جس تندہی اور سرعت کے ساتھ سپریم کورٹ فوجی عدالتوں کے خلاف مقدمہ سن رہی ہے اسی طرح اگر ہر مقدمہ سنتی ہوتی تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آج نہ تو فوجی عدالتوں کی نوبت آتی اور نہ ہی سپریم کورٹ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خدشے کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے اندر شہریوں سے غیرمساویانہ برتاؤ پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا۔
میرا سپریم کورٹ سے سوال ہے کہ جس طرح سے یہ مقدمہ عام شہریوں کے نام پرایمرجنسی میں لگایا گیا کیا عام شہریوں کے ساتھ ان کے مقدموں میں بھی ایسا ہی برتاؤ ہوتا ہے ؟ کیا ان کے مقدمے بھی اسی طرح ایک درخواست پر لگا دئے جاتے ہیں ۔ کیاان کو بھی چیف جسٹس سے بالمشافہ ملنے کی اسی طرح اجازت ہوتی ہے ؟اگر نہیں تو کیا یہ شہریوں کے حقووق کی خلاف ورزی کی بات نہیں ؟ کیا یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں ؟ کیا یہ انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی نہیں ؟ کیا یہ آئینی حلف کی خلاف ورزی نہیں ؟
کیا جو کچھ جناب قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے اس کو اس عدالت کی رائے کا درجہ حاصل نہیں ؟ کیا چیف جسٹس کے انتظامی اختیارات کسی جج کو اس کی عدالتی رائے کے بعد بنچ سے علیحدہ کرنے کے مجاز ہیں ؟ کیا کسی جج کے رائے آجانے کے بعد اس کو دبایا جاسکتا ہے ، چھپایا جاسکتا ہے ؟ جج کے رپورٹ کرنے کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ویب سائیٹ پر جاری کرنے کے بعدوہاں سے ہٹایا جاسکتا ہے ؟ کیاکسی جج کی عدالتی رائے مقدمے کی کاروائی کوبنچ کی اجازت کے بغیر حدف کیا جاسکتا ہے ؟
میرا سوال ہے کہ اعتزاز احسن جو خود فوجی عدالتوں بارے ترمیم کے وقت سینٹ میں قائد حزب اختلا ف تھےاور اس قانون کو تحفظ فراہم کرتے رہے وہ اس کو آج چیلنج کرنے کا اخلاقی جواز رکھتے ہیں؟کیا سابقہ وزیراعظم جو اب اپنے خلاف مقدمہ ہونے پر فوجی عدالتوں کو چیلنج کر رہے ہیں جب ان کے دور میں سویلینز کو سزائیں ہوتی رہیں اور وہ خاموش رہے ۔ جن لوگوں کو ان کے ادوار میں ان کی مرضی سے بنائی گئی فوجی عدالتوں سے سزا ہوئی وہ اس کے ذمہ دار نہیں ؟ کیا آج وہ عدالت میں صاف دامن لے کر آئے ہیں ۔ کیا ان کے دور میں سزائیں ہونے کے باوجود وہ فوجی عدالتوں کو چیلنج کرنے کا اخلاقی اور قانونی جواز رکھتے ہیں ؟
تعجب ہوتا ہے جب سابق وزیر اعظم انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی بات کرتے ہیں اور مثالیں دیتے ہیں اپنے علم اور تجربے کی اور پھر انہی نا انصافیوں کے ارتکاب کے بعد وہی حق مانگتے ہیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں