آ مجھے کاٹ

آ مجھے کاٹ
حسام دُرانی
چند محلہ دار دوستوں نے ورزش کرنے کا ایک بہانہ یہ بنایا کے ہم رات کے کھانے کے بعد کم و بیش 2 گھنٹے اپنے جسم کو ہلایا کریں گے اور قرعہ بیڈمنٹن کے نام نکلا۔
لیکن اس کے لیے کچھ قواعد و ضوابط بھی طے کیے گئے ،کے مذہب اور سیاست کے علاوہ دنیا کے ہر موضوع پر گفتگو کی جائے گی، اپنے بچوں کا حال اور اپنی روزمرہ زندگی پر گفتگو کی جاۓ تاکہ اگر کسی بھائی کو کوئی مسئلہ درپیش ہے تو اسکا مداوا کیا جا سکے، یا کم از کم اسکا بار ہلکا کیا جاۓ اور یہ تمام باتیں کھیل کے دوران ہی کی جائیں گی، فارغ بیٹھ کر نہیں، کیونکہ ہم پریشانیاں کم کر نا چاہتے ہیں، بڑھانا نہیں۔
لیکن ہم ٹھہرے ذہنی غلام اپنی اپنی پسندیدہ سیاسی اور مذہبی شخصیات کے، اس لیے جب بھی موقعہ ملتا ہے فوراََ اپنے خیالات کی تسبیح شروع کر دیتے ہیں۔ بالکل ایسا ہی واقعہ پرسوں رات کو پیش آیا۔
ہمارے ایک انتہائی جذباتی اور شعلہ بیان مقرر دوست جو کہ موجودہ حکومت کے سخت ناقدین میں سے ایک ہیں اور تمام تر محبتیں کپتان کے ساتھ ہیں، کی آمد ہوئی ان کو جہاں بھی دو بندے نظر آ جائیں فوراََ حکومت کے خلاف بیان اور دشنام طرازی شروع ہوجاتی ہے۔
آئے اور آتے ہی چھا گئے اور وہی ہوا ،مطلب آدھے ایک طرف اور آدھے دوسری طرف۔
احقر جسکو کے انہی دوست نے پڑھے لکھے پٹواری کا خطاب دے رکھا ہے ،نے پوری کوشش کی کے بات اور ماحول بدلا جاۓ مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ اور محفل اسی طرح گرم رہی۔
جب دونوں طرف کی توپیں تھک کر ٹھنڈی ہوئیں، کانوں کو کچھ سکون اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں واپس آئیں تو میرے منہ سے صرف اتنا نکلا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

” تو مجھے کاٹ میں تجھے کاٹوں “اور دونوں
” مر جائیں۔”

Facebook Comments

حسام دُرانی
A Frozen Flame

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply