• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ:اُمّ ناجی:ایک پہلو یہ بھی ہے تصویر کا۔۔۔ شام امن سے جنگ تک/سلمیٰ اعوان۔قسط34

سفر نامہ:اُمّ ناجی:ایک پہلو یہ بھی ہے تصویر کا۔۔۔ شام امن سے جنگ تک/سلمیٰ اعوان۔قسط34

اُمّ ناجی ہوں میں۔اپنے اکلوتے بیٹے ناجی کی ماں،حلب جانے والی مرکزی شاہراہ پر ال نبکAl-Nabk نامی شہر سے میرا تعلق ہے۔تین بے حد خوبصورت اور پیارے بچوں کی ماں۔ بچوں میں سب سے بڑی بلقیس ہے جو دمشق یونیورسٹی میں آرکیٹیکٹ(علم فن تعمیر) کی طالبہ ہے۔اس کے بعد ناجی جو ہائی سکول میں پڑھ رہا ہے۔سحر سب سے چھوٹی ہے۔کنڈر گارٹن میں جاتی ہے۔ میں نے اقتصادیات (اکنامکس) کی تعلیم حاصل کی لیکن کبھی ملازمت نہیں کی۔
میں نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے خود کو وقف کردیا۔میں چاہتی تھی کہ وہ موسیقی اور شاعری سیکھیں۔سکول میں اچھی کارکردگی دکھائیں۔اپنے ملک کے لیے اچھے اور قابلِ فخر شہری بنیں۔ لیکن جب شام میں بحران پیدا ہوا(پھیلا) تو میرے لیے ذاتی مفاد کی بجائے قومی مفاد زیادہ اہم ہوگیا۔
درعاکے واقعے پر مجھے شدید افسوس تھا۔بچوں کو اپنی تعلیم پر توجہ دینا زیادہ اہم ہے۔الٹی پلٹی سرگرمیوں پر والدین کو انہیں سمجھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔درعا کی دیکھا دیکھی چھوٹے شہروں میں بھی یہ وبا پھیلنے لگی تھی۔
آواخر اپریل 2011میں میرے گھر کے قریب کچھ احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ لیکن جیسے ہی فوج کی گاڑیاں نظر آتیں ہر کوئی بھاگ جاتا۔مجھے ہنسی آتی کہ بھئی اب بھاگتے کیوں ہو؟کھڑے رہو۔ جو کررہے ہو کرتے جاؤ۔پھر میں نے گلیوں میں لوگوں کو احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے پوچھا۔
”آپ احتجاج کیوں کررہے ہیں؟شام ایک محفوظ اور صحیح سلامت ملک ہے۔“
وہ میرے ساتھ بحث مباحثے اور لڑائی جھگڑے پر اُتر آتے۔میں جتنی چاہے تاویلیں اور دلائل دیتی وہ گاجر مولی کی طرح انہیں کاٹ دیتے۔تاہم کچھ باتوں میں وہ بھی حق بجانب تھے۔
مجھے تو اپنی خالہ اور اپنے کئی دوستوں کو ان احتجاجی مظاہروں کی حمایت کرتے ہوئے دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ اُن کا شمار حکومت کے مراعات یافتہ لوگوں میں ہوتا تھا۔میں انہیں کہتی۔
”آپ دمشق کو تباہ کررہے ہیں۔“
لیکن جیسے انہوں نے اپنے کان بند کرلیے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں خاموش رہوں۔

میں یعنی اُمّ ناجی اس بات پر یقین رکھتی تھی کہ مظاہرین کی اس تحریک میں آزادی کی سچی تڑپ کی بجائے”ذاتی مفادات“تھے۔
ایف ایس اے(فری سیرئین آرمی) نے علاقہ کو تقریباًایک سال تک کنٹرول میں رکھا میری کبھی کبھی آتے جاتے اُن سے تکرار ہوجاتی کہ وہ لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں۔انہیں جھوٹے خواب دکھا رہے ہیں۔
کچھ عرصہ انہوں نے مجھے برداشت کیا۔پھر مجھے دھمکی دینے لگے کہ اگر میں نے حکومتی فوج کی حمایت ترک نہ کی اور اپنے گھر کی چھت سے شام کا قومی پرچم نہ ہٹایا تو وہ مجھے قتل کردیں گے اور میرے بیٹے ناجی کو اغوا کرلیں گے۔“
میں اُن کی دھمکیوں سے کبھی متاثر نہ ہوئی۔شام کا پرچم میرے گھر کی چھت پر لہراتا رہا کہ وہ میرے لیے ایک مقدس علامت کی مانند تھا۔اُس کے لہرانے میں میری چاہتیں اور محبتیں تھیں۔
وہ لوگوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر دھمکا تے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس تحریک (آزادی)سے پہلے ہم سب لوگ حتیٰ کہ متوسط اور نچلے متوسط گھرانے بھی اچھی زندگی گزار رہے تھے۔وہ چھٹیاں گزارنے کہیں بھی اِدھر اُدھر جاسکتے تھے۔ اچھا کھاتے پیتے اور ادویات خرید سکتے تھے۔

وہ لوگ جو مظاہرے کررہے تھے۔ انہیں رشوت دی گئی کاروبار اور حکومتی عہدوں کی۔ لوگوں کو ان کے بھائیوں کو مارنے کے لیے اور ہتھیار خریدنے کے لیے رقوم ادا کی گئیں۔ مظاہرین کو یہ کہہ کر سبز باغ دکھائے گئے اور وعدے کیے گئے کہ ایک نئی حکومت میں انہیں وزراتی،سفارتی ذمہ داریوں پر متمکن کیا جائے گا۔
وہ لوگ جنہوں نے مظاہرے کیے اور دعویٰ کیا کہ وہ آزادی کے خواہش مند ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ان کے ذاتی مفاد تھے نا کہ ایک قومی مقصد پیش نظر تھا۔وہ ان اولین لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے خاندان والوں کو پہلے باہربھیجا تھا۔بعد میں وہ احتجاجوں میں شریک ہوئے۔

فری سیرین آرمی نے جس قدر دھاندلیاں کیں ان کا کوئی شمار ہی نہیں۔حکومت نے لوگوں کو بنیادی خوراک کے لیے کوپن دئیے جنہیں ایف ایس اے نے اپنے لیے چھین لیا۔ ان کے راہنما دمشق کی جانب جانے والے اشیاء سے بھرے ٹرکوں کو اغوا کرکے امیر بن گئے تھے۔
ایف ایس اے (فری سیرین آرمی) (الجیش السوری الحر) نے ایسے بہت سے کام کیے جس کی وجہ سے لوگ ان سے نفرت کرنے لگے۔ ان کے پاس ہر چیز تھی۔ ہتھیار،کاریں،پراڈو،پجاروں، کوئی بھی گھر جو وہ چاہتے اس پر قبضہ کرنا ان کے لیے بس کھیل تماشے جیسا ہی تھا۔

لاکھ میں دلیر تھی۔۔حوصلہ مند تھی مگر ماں تھی۔ جب اردگرد تڑتڑ بندوقیں چلتیں اور ہمیشہ چلتی رہتیں۔ ایسے میں اگر ایف ایس اے والوں کو سرکاری ملازم کام پر جاتا ملتا تو وہ اُسے گھر واپس چلے جانے اور نوکری چھوڑ دینے پر مجبور کرتے پل بھر کے لیے بھی نہ سوچتے کہ اس کی تنخواہ ہی اس کے خاندان کا واحد ذریعہ آمدن ہے۔میری بیٹی کے لئیے دمشق میں اس کے کالج جانا مشکل ہوگیا تھا۔میرا خاوند اغوا کیے جانے کے خوف میں مبتلا رہتا۔ تاوان کی رقم 20ملین شامی پاؤنڈ سے کم نہ تھی۔

میرے دائیں بائیں دونوں طرف کے ہمسائے جو ایف ایس اے کی حمایت کرتے تھے وہ ہمیں یہ کہنا شروع ہوگئے کہ ہم انقلاب اور شام کے باغی ہیں۔ایف ایس اے والے اپنے حمایتیوں کو خوراک اور پیسہ دے رہے تھے اور اُن خاندانوں کو بے گھر کررہے تھے جو اُن سے اختلاف رکھتے تھے۔وہاں ہمارے پڑوس میں ایسے لوگ بھی تھے جو بھوک سے مررہے تھے۔ لیکن ایف ایس اے والے ان کی کوئی مدد نہ کرتے کیونکہ ان لوگوں نے حکومت کی حمایت کی تھی۔
میرے وہ رشتہ دار جو امریکہ اور یورپ میں رہتے تھے انہوں نے مجھے ملک چھوڑ دینے کا کہا۔میں نے کہا۔
”ارے کیوں چھوڑوں۔میرا تو مرنا جینا بس اسی کے ساتھ ہے۔“
میرا پختہ ایمان ہے کہ آدمی کی عزت اس کے اپنے ملک میں ہی ہوتی ہے۔

نومبر 2013میں حکومتی فوج (نابک)کے علاقے میں داخل ہوگئی۔وہاں گھمسان کی جنگ اور فائرنگ ایک ماہ سے زیادہ عرصے تک جاری رہی۔ہم نے تہہ خانے میں قیام کیا اور اپنا کھانا اپنے ہمسایوں کے ساتھ بانٹا۔جب شام کی فوج نے ناباک کو آزاد کرایا میں گلیوں میں گئی اور شامی پرچم کو مین سکوائر میں بلند کرنے میں مدد دی۔

یہ ایک انقلاب نہیں ہے۔یہ ڈراؤنا خواب ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پانچ سالوں میں ہمیں ہمارا شام واپس مل جائے گا۔ یہ تمام لوگ جو شام میں جہاد کرنے آئے کیا وہ مجھے یہ وضاحت دے سکتے ہیں کہ کس چیز کا جہاد؟ صدر بشار ایک ڈاکٹر ہے۔ پروقار شخصیت کا مالک ہے جس نے اپنے ملک کی حفاظت کی۔اس نے بڑی مستقل مزاجی سے کام لیا ہے اور کبھی بھی متزلزل نہیں ہوا۔

شام آج پچھلے تین سالوں سے کہیں بہتر ہے۔ تمام پناہ گزینوں نے شام چھوڑ دیا کیونکہ وہ فوج کو مطلوب تھے۔شام کی فوج نے کئی بار انہیں واپس آنے کی اور ریڈ کریسنٹ کے ساتھ تعاون کی پیش کش کی۔ لیکن انہوں نے انکار کردیا۔

جیسے جیسے فوج مزید علاقے آزاد کراتی جاتی ہے امن و سلامتی بہتر ہوتی جاتی ہے۔دمشق میں میری بیٹی اب یونیورسٹی بحفاظت جاتی ہے۔ہر چیز دستیاب ہے۔بجلی،پانی، روٹی اور پھل۔ہاں مہنگائی بہت زیادہ ہے لیکن امن تو ہے نا۔ کیا کوئی چیز امن سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔نہیں کوئی نہیں۔صدر بشار ہی وہ واحد شخص ہے جو شام کو تہذیب کی سرزمین کے طور پر محفوظ رکھ سکتا ہے۔جب حزبِ مخالف قابو میں نہیں تھی تو ہر طرف چوری،عصمت دری، گردنیں کاٹنا اور لوٹ مار تھی۔لیکن جب (نابک)کو ریاست نے آزاد کرایا تو لوگ شہر کو دوبارہ آباد کرنے کے لیے پھول اُگانے اور زیتون کے درخت لگانے کے لیے واپس لوٹ آئے۔میں نے رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہوئے سکولوں اور سڑکوں کی از سرِ نو تعمیر کا کام شروع کردیا۔اب میرے پاس 150 خاندانوں سے زیادہ کفالت کے لیے موجود ہیں۔ہم ریڈ کریسنٹ کے تعاون سے اپنے ضلع میں موجود ضرورت مند لوگوں کو خوراک کی ٹوکریاں پیش کررہے ہیں۔

میرا یہی ایمان ہے کہ شام دنیا کے سامنے بطور نمونہ واپس (صحیح حالت میں)آجائے گا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرا یہ ایمان اور زیادہ مضبوط ہوتا جارہا ہے۔

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply