اُداسی/ناصر خان ناصر

کبھی کبھار کی گہری اداسی ایک فطری جذبہ ہے۔ یہ زندگی کے آہنگ، رنگ ڈھنگ و ترنگ کا ایک وہ نرالا دلچسب رنگ ہے، جس سنگ ہیرے کی کنی کی طرح خوبصورت خوشی کی شعاعیں پھوٹتی ہیں۔ یہ وہ درد زہ ہے، جس کے بعد اولاد کی خوشی ملتی ہے۔
کبھی کبھار کی اداسی لاکھ جاڑے کی چاندنی جیسی سہی، مگر روا ہے۔ ہاں البتہ ہر وقت اداس رہنا ایک بیماری بھی ہو سکتی ہے۔
اگر آپ زیادہ تر اداس ہی رہتے ہیں تو براہ کرم اپنی صحت اور خوراک پر مکمل توجہ دیجیے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارا جسم مختلف کیمیکلز ہی سے بنا ہوا ہے۔ اگر انسانی جسم میں کسی بنا پر چند ضروری اجزاء کی کمی و بیشی لاحق ہو جائے تو یہ کیمیکل تبدیلی اداسی یا ڈپریشن کو جنم دے سکتی ہے۔ یاد رہے کہ ڈپریشن ایک بیماری ہے اور اس کا مکمل علاج بھی ممکن ہے۔
ایک آرٹسٹ اپنی اداسی کے بادلوں سے اپنی ارفع تخلیق کی قوس قزح نکال لانے پر بھی قادر ہوتا ہے۔ اپنی اداسیوں کو بار آور بنائیے اور خوبصورت افسانوں، ڈھیر ساری غزلوں، نظموں اور دلربا، دل پذیر، بے نظیر تحریروں کے ڈھیر لگا دیجیے۔ آپ خود بھی ان تخلیقات کو ضبط تحریر میں لانے کے بعد خود کو نہایت ہلکا پھلکا اور خوش باش محسوس کریں گے۔
اداسی دور کرنے کے لیے چھوٹی موٹی واک، آسان سی ورزش، جگہ کی تبدیلی، مشاغل کی رنگا رنگی، مصوری، رقص، مجسمہ سازی، گلوکاری اور ہم آہنگ ہم خیال لوگوں سے باہمی دلچسب گفتگو ایک تریاق ثابت ہو سکتے ہیں۔ الغرض اپنی پوزیشن، جگہ، گردو نواح، ماحول اور حالات کو تبدیل کر کے بھی آپ اداسی کے جھنجھٹ بنے اس مکڑی کے جال سے باہر نکل سکتے ہیں۔ اگر آپ اداس بیٹھے ہیں تو کھڑے ہو جائیے، کھڑے ہیں تو آرام سے بیٹھ جائیں، اپنی یاس بھری سوچوں کو یکدم جھٹک دیں، کھڑکی سے باہر جھانک کر چمکتی ہوئ سورج کی کرنوں کو دیکھیں۔ ہوا سے لہلہاتی گھاس، مدہوشی سے پھول پھول اڑتی تتلیاں، جھومتے لہراتے پھول، شور مچاتے پرندے، سارے ہی قدرتی نظارے انسان کو اپنی دلفریبی سے اپنے دکھ بھلا دینے پر قادر ہیں۔
اداس بیٹھ کر ٹھنڈی سانسیں بھرنے کی بجائے ٹھنڈے یا تازہ پانی کا ایک گلاس آپ پر جادوئی اثر کرے گا۔ صاف تازہ ہوا میں زور زور سے کھینچے سانس آپ کو مطلوبہ آکسیجن مہیا کر دیں گے جن کی کمی انسان میں بےزاری پیدا کرتی ہے۔ اپنے تصور میں آپ اپنی جنت خود کھڑی کر سکتے ہیں۔ تصوراتی دنیا بھلے غیر موجود سہی مگر آپ کو کسی بھی جھنجھلاہٹ سے بآسانی نجات دلا سکتی ہے۔ تصوراتی دنیا میں رہ کر خواب دیکھنے والے لوگ ہمیشہ خوش و خرم اور مطمئن رہتے ہیں۔
اپنے دکھ کسی سے باٹنا انھیں کم کرنا ہے۔ جب آپ اپنے اداسی بھرے جذبات، رنج و الم اور غم و اندوہ سے بھرے احساسات اپنے مخلص دوستوں سے شیئر کرتے ہیں تو درحقیقت اپنے دکھ درد بانٹ کر انھیں کم کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر حال دل سننے والا کوئی ایک شخص بھی میسر نہ ہو تو تنہائی میں خود سے اونچی اونچی باتیں کر لینا، رو کر خدا سے شکوہ کر لینا بالکل مناسب بات ہے۔ یاد رہے کہ رونا بالکل غلط چیز نہیں ہے۔ رو رو کر اپنی بھڑاس نکال لینے سے انسان کا دل ہلکا ہو جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں مردوں کا رونا غیر مناسب سمجھا جاتا ہے مگر آنسو ایک قدرتی شے ہے جو فطرت نے انسان کی آسودگی کے لیے ہی بنائے ہیں۔
اداسی ایک فطری جذبہ ہے۔ اس سے فرار حاصل کر کے بھاگ جائیں تو گوتم کہلائیں، اسے اپنے انگ انگ میں جذب کر لیں تو میرا۔۔۔۔
گہری اداسی من کے گھنیرے جنگل میں دھوپ کی طرح کہیں کہیں سے چھن چمک پڑے تو بلھے شاہ اور بھگت کبیر بنا دے۔
یاد رہے کہ اگر سدھارتھ کو اپنے محل سے راتوں رات اپنی بیوی اور بال بچوں کو سوتا چھوڑ کر بھاگ جانے سے قبل ملٹی وٹامن کی گولیاں روزانہ کھلائ جاتیں تو شاید ہماری دنیا آج ایک بڑے عالمی مذہب بدھ مت سے بالکل ہی محروم رہ جاتی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply