خدا کا شکر ہے ہم اسٹیٹ ایجنٹ ہیں/اعظم معراج

یہ مضمون اقتباس ہے”  اعظم معراج کی کتاب پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار” ( مجموعہ کتب)میں سے ۔

اس وقت تک کوئی پروفیشنل اپنی فیلڈ میں کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے اس بات پر مطمئن نہ ہو کہ وہ جس پیشے سے منسلک ہے، وہ ایک عزت دارانہ پیشہ ہے۔ ہم اپنے معاشرے کا ایک سرسری جائزہ لیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم بہت قابل احترام پیشے سے منسلک ہیں۔ ہم نہ تو مسیحا ہونے کے دعویدار ہیں نہ انسانی خدمت کرنے کا ڈھونگ رچائے ہوئے ہیں بلکہ زندگی کی ایک بنیادی ضرورت پوری کرنے میں معاشرے کے دوسرے افراد کی مدد کرتے ہیں۔ صدیوں سے ہر انسان کی یہ خواہش چلی آ رہی  ہے کہ اس کے سر پر اپنے گھر کی چھت ہو۔ ہم اس اہم ضرورت کو پوری کرنے میں معاشرے کے دوسرے افراد کی مدد کرتے ہیں۔ ہمیں اس پر فخر ہے کہ ہم اپنا کام بخوبی کرتے ہیں اور کسی کام کی آڑ میں کمیشن نہیں لیتے بلکہ اپنے کلائنٹ کو بتاتے ہیں کہ ہم اپنی ان خدمات کے عوض آپ سے یہ کمیشن یعنی اپنی پیشہ ورانہ فیس لیں گے۔ جدید دور کی زندگی میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ بات اہم نہیں کہ کون کیا کرتا ہے بلکہ یہ بات اہم ہے کہ جو کام بھی کریں، اسے پیشہ ورانہ مہارت ایمانداری سے انجام دیں۔ ہم نہ تو لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے والے ہیں کہ کسی کی فائل دبادی اور اس سے پیسے لے لیے اور نہ ہی ہم ملک اور قوم کو کسی قسم کا نقصان پہنچا کر کمیشن لیتے ہیں اور نہ ہی ملک اور قوم کی خدمت کرنے کا ڈھونگ رچا کر اربوں روپے بناتے ہیں۔ ہمیں یہ بات بتاتے ہوئے کبھی نہیں شرمانا چاہیے کہ ہم اسٹیٹ ایجنٹ ہیں کیوں کہ ہم کسی بھی لحاظ سے دوسرے خدمات بیچنے والے پروفیشنل سے کم نہیں۔

ہماری مہارت کا ثبوت یہ ہے کہ بڑے بڑے آرکیٹیکٹ ہماری پسند کی ہوئی لوکیشن پر مکان بناتے ہیں اور مالیاتی اداروں کے بڑے عہدیدار ہمارے بتائے ہوئے منصوبوں کے مطابق سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ رہ گیا اخلاقی پہلو تو شرمانہ ان کو چاہیے جو اعلیٰ اختیارات رکھتے ہوئے بھی اپنے فرائض سے انصاف نہیں کرتے اور ذاتی مفاد بھی حاصل کرتے ہیں۔ یا شرمانا ان کو چاہیے جو انگریز کے چھوڑے ہوئے گریڈ سسٹم میں اکڑتے ہیں اور بجائے ملک اور قوم کی خدمت کرنے کے اختیارات کو ناجائز طور پر استعمال کرتے ہیں اور اپنے آپ کو بڑا اعلیٰ و ارفع تصور کرتے ہیں۔ یا شرمانا ان کو چاہیے جو ہماری جائز فیس یعنی کمیشن مارجاتے ہیں اور لفظ کمیشن کو بدنام کررہے ہیں۔ ہم تو بڑے فخر سے اپنے مؤکل (Client)کو یہ بتاتے ہیں کہ ان خدمات کے عوض ہم آپ سے یہ کمیشن لیں گے اور یہ کسی طرح غیر اخلاقی یا غیر قانونی کام نہیں ہے۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی پیشہ ورانہ مہارت کو بڑھائیں یہ کہ اس سروس انڈسٹر

ی کی اہمیت کو منواسکیں۔ بڑی گھسی پٹی بات ہے کہ فلاں ملک میں اس پیشے سے منسلک افراد معاشرے میں بڑے عزت دار ہیں اور ہمارے معاشرے میں اتنے عزت دار نہیں ہیں۔

بس ہمیں اس بات کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم ایک عزت دار پیشہ سے منسلک ہیں۔ جب ہم اپنی فنی مہارت کو بہت بڑھا لیں گے تو پھر ہم پاکستانی معاشرے میں بھی اس حقیقت کو تسلیم کرالیں گے کہ یہ ایک بہت قابل احترام پیشہ ہے۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم اسٹیٹ ایجنٹ ہیں، امریکی یا روسی ایجنٹ نہیں۔ (گوکہ جس اسپیڈ سے ڈالر بڑھ رہا ہے تو زیادہ فائدہ امریکی ایجنٹ ہونے میں ہی ہے)

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے ۔ وہ تحریک شناخت کے بانی اور بیس کتب کے مصنف ہیں ۔ جن میں سے پانچ رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے متعلق ہیں ۔جن میں نمایاں” پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار (مجعوعہ کتب)ہے ۔دیگر پندرہ اس فکری تحریک کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے لکھی گئی ہیں ۔ جن میں دھرتی جائے کیوں پرائے، شان سبزو سفید کئی خط اک متن, شناخت نامہ نمایاں ہیں۔

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply