بستی (8)۔۔وہاراامباکر

ایک بار جب انسانی ذہن بڑے سوالوں کو کرنے کا اہل ہوا تو اس کے بعد کلچر کی، ہماری رہنے اور فکر کی جدتیں بہت تیزرفتاری سے اور بہت ہی ناقابلِ ذکر وقت میں ہونے لگیں۔ چھوٹی آبادیاں بنیں۔ خوراک کے لئے محنت، پھر بڑی آبادیاں، آبادی کی ڈینسیٹی میں اضافہ ہوا۔ ایک بہت ہی متاثر کن بڑا دیہات چیٹل ہوئیک تھا جو وسطی ترکی میں قونیہ میں تھا۔ گوبیکلی ٹیپے سے چند سو میل مغرب میں۔ یہاں کے لوگ شکار زیادہ کیا کرتے تھے جبکہ زراعت زیادہ نہیں تھی۔ یہاں کے اوزار بتاتے ہیں کہ لوگ اپنے گھر اور اپنا آرٹ خود بناتے تھے اور محنت کی تقسیم نہیں تھی۔ خانہ بدوشوں کی چھوٹی آبادیوں میں تو یہ حیران کن نہیں لیکن چیٹل ہوئیک چھوٹا دیہات نہیں تھا۔ اس کی آبادی آٹھ ہزار تھی۔

آرکیولوجسٹ چیٹل ہوئیک یا ایسے دیہات اور قصبوں کو شہر نہیں شمار کرتے۔ ان بستیوں اور شہر میں فرق صرف سائز کا نہیں۔ آبادی کے سماجی تعلقات کا ہے۔ یہ تعلقات پیداوار اور تقسیم کے نظام لے کر آتے ہیں۔ محنت کی تقسیم ہوتی ہے۔ افراد اور خاندان کئی اجناس اور خدمات کے لئے دوسروں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ سماج خودکفالت کو ختم کرنے سے وجود میں آتا ہے۔ ہر کسی کو اپنا کام نہیں کرنا پڑتا۔ اور یہ وہ وجہ ہے کہ سپیشلائزڈ پیشے بن سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر آبادی ایسا مرکز بن جائے جہاں پر زراعت کی اضافی اجناس لائی جا سکیں اور ان کا تبادلہ یا تقسیم ہو سکے تو ہر کوئی خوراک اگانے کی فکر کے بجائے دوسرے کام کر سکتا ہے۔ ہنرمند بنا جا سکتا ہے، مفکر اور استاد بنا جا سکتا ہے۔

اگر ہر خاندان کو اپنا تمام کام خود کرنا ہو ۔۔۔ قصائی سے گوشت نہ ملے، پلمبر پائپ کے مرمت نہ کر سکے یا آپ اپنے پانی میں گر جانے والے فون کی گارنٹی کلیم کرنے بھولے بن کر نہ جا سکیں کہ اسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا ۔۔۔ تو اکٹھے رہ کر آبادی بنانے سے کوئی خاص فائدہ نہیں۔

چیٹل ہوئیک یا اس طرح کی آبادیوں کو آپس میں جوڑنے کی گوند مشترک کلچر اور روحانی نظریات لگتے ہیں۔

اور نئے کلچرز میں موت کا اہم کردار لگتا ہے، جو خانہ بدوش کلچرز سے مختلف ہے۔ خانہ بدوش لمبے سفر پر بیمار اور معمر افراد کو نہیں لے جا سکتے تھے، اس لئے کمزور افراد کو پیچھے چھوڑ دینا ایک عام رواج تھا۔ جبکہ ایشیائے کوچک کے دیہات میں اس کا برعکس ہے۔ خاندان نہ صرف زندگی میں بلکہ موت میں بھی اکٹھے نظر آتے ہیں۔ چیٹل ہوئیک میں اپنے گھروں کے نیچے دفن کرنے کا رواج ملتا ہے۔ ایک بڑی عمارت کے نیچے ستر لوگوں کی باقیات ملی ہیں۔

جہاں پر چیٹل ہوئیک کے آبادکار موت کے بارے میں فکر کرتے ہیں، وہاں پر نیچر سے تبدیل ہونے والا تعلق بھی ہے۔ جانور سدھائے جانا، پودے سدھائے جانا۔ گندم، دال، مٹر کو قابو میں لے کر آنا۔

زراعت کی ایجاد اور جانوروں پر غلبے نے نئی انٹلکچوئل دنیا کھولی۔ یہ دنیا کے قوانین اور باقاعدگی جاننے کی تھی۔ جانور کی بریڈنگ کیسے ہوتی ہے۔ کیا کیا جائے کہ پودے بڑھیں گے؟ یہ سائنس کا آغاز تھا، اگرچہ سائنسی میتھڈ کا نہیں۔ اور یہ عملی سائنس کا تھا، نہ کہ آج کی پیور سائنس کا۔

جس طرح انسان نیچر کے بارے میں نئے سوال کرنا شروع ہوئے، نئی آبادیوں میں جواب دینے کے نئے طریقے آنے لگے۔ یہ ملکر شکار کرنے یا خوراک حاصل کرنے کا ٹیم ورک نہیں تھا۔ یہ خیالات اور علم کا ٹیم ورک تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply