صوبائی تعصب پسندی کا ناسور ۔۔اے وسیم خٹک

وطن عزیز جب سے بنا ہے تب سے ہی ملک میں لسانی فتنے نے سر اٹھایا ہے۔مشرقی پاکستان کے سیاست دانوں نے دستور  پاکستان میں رکاوٹ ڈالی اور اُردو کو قومی زبان تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔حالانکہ اردو وہ واحد زبان تھی جو ملک کے تمام صوبوں میں بولی جاتی تھی جبکہ بنگلہ زبان صرف بنگال میں بولی اور سمجھی جاتی تھی۔ یہی وہ تعصب تھا جس نے اردو کے ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان کے دائرے میں  لاکھڑا کردیا۔اُس کے بعد نت نئے مطالبات سامنے آتے گئے نیا صوبہ بنانے کے منصوبے کے ساتھ ہی ملک دولخت ہوگیا۔

بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ اس کے بعد بھی اب تک ملک کے کسی بھی کونے میں  جائیں وہی تعصب لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں ہے۔ کوئی گریٹر پختونستان کے نعرے لگا رہا ہے تو کوئی سندھو دیش کے نعروں میں لگا ہے اور کہیں سے پختونستان کے نعرے بھی بلند ہوتے ہیں تو کہیں پر  مہاجر قوم کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اس صوبائی تعصب سے ملک کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ جس کا فائدہ دشمنوں نے خوب اٹھایا اور  ملک میں انتشار پھیلانے کے لئے کوئی بھی راستہ نہیں چھوڑا۔

اب اس صوبائیت پرستی کے ذمہ دارکو ن ہیں۔ عوام کو تو اس کے بارے میں اتنا علم نہیں ہے تو بجا کہا جاسکتا ہے کہ اس کارِ خیر میں بھی ہمارے سیاست  دان  ملوث ہیں جو بھولے  عوام کو روٹی کپڑا مکان اور بنیادی سہولیات سے محروم کرکے  انہیں اس قسم کے جھمیلوں میں ڈال لیتے ہیں جن کا دائرہ کار مخصوص علاقوں اور صوبوں تک محدود ہے۔ وہ اس صوبائی تعصب کے ذمہ دار ہیں۔جنہوں نے علاقوں کو ترقی سے دور رکھتے ہوئے عوام کو اس بات پر اکسایا کہ یہ سب فلاں صوبے کی سازش ہے۔ جس سے نفرتوں کا   بیج عوام کے ذہنوں میں پنپ گیا اور وہ اس میدان میں بہت آگے تک گئے۔ وہ یہ بھول گئے کہ ہم سب ایک قوم ہیں۔ہمیں سندھی، بلوچی،پٹھان، پنجابی، اور مذہبی قرقوں دیوبندی، بریلوی، شیعہ وغیرہ میں تقسیم کردیا گیا۔ یعنی ہمارے سیاست دانوں نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے ہمیں اس حد تک مجبور کیا کہ ہم اپنے بھائیوں کے خون کے پیاسے ہوگئے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے خیبر پختونخوا  کے سرکاری یونیورسٹی میں تعینات پبلک ریلیشن آفیسر نے ای میل کرکے اپنے ساتھ ہونے والے تعصب  کا شکوہ  کیا  ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا  تین مہینے پورے ہوگئے ہیں ا ن تین مہینوں میں مجھے درجنوں بار کراچی اور سندھ کا طعنہ دیا گیا  کہ کیا ہمارے  علاقے میں تعلیم یافتہ لوگوں کی کمی تھی جو تم کو یہ ڈیوٹی تفویض دی گئی ہے۔ پہلے تو یہ ایک طعنہ تھا اب تو کچھ لوگ میرے خلاف باقاعدہ طور پر مہم چلا رہے ہیں کہ میں یہاں پر کیوں ملازمت کررہا ہوں، حالانکہ میرے پاس بھی پاکستانی شناختی کارڈ ہے میں ملک کے کسی بھی کونے میں ملازمت کرسکتاہوں۔ جس طرح پختون بھائی کراچی اور پنجاب میں سرکاری ملازمتیں کر رہے ہیں۔ اور کراچی جیسے شہر نے لاکھوں پختونوں کو عزت اور روزگار دے رکھی ہے۔ پھر تو ہونا یہ چاہیے کہ وہ کراچی میں ملازمتیں نہ کریں۔ انہیں بھی وہاں تنگ کیا جائے۔ وہاں تو ایسا کچھ نہیں کیا جارہا ہے۔۔۔مگر مجھے اب بھی پریشان کیا جارہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس واقعے کے بعد یہاں پرمجھے قرآن مجید کی یہ آیت یاد آرہی ہے کہ یٰاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَاءِلَ لِتَعَارَفُوا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (القرآن) اے لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت (آدم وحوا) سے بنایا اور تم کو مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا (محض اس لئے کیا) تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم  میں سب سے بڑا شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا اور پوری خبر رکھنے والا ہے۔یعنی اس آیت کریمہ میں جن چیزوں کا ذکر ہے ان سے تمام طرح کی عصبیت کی بیخ کنی ہوجاتی ہے۔ تعصب کی کئی شاخیں ہیں، حسبی ونسبی تعصب، قبیلہ پرستی و ذات برادری کی عصبیت، لسانی ووطنی عصبیت ملکی وقومی عصبیت علاقائی وقومی عصبیت۔ جس سے ہمیں ہمارے اللہ نے منع فرمایا ہے مگر ہم پھر بھی اُن چیزوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالی کے احکامات کو ہم یہاں بھی نہیں مان رہے۔وہ قومی سطح پر ہو یا شخصی سطح پر ہم تعصب کا شکار ہیں حالانکہ اگر دیکھا جائے تو تعصب ناسور سے بھی بدتر ہے جس طرح ناسور جیسے امراض تو دنیوی زندگی کو تباہ وبرباد کرتے ہیں بلکہ ان امراض میں مبتلا انسانوں کو ایمان والوں کو اخروی ثواب سے نوازا جائے گا اور تعصب وعصبیت سے دنیا بھی برباد اور آخرت بھی، دنیا میں بھی رسوائی اور آخرت میں بھی۔ مگر پھر بھی ہم اس ناسور میں پڑے ہوئے ہیں۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply