گمانِ محبت / محمد جمیل آصف(5)

کانفرنس ہال میں ملک بھر سے ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مندوبین موجود تھے ۔ صحافت کے ایوانوں سے جید صحافی، مختلف شہروں سے صنعت کاروں، کاروباری حضرات، وکلاء،  اور علما  کے ساتھ  مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ  اہلکار بھی شامل تھے ۔

ملک میں بڑھتی بے چینی، بدگمانیوں، نفرتوں، مختلف شعبہ جات  میں تفریق اور سماجی رشتوں کے مابین پیدا ہوتا نظریاتی بالخصوص سیاسی تناؤ جس کی بناء پر معاشرہ کے درمیان  نمایاں ہوتی وسیع خلیج سے پیدا ہوتی صورتحال اور اس کے ملک پر پڑتے معاشی اثرات جو ہر خاص و عام  افراد تک کو غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا کر رہے تھے ۔موضوع گفتگو تھا ۔

چونکہ اس بدلتی لہر میں جو بالخصوص ایک عشرے سے نوجوان طبقے کے اذہان کو متاثر کر رہی  تھی مختلف یونیورسٹیوں کے طلباء و طالبات کو بھی مدعو کیا ہُوا تھا ۔خطاب، عادل احمد اور  اریج کے ساتھ ان کی یونیورسٹی کے دیگر ساتھی بھی وہاں بطور سامع موجود تھے ۔

آج کا موضوع اس ساری ملکی معاشی و سیاسی ہل چل میں  سوشل میڈیا کے کردار پر بحث تھی ۔جس پر ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے  افراد کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی تھی  ۔
“کسی دور میں جنگیں عددی کثرت اور طاقت کے ساتھ لڑی جاتی تھیں ۔پھر اس کے بعد مضبوط نظریات کی بنیاد پر،  وقت بدلا تسخیر کے لیے جدید سامان حرب اور بہترین تربیت سے کم تعداد میں بڑے دشمن کو تسخیر کیا جانے لگا ۔”

سیمینار میں موجود ہر فرد سابق دفاعی ماہر جنرل ( ر) احتشام الحق کے الفاظ کے ساتھ گویا بندھا ہوا تھا ۔

“وقت بدلا، سیاست اور عسکریت کے تقاضے بھی بدلنے لگے پروپیگنڈہ ہر لڑائی کا لازمی جزو ٹھہرا اور بطور نصاب شامل ہوا۔اب لڑائی نفسیاتی پہلوؤں سے لڑی جانے لگی ۔جس کے لیے مختلف انداز ضرب و حرب اختیار کیے جانے لگے  ۔پرنٹ میڈیا سے الیکٹرک میڈیا کا استعمال ہونے لگا”
جنرل (ر) احتشام الحق نے اپنی تقریر کو جاری رکھا ہال میں مکمل خاموشی طاری تھی ۔

” ان تمام پروپیگنڈہ ٹولز کے اثرات محدود تھے اسی وجہ سے معاشرے میں بہت حد تک استحکام پایا جاتا تھا ۔مس انفارمیشن بہت کم  لوگوں کو متاثر کرتی تھی ۔ لیکن پھر ٹیکنالوجی کا ایسا دور آیا جس میں ہر فرد کے ہاتھ میں پوری دنیا سمیٹ کر آ گئی۔ ”
جنرل (ر) احتشام الحق سامعین پر نظر ڈالے ان سے سوال کرنے لگے ۔
” مجھے بتائیں وہ کیا چیز تھی  جس نے معاشرے پر سب سے زیادہ اثر ڈالا؟ ”
سامعین یک زبان ہوئے
” “موبائل فون ”
ایک مسکراہٹ لبوں پر دوڑی اور مائیک سے  ٹھنڈی آہ نکلی ۔
“جی آپ نے درست کہا”

پانی پینے کے لیے کچھ دیر رکے ۔ہال میں بیٹھے تمام افراد پر نظر ڈالی ۔اور پھر گفتگو کے سلسلے کو دوبارہ  شروع کیا ۔

“اس کے ذریعے سوشل میڈیا نے دنیا ہی بدل دی۔   رائے عامہ کو بدلنے اور مہذب معاشرے میں اپنے نظریات کی ترویج کے لیے بیشتر سیاسی و مذہبی جماعتوں اور بیرونی حریف ممالک  نے اس کا بھرپور استعمال کیا ۔اور دیکھا جائے تو ہماری اصل معاشرتی بگاڑ کی وجہ  بھی یہی سوشل میڈیا ہے ۔”
اور نوجوانوں کی طرف دیکھا اور گویا ہوئے
“میری قوم کے معماروں آج جو تمھارے اندر مایوسی، تلخی، تناؤ کا سبب جو چیز ہے وہ یہی ہے ۔میں تو کہتا ہوں ہمارے معاشرے میں جو سیاسی  و مذہبی اور معاشرتی بگاڑ پیدا ہوا ہے اس کا سبب یہی ہے میں تو اسے شیطان کہتا ہوں ۔”
غلط معلومات، جعلی خبروں اور بلا تحقیق اس پر یقین کر کے کسی شخص، گروہ، ادارے، خطے اور ملک کے بارے رائے قائم کر کے   پھر عوام الناس کا اس پر منفی ردعمل دینا جس سے معاشرے میں تناؤ اور انتشار کی کیفیت کسی حد تک باغیانہ ماحول بن رہا تھا ۔

اس کے بُرے اثرات سے  معاشرے کو محفوظ کرنا اس وقت یہی سب سے بڑا چیلنج قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تھا ۔
سیمینار میں اس پہلو پر مذہبی اور اخلاقی ہدایات کی روشنی پر آگاہی کے  لیے علامہ امین فاروقی قرآن مجید کی سورہ حجرات کو موضوع گفتگو بنائے ہوئے تھے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply