ہونٹوں سے مے پلائی گئی اور آخ تھو/ڈاکٹر مجاہد مرزا

مثل برگ آوارہ سے 

 

 

 

گرودنو یا گرودنا ایک بڑا قصبہ یا چھوٹا شہر ہے جو پولینڈ کی سرحد کے نزدیک واقع ہے، ایک زمانے میں یہ پولینڈ کا ہی حصہ ہوا کرتا تھا تاہم اس شہر کا تاریخ جغرافیہ تو معلومات عامہ کے وسائل سے جانا جا سکتا ہے البتہ میرے مشاہدات و تجربات کا تعلق چونکہ اس شہر کے ساتھ بھی ہے اس لیے اس کا محل وقوع بتا دینا کافی ہے۔ گرودنو یا گرودنا، روسی زبان میں کسی لفظ کے آخر میں آنے والے حرف “او” کو پڑھا “او” ہی جاتا ہے لیکن بولا جاتا ہے “آ”، پہنچتے ہی احمق نما ساشا جسکی آنکھیں دھنسی ہوئیں تھیں اور ایسی آنکھوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مجرمانہ ذہنیت کی عکاس ہوتی ہیں، مجھے سیدھا ایک چھوٹی سی کارگاہ میں لے گیا تھا جہاں ملبوس سیے جاتے تھے، اس کارگاہ کو ساشا نے مجھ سے لیا ہوا کپڑا دیا تھا۔ اس کارگاہ کی مالک تیس بتیس برس کی طرار خاتون لینا تھی جو دیکھنے میں لڑکی لگتی تھی۔ اس کے چہرے پر سب سے دلکش اس کی بڑی، گہری آسمانی اور اداس آنکھیں تھیں۔ میری تو جیسے ان میں ڈبکی لگ گئی تھی مگر میں جلد ہی ان جھیلوں سے باہر آ کر عام دنیا کی باتیں کرنے لگا تھا۔ لینا نے اپنی کاریگری اور انتظامی صلاحیت سے متعلق بتایا تھا اور میں نے وعدہ کیا تھا کہ جب بھی اسے کپڑا درکار ہوگا میں ساشا کے توسط سے بھیج دیا کروں گا۔ لینا سے پھر ملنے کا وعدہ کرکے ساشا اپنی گاڑی میں مجھے شہر دکھاتا رہا تھا۔ اس شہر میں ایک میڈیکل انسٹیٹیوٹ بھی تھا۔ مجھے بہت بعد میں پتہ چلا تھا کہ اس انسٹیٹیوٹ میں میرے آبائی قصبے کی دو لڑکیاں بھی طالبات تھیں۔

گھوم گھام کر اس ہوٹل میں آ گئے تھے جہاں ساشا رہائش پذیر تھا، ظاہر ہے میرے لیے بھی اس ہوٹل میں کمرہ بک تھا۔ کمرے میں جا کر تھوری ہی دیر بعد ہم کھانا کھانے کے لیے ہوٹل کے اندر موجود ریستوران میں جا بیٹھے تھے۔ کھانا کھانے کے بعد ڈرائیور میشا کل آنے کا وعدہ کرکے اسی شہر میں اپنے گھر چلا گیا تھا۔ ساشا اور میں کچھ دیر بیٹھے رہے تھے پھر کمروں میں جانے سے پہلے شام سات بجے نیچے ہال میں ملنے کا طے کر لیا تھا۔

شام سات بجے ہال میں ملے تو ریستوران میں “ایوننگ شو” جاری تھا۔ چکنے بے داغ نیم برہنہ جسموں والی جوان بیلا روسی لڑکیاں سٹیج پر ناچ رہی تھیں۔ ریستواران لوگوں سے بھرا ہوا تھا جو شراب لنڈھا رہے تھے اور زندگی کا لطف لے رہے تھے۔ میں اور ساشا شو دیکھتے رہے اور کھانا کمرے میں پہنچا دینے کی فرمائش کر دی تھی۔ اس کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ دوپہر کا کھانا تاخیر سے کھایا تھا، پھر ویسے بھی کچھ نہ کچھ چرتے رہے تھے چنانچہ بھوک نہیں لگ رہی تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ساشا نے شرماتے ہوئے، اپنی کمینی اور خفیہ نوع کی مسکان مسکراتے ہوئے مجھے بتایا تھا کہ ساڑھے آٹھ بجے میں نے ایک لڑکی کو آپ کے کمرے میں آنے کا کہا ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ اس بی بی کے ساتھ تو پینی پڑے گی چنانچہ کھانا بعد میں ہی کھائیں گے۔ ناچنے والی لڑکیوں کو دیکھ کر میرا تاثر بن گیا تھا کہ روسی لڑکیوں کے جسموں پر تل یا مسے ہوتے ہیں لیکن بیلا روس کی لڑکیوں کے جسم بے داغ ہیں۔ اس کی تصدیق تو آنے والی لڑکی کے جسم سے ہی ہونی تھی۔

ساڑھے آٹھ بجنے سے پہلے ہی ہم ریستوران سے نکل آئے تھے۔ ہال میں ایک طناز لڑکی منتظر تھی۔ ساشا نے اس کے ساتھ مجھے متعارف کرایا تھا اور کہا تھا کہ آپ اس کے ساتھ اپنے کمرے میں چلیں، میں کچھ نٹس وغیرہ لے کر پہنچتا ہوں۔ لڑکی کا نام اتنا عرصہ گذرنے کے بعد مجھے یاد نہیں رہا لیکن یہ یاد ہے کہ لڑکی خوبصورت اور سمارٹ تھی۔ ہم دونوں کمرے میں پہنچ گئے تھے۔ بیٹھ کر باتیں کرنے لگے تھے۔ لڑکی نے بتایا تھا کہ وہ میڈیکل کی طالبہ ہے۔ اخراجات پورے نہیں ہوتے اس لیے کبھی کبھار۔ ۔ ۔ ۔ مجھے اچھا نہیں لگا تھا کہ وہ پیشہ ور لڑکی تھی۔ اتنے میں دروازہ کھٹکا تھا، بیرا چمکدار سفید بالٹی میں رکھے برف کے ٹکڑوں میں دبی شیمپین کی بوتل، جس کے دہانے کے قریب نیپکن لپٹا ہوا تھا، لیے کھڑا تھا۔ ساتھ میں ایک ٹرے میں کچھ پھل وغیرہ بھی تھے یعنی ساشا جانے سے پہلے اکل و شرب کا انتظام کرتا گیا تھا۔ کمرے میں داخل ہو کر چیزیں اپنے ہاتھ سے رکھنے کے بعد بیرے نے اجازت لے کر ہلکی سی “ٹک” کی آواز کے ساتھ دہانے سے گیس چھوڑتی ہوئی شیمپین کی بوتل کا ڈاٹ علیحدہ کیا تھا اور بڑی نفاست اور مہارت سے ہم دونوں کے لیے فنجانوں میں شیمپین انڈیل کر چلا گیا تھا۔ اتنے میں ساشا بھی خشک میوے کے چند پیکٹ پکڑے پہنچ گیا تھا۔ اس نے کھڑے کھڑے پیکٹ رکھے تھے اور کہا تھا کہ آپ اکٹھے وقت بتائیں۔ جب دل کرے میرے کمرے میں آ جائیں، کھانا وہیں دھرا ہے۔ مل کر کھائیں گے۔

میری زندگی میں چند بار جو پیشہ ور لڑکیاں آئیں، چاہے وہ جتنی بھی دلکش کیوں نہ تھیں میں نے انہیں ہونٹوں پر کبھی نہیں چوما تھا۔ باوجود اس کے کہ میں جانتا تھا کہ منہ تو سب کے ایک جیسے ہیں، شاید مجھے بچپن سے کسی کا جوٹھا نہ چکھنے کا کمپلکس تھا یا کیا مگر میں ایسا کر نہیں سکا تھا۔ تاہم اگر کوئی اپنے طور پر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں کے ساتھ چسپاں کر دے تو میں انسان کا دل رکھنے کی خاطر تنافر کا اظہار نہیں کرتا تھا۔ میں نے اس ملک میں بارہا دیکھا تھا کہ نوجوان لڑکے لڑکیاں چیونگ چباتے ہوئے ایک دوسرے کے دہنوں سے دہن پیوست کیے ہوتے تھے اور یہ دیکھ کر مجھے کراہت ہوتی تھی۔ شیمپین پیتے پیتے میڈیکل کی طالبہ اس پیشہ ور لڑکی نے میرے گلے میں بازو حمائل کرتے ہوئے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے تھے۔ میرے ہونٹ تھوڑے سے کھلے تھے چنانچہ مجھے اپنے منہ میں شیمپین ایک باریک دھار کی صورت گرتی محسوس ہوئی تھی۔ میں نے لڑکی کو پیچھے دھکیل دیا تھا اور تیزی سے غسل خانے میں جا کر اپنا دہن دھویا تھا۔ مجھے بہت غصہ آیا تھا اور میری طبیعت مکدر ہو گئی تھی۔ میں نے بڑی تلخی کے ساتھ اس لڑکی سے کہا تھا کہ یہ تم نے کیا کیا، مجھے ایسا کرنا ہرگز اچھا نہیں لگا۔ لڑکی لغوی معنوں میں مجھے ہونٹوں سے مے پلانے کا نخرہ کر رہی تھی لیکن مجھے ہائیجین کا خیال زیادہ تھا۔ لڑکی نے اپنی خجالت مٹانے اور مجھے راضی کرنے کے لیے پہلے میری قمیص اور بنیان اتارے تھے پھر خود کپڑوں سے باہر ہوئی تھی۔ جسم تو اس کا بے داغ ہی تھا لیکن میں نے زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا کہ کسی لڑکی کی ناف کے آس پاس بھی چند بڑے بڑے کالے بال اُگے ہوئے ہوں۔ اوپر سے وہ اتنی سست تھی جیسے پیشہ ور نہ ہو میری محبوبہ ہو۔ میرا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا تھا، میں نے اسے ڈانٹ کر کہا تھا، “اپنا کام ٹھیک طرح سے کرو”۔ لڑکی
پیشہ ور ہوتے ہوئے بھی انتہائی غیر پیشہ ور تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پھر ہم دونوں شرفاء کی طرح ساشا کے کمرے میں کھانا کھانے چلے گئے تھے۔ بعد میں میں نے ساشا سے کہا تھا کہ میں سونے جا رہا ہے۔ ساشا نے حیران ہو کر پوچھا تھا کہ کیا لڑکی نے آپ کو ناراحت کیا ہے؟ مگر میں کوئی جواب دیے بغیر ساشا کے کمرے سے نکل گیا تھا اور کمرے میں جا کر خود کو بند کر لیا تھا۔
اگلے روز دس بجے بیدار ہوئے تھے۔ ساشا نے آ کر میرا دروازہ کھٹکھٹایا تھا، میں نے اسے رات والی لڑکی کی غیر دلچسپ حرکات سے متعلق آگاہ کیا تھا۔ ساشا نے ایک بار پھر مصنوعی خفت کا مظاہرہ کیا تھا اور میری شب رنگین نہ  ہونے پر معذرت کی تھی۔ گیارہ بجے میشا گاڑی لے کر پہنچ گیا تھا۔ ہم نکل کھڑے ہوئے تھے۔ ساشا نے نتاشا نام کی ایک اور کاروباری عورت کے ساتھ ملایا تھا جو بظاہر سنجیدہ اور شریف خاتون لگتی تھی مگر میرا دل ایک بار پھر لینا سے ملنے کو کر رہا تھا۔ اس سے صبر نہیں ہو سکا تھا اور پوچھ بیٹھا تھا کہ کیا ہمیں لینا کی جانب نہیں جانا، کیونکہ ہم نے کل پھر ملنے کا وعدہ کیا تھا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply