے درندوں کو چھپ چھپ کر مارے ۔مسئلہ صرف شیعہ اور ہزارہ برادری لوگوں کا ہے کہ انھیں کس کیٹیگری میں رکھا جائے مگر امید ہے کہ اولڈ بوائز ہر مسئلے کیطرح اس مسئلہ کا حل بھی نیا مسئلہ کھڑا کر کے نکال لیں گے ۔بیشک حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے اور یہ حکمت پنڈی میں گم ہے ۔ کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق آج سائنسی ترقی کا آفاق ڈسکہ کے نواحی گاوں ریجائی کی پسماندگی اور غربت کے باوجود پاکستانی مومن سائنسدانوں میں گم ہے اور پاکستانی پانچ وقت اپنے اپنے فرقے کی مساجد میں سجدہ شکر بجا لاتے ہوئے پھولے نہیں سماتے اور پھر دوسرے فرقوں اور عقائد کی بجاتے ہیں ۔مرغن کھانوں سے پھولتے زیادہ ہیں اور ہیلدی لائف سٹائل سے سکڑتے کم ہیں ۔

میری جان ثریا ،تمھیں یہ جان کر خوشی ہو گی کہ تمھیں اور تمھاری آنیوالی نسلوں میں سے کسی کو بھی اب کسی بھی بیماری کی صورت میں ہسپتال جانے کی ضرورت نہیں پڑیگی ۔بس گوگل پر بسم اللہ پڑھ کر حتف ،غوری،غزنوی ،عنزہ اور ابدالی جیسے غیر ملکی جارحین کے ناموں والے میزائلوں کی تصویریں دیکھ لو ،ہر بیماری ہوا ہو جائیگی ۔ہر بیماری کی شدت کے حساب سے ریٹینا ایکسپوزر ٹائم کیلکولیٹ کیا جائیگا ۔انھی خوبصورت میزائلوں کی تصاویر سےپاکستان کے ان بھوکوں کا پیٹ بھی بھراجا سکے گا جو آج کل بحریہ ٹاؤن دسترخوان سے پیٹ بھرتے ہیں ۔اسی لئے حکومت فری وائی فائی مہیا کر رہی ہے اور موبائلز پہ درآمدی ٹیکس کم کر رہی ہے ۔پاکستان میں جہاں جہاں سڑکیں ،سکول ،کالج ،یونیورسٹیز ،پل اور ہر طرح کا انفراسٹکچر عمران خان کی جنسی زندگی کی طرح آخری سانسیں لے رہا ہے وہاں پر پاک کہوٹہ کی مٹی چھڑک کر اسے یورپ اور امریکہ کے ہم پلہ بنایا جائیگا۔

بریگیڈئیر فاروقی کے بقول جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایٹم بم اگر سوویت یونین کی حفاظت نہیں کر سکے پاکستان کی کیا کرینگے تو انھیں پتہ ہونا چاہیے کہ ایٹم بم بنانے کے بعد پاکستان دوبارہ نہیں ٹوٹا اور ملحد سوویت یونین پہ خدا کی لعنت اور اسلامی پاکستان پہ خدا کی رحمت ہے اور جب خدا کی رحمت یورینیم کے سلور ذرات سے اٹھکیلیاں کرتی ہے تو تقدس حفاظت کے حصار میں مزید پرنور ہو جاتا ہے ۔

کہیں پڑھا تھا کہ ویگا سٹار سسٹم کے سیارے ملاگا کے ایلینز اس وجہ سے زمین کے انسانوں کی ذہانت پر تحفظات کا شکار ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے ایٹمی ہتھیار ایک دوسرے پر ہی تان رکھے ہیں اور انسان خوراک کی تلاش میں بدن فروخت کرنے سے بھی نہیں چوکتے ۔خیر اگلی جمعرات کو چھٹی پہ آؤں گا تو تمھارے لئے کیو موبائل کا اینڈروائڈ فون بھی لاؤں گا ۔اگلے بونس پہ اپنے لئے بھی یہ فون لے لونگا اور پھر دونوں باپ بیٹی واٹس ایپ پہ ویڈیو چیٹ کیا کرینگے ۔اپنی دادی اور ماں کا خیال رکھنا اور چھت پہ زیادہ دیر کھڑی مت ہونا ۔ تمھارا باپ اشرف نذیر

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ پاک نیوز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply