افسانہ    ( صفحہ نمبر 4 )

غریبوں کا خواہش نامہ/مسلم انصاری

اب جس برس اُس نے بتایا کہ اُسے ٹھنڈے کمرے میں سونے کی خواہش ہے تب وہ جھونپڑی میں اپنی کانی بیوی اور اپاہج بیٹی کے ساتھ تھا۔ پھر ایک رات بس سے اُترتے ہوئے اُسی بس کے ٹائروں تلے←  مزید پڑھیے

آملیٹ/نور بدر

وہ ناشتے کے بعد برتن دھو کر باورچی خانہ سمیٹ رہی تھی جب کسی نے دھڑا دھڑ دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس نے تیزی سے ہاتھ صاف کیے اور باہر کو لپکی۔ اماں پڑوس کی خالہ صغریٰ کے ہاں گئی ہوئی تھیں←  مزید پڑھیے

لیٹر باکس/علی عبداللہ

وہ کب سے اس جگہ موجود تھا کوئی بھی نہیں جانتا یا شاید کسی کو یہ جاننے میں دلچسپی ہی نہیں تھی۔ البتہ یہ بات طے تھی کہ وہ علاقے کے لوگوں کے رازوں کا امین تھا۔ یہاں کے لوگ←  مزید پڑھیے

ادھورا خواب/علی عبداللہ

یہ ایک ویران اور وسیع و عریض ریگستان تھا۔ رات کا آخری پہر تھا اور چودھویں کا چاند سامنے افق پر ہمیشہ کی طرح ساحرانہ کیفیات لیے روشن تھا۔ چاند جب مکمل روشن ہو تو ستاروں کی جانب نگاہیں کم←  مزید پڑھیے

حبس کی پیدائش/مسلم انصاری

آبادی کے اُس حصے میں جہاں اس نے پرورش پائی تنگ گلیوں، گُھسے بندھے کمروں اور فربہ لوگوں کی بھیڑ رہی عمومی طور پر جب لوگ گھروں میں بھی ایک جگہ سے گزرتے تب بھی آتے جاتے ان کے اجسام←  مزید پڑھیے

بساند/تحریر: قراةالعین حیدر

اس بار بھی بارش نہیں ہوئی ۔۔۔ کرم دین نے اُڑتے ہوئے بادلوں کو دیکھ کے مایوسی سے آہ بھری۔ جانے یہ بارش کب ہوگی؟  کب اتنا مینہ برسے گا کہ اچھی فصل ہو اور پیٹ بھر اناج گھر میں←  مزید پڑھیے

سود مند/نور بدر

بلاشبہ وہ بہت مسحور کُن شخصیت کی مالک تھی، زندگی سے بھرپور۔۔۔جہاں جاتی ایک رونق سی آجاتی۔ دلوں کو گرما دینے کی طاقت تھی اس میں۔ اللّٰہ نے اسے خوبصورتی کے ساتھ ساتھ کشش سے بھی نوازا تھا اور پھر←  مزید پڑھیے

وِی وانٹ پیس/نور بدر

“Move on gentlemen and be careful” وہ اپنے کپتان کی رہنمائی میں احتیاط سے آگے بڑھ رہے تھے۔ ملک میں ہر طرف افراتفری اور انتشار کا عالم تھا۔ اعلانِ جنگ کے بعد پچھلے پانچ روز سے یہاں جھڑپیں جاری تھیں۔←  مزید پڑھیے

اجنبی چہروں کی دھول (افسانچہ)-ڈاکٹر حفیظ الحسن

ترکی کے شہر استنبول میں جمعے کی نماز کے بعد وہ سلطان احمت مسجد کے مرکزی دروازے سے سیڑھیاں اُترتے باہر نکلا۔ سامنے ٹرام چل رہی تھی۔ یہ ٹرام استبنول کے ایمینونو بِرج سے گزر کر آگے جاتی۔ ٹرام معمار←  مزید پڑھیے

اپسرا/نور بدر

ہیلو! فون اٹھاتے ہی اس نے خوشگوار لہجے میں کہا۔ ہیلو! دوسری جانب سے آواز آئی۔ ”کہو لڑکی کیا حال ہے؟“ ”اجی آپ کا ہی خیال ہے۔“ آج خوش دلی عروج پر تھی ”زہے نصیب، زہے نصیب جو قسمت کی←  مزید پڑھیے

دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا/نور بدر

”آپ شادی کیوں نہیں کر لیتیں؟“ میرے اس سوال پر اس نے مجھے دیکھا۔ (ہمیشہ کی طرح چہرے پہ گہری مسکراہٹ لیے ہوئے) اس کی آنکھوں میں نجانے کیا تھا جب بھی میری طرف اٹھتیں میرے اندر طلاطم سا برپا←  مزید پڑھیے

گمانِ محبت / محمد جمیل آصف(5)

کانفرنس ہال میں ملک بھر سے ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مندوبین موجود تھے ۔ صحافت کے ایوانوں سے جید صحافی، مختلف شہروں سے صنعت کاروں، کاروباری حضرات، وکلاء،  اور علما  کے ساتھ  مختلف قانون نافذ کرنے والے←  مزید پڑھیے

شام سے پہلے/شاہین کمال

میں نے عید کی چھٹیوں کے ساتھ اضافی چھٹیاں بھی لے لیں تھیں تاکہ اس بار گھر جا کر ابّا جان کا مفصل چیک اپ کروا سکوں۔ پچھلے ٹرپ پر ابّا جان مجھے نسبتاً زیادہ خاموش اور کمزور لگے تھے←  مزید پڑھیے

جہاد(افسانہ)-عامر حسینی

عصمت چپکے سے اپنی چارپائی سے اٹھا اور آہستگی کے ساتھ اس نے کمرے کی کنڈی کھولی ۔برآمدے میں بنی الماری سے ایک بیگ نکالا اور صحن پارکرکے وہ مرکزی دروازے کا گیٹ کھول کر گلی میں آگیا۔اس وقت رات←  مزید پڑھیے

جلن/ربیعہ سلیم مرزا

ہم نے جب اس بند گلی میں گھر لیا تو صفیہ پہلی پڑوسن تھی جو مجھے آکر ملی ۔اس کامکان چار گھر پیچھے بند گلی کا آخری گھر تھا ۔ پھر دوتین مہینوں میں پتہ ہی نہیں چلا کب وہ←  مزید پڑھیے

چڑیاں دا چنبہ/مسلم انصاری

باؤجی بڑے ڈھیر دن ہوئے بات نہیں ہو سکی سوچا خط لکھ لوں چھوٹا ویر بھی بات کرنا چاہتا تھا میں نے کہا آپ کو خط لکھتے ہیں تو کہنے لگا اللہ میاں کے پاس تو خط جاتے نہیں اور←  مزید پڑھیے

اے ماں ،اے میری مہربان ماں /خنساء سعید

رات کے اُس پہر سرما کی برفانی ہوا درختوں سے سیٹیاں بجاتی گزر رہی تھی، خزاں دیدہ درختوں کے پتے شاخوں سے جدا ہو کے رات کے یخ بستہ سناٹے میں اُڑتے پھر رہے تھے۔ دور کہیں بہت دور جھاڑیوں←  مزید پڑھیے

تباہ حال/شیرانی راجا پکسے/مترجم: خلیل الرحمان

اپنے دھیان میں مگن وہ سڑک پر چلی جا رہی تھی جب اسے اپنے سامنے ایک دھماکے کی آواز سنائی دی ۔دھماکے سے مضبوط حفاظتی باڑ ٹوٹ گئ اور اس کے ٹکڑے سارے میں پھیل گئے۔وہ وہیں ٹھہر گئ کیونکہ←  مزید پڑھیے

عشق خوباں خاکروبی/صادقہ نصیر

اُڑتی خاک کی بے رحمی کے بڑے انوکھےانداز ہوتے ہیں۔ آنکھ میں پڑ جاۓ تو ایسی رڑک ہوتی ہے کہ آنکھیں جلتا پانی بہانے لگ جاتی ہیں اور کبھی تو پورے بدن میں چبھن چھوڑ کر سب کچھ اُڑا لے←  مزید پڑھیے

گمانِ محبت(3)-جمیل آصف

دن بدن  بھڑکتے سیاسی آتش فشاں نے معاشرے کو اپنی تپش کی لپیٹ میں لیا ہوا تھا ۔ہر شخص کا سیاسی شعور اپنے من پسند راہنما کے دفاع کے لئے تاویلات گھڑتا، مختلف مباحث اور محافل میں دفاع کے لیے←  مزید پڑھیے