تو سوال یہ ہے بھائی جان ترکیہ مراکش ایران دبئی کیا یہ مسلم ممالک نہیں؟اگر ہیں تو وہاں سیکس لیگلائز کیسے ہے؟
ارے آپ نے اک ہیرا منڈی ختم کی پورا لاہور ہیرا منڈی بن گیا
کیسی منافقت ہے کہ ہر شہر میں چکلے موجود ہیں لیکن جب انہیں لیگلائز کرنے کی بات آتی ہے تو ہم مذہب کو بیچ میں لے آتے ہیں
یہ قحبہ خانے جو پیسہ منتھلیوں میں دیتے ہیں اس سے زائد پیسہ ٹیکس کی صورت میں دے سکتے ہیں یہ جو سیکس ورکرز سے بیماریاں پھیلتی ہے ان کو لیگلائز کرنے سے ہر ماہ ہر ورکر کا بنیادی ٹیسٹ ہو گا اس سے بیماریوں کے پھیلنے کا خدشہ کم ہو گا یہ جو ہر روز بچوں سے بوڑھوں تک ریپ کی خبریں آتی ہیں جب لوگوں کو قانونی طریقے سے سیکس کرنے کی اجازت ہو گی تب ایسے واقعات ختم ہو جائیں گے کیونکہ حبس جتنی زیادہ ہو گی بارش اتنی کھل کر ہو گی۔آپ کی نوجوان نسل جن کے ذہنوں پہ ہر وقت سیکس سوار رہتا ہے اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے پڑھتے پڑھاتے ہر جگہ بس سیکس کی سوچ اور باتیں۔جب سیکس میسر ہو گا جب یہ ٹیبو نہیں رہے گا تب ہماری قوم سیکس سے نکل کر کچھ اچھا سوچ پائے گی۔
ہمارے مولوی حضرات سیکس،زنا،فحش پنا اور عورت کی بے پردگی کا پیچھا چھوڑ کر اصل گناہوں پہ لیکچر دیں گے وہ گناہ جو گناہ کبیرہ ہیں جن سے عوام پہ براہ راست اثر پڑتا ہے۔آپ بتائیں کہ کسی بند کمرے میں سیکس کرتے دو فریقین سے یا دودھ میں یوریا،مرچوں میں اینٹ کا برادہ اور دالوں میں کنکر ملانے والے کا سماج کو زیادہ نقصان ہوتا ہے ؟ کسی لڑکی کا برقع نہ پہننا کسان کے لیے زیادہ بڑا عذاب ہے یا کھاد سٹاک کرنا ؟
کسی گانے پہ رقص کرنا زیادہ برا ہے یا رشوت لینا ؟ہمارا سرکاری نصاب اور میڈیا دعوے کرتا ہے کہ پاکستان دنیا کا خوب صورت ترین ملک ہے مگر دوسری طرف سیاحت میں تھائی لینڈ اور دبئی ہم سے بہت چھوٹے ہونے کے باوجود بہت آگے ہیں۔پہاڑ پہاڑ پہ سوئزرلینڈ سے موازنہ کرتے ہم لوگوں نے کبھی سوچا ہے کہ سوئزرلینڈ کا 54 فیصد پیسہ سیاحت سے آتا ہے ہماری سیاحت کہاں کھڑی ہے؟ تھائی لینڈ اپنے کلب اور قحبہ خانوں کی بدولت کروڑوں اربوں ڈالرز سالانہ کماتا ہے اور ہم کچھا پہنے سیاحوں کو اغوا کر لیتے ہیں۔یورپی مرد و عورت ہو یا امریکی جب وہ چھٹیوں پہ نکلتا ہے تو اسے تین چیزوں کی تلاش ہوتی ہے شراب شباب اور کسینو۔
اک سیاح جب کسی حسینہ کو بانہوں میں سمیٹے شراب کے نشے میں مدہوش جوئے میں پیسے ہارتا ہے تو فائیدہ ملک کو ہوتا ہے۔دبئی اور ترکی بہت پہلے یہ بات سمجھ چکے تھے اب تو سعودی عرب جیسے شدت پسندی کا لیبل رکھنے والے ممالک کو بھی سمجھ آ چکی ہے تو اک ہم ہی ہیں جن کو بات بات پہ مذہب یاد آ جاتا ہے باوجود اس کے کہ یہ تینوں کام دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہمارے ملک میں ہوتے ہیں۔کسی نے کیا خوب کہا کہ مسلمان تو سعودی ایرانی اور افریقی بھی ہیں لیکن ہم پاکستانی تو مسلمان بن کر باؤلے ہی ہو گئے ہیں۔یا تو ہم اک آئیڈیل مسلم معاشرہ ہوں جہاں اک مسلمان بھائی دوسرے مسلمان بھائی کے شر سے محفوظ ہو اور اک دوسرے کا خیال رکھتا ہو جہاں اپنوں سے پہلے حق ہمسائیوں کی بھوک کا خیال رکھا جاتا ہو جہاں یتیموں کے مال پہ قبضے کی بجائے اس کی حفاظت میں لوگ اکٹھے ہوتے ہوں۔جہاں یتیم بیوہ یا مجبور خواتین کی عزتوں سے کھلواڑ نہ ہوتا ہو۔سب سے زیادہ بے شرم ہم لوگ ہیں پوری دنیا میں بدنام ہم لوگ ہیں لیکن جب بات ملکی معیشت اور اپنی زندگی سنوارنے کی ہو تو ہم مذہب کو بیچ میں لے آتے ہیں۔اسلام میں جبر نہیں اسلام میں سیکس ٹیبو نہیں اسلام میں فطری خواہشات کے چلتے چار چار نکاح اور لونڈیاں تک رکھنے کی اجازت ہے اگر اب وہ زمانہ وہ دور نہیں رہا تو متعہ کی طرز پہ یا شرعی نکاح کی طرز پہ کوئی حل نکالا جا سکتا ہے۔حل نہیں بھی نکلتا تو ہر کوئی اپنے کیے کا خود ذمہ دار ہے۔بات اتنی سادہ ہے کہ زنا بالجبر سے زنا بالرضا بہتر آپشن ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں