جلن/ربیعہ سلیم مرزا

ہم نے جب اس بند گلی میں گھر لیا تو صفیہ پہلی پڑوسن تھی جو مجھے آکر ملی ۔اس کامکان چار گھر پیچھے بند گلی کا آخری گھر تھا ۔
پھر دوتین مہینوں میں پتہ ہی نہیں چلا کب وہ میری جیٹھانی بنی کب میں اس کی دونوں لڑکیوں رمشہ اور شمسہ کی چاچی بن گئی ۔
لگتا تھا جیسے رمشہ شمسہ تو پیدا ہی اسی گھرمیں ہوئی ہوں۔کیونکہ ہم سے پہلے جو لوگ تھے ان کی بھی دو بیٹیاں تھیں ۔اور یہ دونوں ان کی سہیلیاں تھیں ۔اس لئے میرے گھر کا کوئی کونا بھی ان کیلئے اجنبی نہیں تھا ۔کالج سے آتے ہی کتابیں اپنے گھر پھینک کر میری طرف آتیں اورٹی وی کے سامنے والا صوفہ سنبھال لیتیں۔ساتھ ساتھ میرے دونوں بچوں کو ہوم ورک کرواتیں۔
گھر کے چھوٹی بڑے کام کردیتیں۔۔

صفیہ دن میں چھ بار انہیں لینے آتی اور ہربار انہیں بھیج کر گھنٹہ آدھ گھنٹہ میرے ساتھ دکھ سکھ کرکے جاتی ۔
صفیہ کا شوہر پاء رحیم مستری تھا ۔ہزار پندرہ سو کی دیہاڑی تھی،کبھی لگتی اور کبھی وہ خود نہیں لگاتا تھا۔۔

بند گلی کا یہ مکان اس لئے سستا ملا کہ میرے جیٹھ کا اس کے مالک سے لین دین کا معاملہ تھا ۔اس نے پچاس لاکھ کا گھر پنتالیس لاکھ میں لے کر اپنے بھائی ثاقب کو دے دیا ۔اس طرح میری جیٹھانی کی مجھ سے یکمشت جان چھوٹ گئی ۔

یہاں آکر مجھے گھر اور جیٹھانی کے ساتھ ساتھ بونس میں رمشہ اور شمسہ بھی مل گئیں ۔ویسے بھی لڑکیوں کو قد نکالتے دیر کتنی لگتی ہے۔مگر یہاں تو چھوٹی شمسہ نے جیسے رمشہ سے مقابلہ باندھ رکھا تھا ۔شمسہ نے ستارہویں سال میں پانچ فٹ کراس کیا تو رمشہ نے سولہویں میں ہی چھت والے پنکھے کو چھولیا ۔

سچی بات تو یہ دونوں بہنیں اپنی ماں صفیہ پہ گئی تھیں ۔رحیم کی بیوی صفیہ کھلے ہڈ پیر کی پوری مٹیار تھی۔پینتالیس کی ہوکر اور بھی بھر گئی تھی،پوری جنی ہوگئی تھی ،پاء رحیم اس کے سامنے قابل رحم لگتا تھا ۔

جس دن کی یہ بات ہے اس دن ثاقب مجھے اکیلی اور ویہلی سمجھ کر صبح جاتے پھلیاں اور چکن لے کر دے گئے کہ
“لے بیٹھی نکالتی رہ ۔”

ثاقب کو لگتا ہے بچے اسکول ہوں تو مجھے ڈرامے دیکھنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا ۔میں نے بھی شاپر کو چھوا تک نہیں
جہاں تھا۔۔۔۔تہاں رہنے دیا ، نو سوا نو بجے صفیہ نے گھنٹی بجادی ۔
اندر آتے ہی شاپر دیکھ کر بولی
“اج پھلیاں پکان لگی ایں “؟
اتنا کہہ کر شاپر گھسیٹ کر بیٹھ گئی،میرا تو دل خوش ہوگیا ۔
“چائے پیو گی “میں نے فورا ً پوچھا
“وہی تو پینے آئی ہوں ۔ لڑکیوں اور رحیم کیلئے چاء بنائی تھی ۔وہ تینوں ناشتہ کرکے گئے تو اپنے لئے بنانے لگی،اونتری پتی ای مک گئی ”
صفیہ نے پھلیاں نکالتے ہوئے کہا تو میں چائے بنانے لگی ۔
گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹے بیٹھ کر ادھ پچدھ پھلیاں نکل گئیں تو صفیہ چلی گئی ۔
ڈیڑھ بجے رکشے والا بچے چھوڑ گیا اور ڈھائی بجے رمشہ شمسہ آگئیں ۔میں نے چپکے سے ٹی وی اور ان کے درمیان پھلیاں رکھ دیں ۔
“انج تے فیر انج ای سئی ”

بیڈروم میں جاکے امی کو فون کیا،ادھر ادھر کی باتوں میں ابھی پھلیوں کا سیاپہ بتا ہی رہی تھی کہ دروازے کی گھنٹی بجی
“شمسہ ذرا دروازہ دیکھنا ”
میں نے وہیں سے آواز لگائی ،
چار پانچ منٹ بعد یہ سوچ کر
“دروازے پہ کون آیا ہوگا “؟
امی کو خدا حافظ کہا ۔ میرے دونوں بچے اور وہ دونوں بہنیں دہلیز پہ کسی سے باتیں کررہے تھے ۔
میں صحن میں پھلیوں کے پاس بیٹھ گئی،تھوڑی سی رہ گئی تھیں ۔
اتنے میں شمسہ ہاتھ میں ایک پلاسٹک کا گول ڈبہ لئے اندر داخل ہوئی
“چاچی ،دیکھیں ،اتنی زیادہ کریم سوروپے کی ہے ”
وہ بہت بڑی گول ڈبیا تھی ،وہیٹ کی چار بڑی ٹیوبوں سے بھی بڑی۔دکھنے میں این فرینچ ہئیر ریموور کریم جیسی تھی لیکن ڈبیا پہ فائن فرینچ لکھا ہوا تھا ۔
“یہ کہاں سے آئی “؟
میں نے احمقانہ سوال کیا،کیونکہ بچے اور رمشہ ابھی دروازے پہ تھے ۔
“کمپنی کی لڑکیاں بیچ رہی ہیں،چاچی آپ دو سو دے دیں ۔دو لے لیتے ہیں ۔ایک آپ کی ایک ہماری ۔میں کل سو واپس دے دوں گی ”
میں نے بڑی سی ڈبیا کو دیکھا،برانڈ سے کیا فرق پڑتا ہے ۔بال ہی صاف کرنے ہیں،یہ سوچ کر دوسو شمسہ کے ہاتھ پہ رکھ دیے ۔
وہ پھلیاں نکال کر اپنی کریم اٹھا کر چلی گئیں تو میں کچن میں گھس گئی ۔
تین دن بعد ہفتے کو چار بجے نہانے لگی تو یاد آیا کہ کریم خریدی تھی ۔
ایک ہاتھ میں کریم پکڑی اور دوسرے میں موبائل لیکر باتھ روم میں چلی آئی ۔
سو روپے میں سودا بُرا نہیں تھا ۔بس جلن تھوڑی زیادہ تھی ۔سوچا خیر ہے،بال جتنی اسپیڈ سے اترے پہلے کبھی نہیں اترے تھے ۔
ثاقب آئے،انہیں کھانا دیا ۔فلم دیکھی اور رات ایک ڈیڑھ بجے سوگئے،

رات کے چار بجے جلن اور خارش کی وجہ سے آنکھ کھل گئی ۔باتھ روم کے شیشے میں جاکر دیکھا تو بازو کے نیچے جہاں کریم لگائی تھی ۔وہ جگہ لال ہورہی تھی ۔
باقی کہیں دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔سمجھ گئی کہ سستی کریم نے کام دکھادیا ہے ۔
ثاقب کو اٹھایا ۔بازو دکھایا، پانچ منٹ تک لیکچر سنا،
پھر جوڑ توڑ شروع ہوئے ۔برف ،پیسٹ ،کولڈ کریم جو سمجھ آیا۔۔۔لگایا۔
جلن کم نہ ہوئی بلکہ اب پھنسیوں جیسا کچھ بننا شروع ہوگیا
جی چاہ رہا تھا زور زور سے کھجاؤں ۔بڑی مشکل سے خود پہ قابو پاتی ۔
خدا خدا کرکے صبح ہوئی ۔سات بجے بچوں کو امی کے ہاں چھوڑا ۔اور نوبجے ڈی ایچ کیو ہسپتال میں اسکن اسپیشلسٹ ڈھونڈا ۔ساری بات سنائی ۔
اس نے ثاقب کو باہر بھیج کر قمیض اوپر کروا کر بازو کے نیچے دیکھا ۔
کہنے لگا
“تیزاب جیسا کوئی کیمیکل تھا،اب آپ کی جلد کالی اور سخت ہورہی ہے،آپ نے اب خارش نہیں کرنی ”
ایک انجکشن لگایا ،دو ٹیوبیں لگانے کیلئے اور ڈھیر ساری گولیاں کھانے کو دیں ۔
بارہ بجے تک بخار ہوگیا،امی کہنے لگیں
” ادھر ہی رک جاؤ ۔بچوں کی ایک چھٹی ہوجائےگی ،ہوجائے۔۔بچوں نے کون سے ایم بی بی ایس کے پیپر دینے ہیں جو قیامت آجائے گی ”
ثاقب بھی امی کی بات مان کر شام کو گھر چلے گئے ۔اگلے دن تکلیف مزید بڑھ گئی ۔امی مجھے فیملی فزیشن کے پاس لے گئیں ،انہوں نے معائنہ کیا ۔اور ایک ٹیوب لکھ کر دی باقی ساری دوائیاں بند کردیں ۔

رات تک جلن تو کم ہوگئی اور اگلے دن محض خارش رہ گئی ،جب بھی خارش ہوتی میں متاثرہ جگہ پہ دھیرے دھیرے کریم کا مساج کرتی ۔
منگل کو بھائی کے ساتھ گھر واپس آئی تو ہر چیز الٹ پلٹ تھی ۔ثاقب کا صفائی سے کیا لینا دینا ۔بیچارہ میری نکی جئی غلطی سے کتنا پریشان ہُوا ہوگا ۔

ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ باہر گھنٹی بجی ۔پہلوانوں کی طرح بازو اور ٹانگیں کھولے مشکل سے دروازہ کھولا توصفیہ تھی ۔
“تیرا ککھ نہ رئے میری لڑکی کو کیا عذاب خرید دیا تھا “؟
میں سمجھ گئی کہ
“ایدھر وی کم پے گیا اے ”

اسے اندر آنے کا اشارہ کیا ۔وہ بڑبڑاتی ہوئی اندر آگئی ۔بچے اس کی دھاڑتی گفتگو سن کر سہم سے گئے ۔
پانچ چھ منٹ اسے سمجھایا کہ غلطی میری نہیں تھی ۔مگر وہ تو لڑنے مرنے پہ تلی ہوئی تھی آخیر
اپنے ڈاکٹر کی لکھی ہوئی ٹیوب اسے دی ۔اور کہا
“میں یہیں ہوں بعد میں لڑ مر لینا پہلے جاکر یہ لگا ”
وہ تیر کی طرح لے کر نکلی تو ثاقب آگئے ۔
انہیں ڈاکٹر کی پرچی دی اور کہا “چار ٹیوبیں اور لے آؤ “.
“چار کیا کرنی ہیں “؟
انہیں بتایا کہ رمشہ کو بھی میرے والی اسکن الرجی ہوگئی ہے تو اس نے پتہ نہیں کیوں قہقہہ لگایا ۔
اور پرچی لےکر چلے گئے ۔

ہم دونوں کو ٹھیک ہونے میں دو تین ہفتے لگے ۔آرام تو آگیا مگر جلد کی رنگت بدل گئی ۔
اس حادثے کو گذرے ابھی مہینہ سوا مہینہ گذرا ہوگا کہ گلی میں شور سن کر میں باہر نکل آئی ۔
دیکھا تو صفیہ کے گھر کے باہر پانچ چھ مرد اور چار پانچ خواتین کھڑی تھیں  ۔
“یااللہ خیر ”
میں نے اندر آکے دوپٹہ اتارا اور چادر لے کر صفیہ کی طرف بھاگی ۔

صفیہ ڈیوڑھی میں رمشہ شمسہ کے ساتھ مل کر دو لڑکیوں کو مار رہی تھی ۔وہ بیچاری چیخ رہی تھیں ۔
کوئی چھڑوا بھی نہیں رہا تھا ۔

میں نے صفیہ کو پرے کیا ۔پھر دونوں بہنوں کو روکا تو محلے کی ایک دو عورتیں میری دیکھا دیکھی بیچ بچاؤ کرانے آگئیں۔
ڈیوڑھی میں لڑکیوں کا بکھرا سامان دیکھ کر میں سارا معاملہ سمجھ گئی ۔اس لئے میں نے ڈیوڑھی کا دروازہ بند کیا ۔اور تینوں ماں بیٹیوں کو سمجھایا کہ قصور ان کا نہیں ہے ،قصور ان لوگوں کا ہے جو ایسی گھٹیا چیزیں دے کر انہیں بھیجتے ہیں. ”

Advertisements
julia rana solicitors london

میں اب لڑکیوں کی طرف متوجہ ہوئی ۔ایک لڑکی کے کندھے سے قمیض پھٹ گئی تھی ۔میں نے شمسہ سےکہا ۔
“اس کو اپنی کوئی پرانی شرٹ دو ”
وہ اسے لیکر گھر کے اندر چلی گئی۔ ایک منٹ بعد مجھے آواز دی
“آنٹی۔ذرا اندر آنا ”
میں اندر گئی تو لرز کر رہ گئی ۔اس لڑکی کے دونوں بازوؤ ں کے نیچے کی اسکن تقریباً  جلی ہوئی تھی ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply