روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

کمال ِ گرمیٗ سعی ِ تلاش ِ ِ دید نہ پوچھ
برنگ ِ خار مرے آئینہ سے جوہر کھینچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستیہ پال آنند
کوئی حساب بھی ہے ان اضافتوں کا، حضور؟
’’کمال ِِ گرمی ء سعی ِ ِ تلاش دید‘‘ ہیں چار ِ
جو ایک سادہ سے مصرعےکو گھیر ے بیٹھی ہیں
بھلا یہ کون مخا طب ہے اس جگہ کہ جسے
کہا گیا ہےکہ ’’سعی تلاش ِ دید نہ پوچھ
کہا گیا ہے ،’’مرے آئینہ سے جوہر کھینچ

مر زا غالب
حساب داں تو نہیں ہوں میں، ستیہ پال آنند
کہ شعر کہتے ہوئے یہ شمار کرنے لگوں
اضافتوں کی توالی ہے آیا تین یا چار
مجھے تمھاری یہ عادت کبھی نہیں بھائی

ستیہ پال آنند
حضور، بخشیے ! یہ جائے عذر ہے تو نہیں
مگر جواز یقیناً ہے ایسی حجت کا
نہیں کوئی بھی کمی آپ کی ستائش میں
مگر، حضور، مجھے اتنا اختیار تو دیں
کہ میں یہ پوچھ سکوں خود تسلی ء دل کو
کہ کیا ضروری ہیں یہ سب اضافتیں اس جا؟
کہ عام فہم زباں میں یہ کہنا مشکل ہے
جناب، میں تو نہیں مانتا کہ ایسا ہو
پھر آپ جیسے فقید المثال شاعر کو
کسی بھی ایسے بکھیڑے کا احتمال نہیں

مر زا غالب
نہیں، ادِ ق تو نہیں ہےیہ کام میرے لیے
خفیف سا ہی رہے گا وہ شعر، سوکھا سڑا
کہ جس میں ہم صدا، ہم کیش جیسے لفظ نہ ہوں
ہے فارسی بھی ضروری بطور طرح و مثال
کہ جس بنِا کوئی جدّت بھی غیر ممکن ہے
ابھی تو ریختہ ہے ایک طفل ِ نو خواندہ
ابھی تو فارسی ہے اس کی جائی اور مائی

ستیہ پال آنند
حضور، آپ نے تو آنکھیں کھول دیں میری
میں اب سمجھ گیا الفاظ کی توالی کو

مر زا غالب
کہو تو اب تمھارے ذہن میں ہے کیا تصویر
کوئی خیال، کوئی پخت وپز، کوئی تدبیر ؟

ستیہ پال آنند
سمجھ رہا ہوں، حضور، آپ کے توغل کو
ہیں ماورا ئی معانی ورائے کاوش ِ فکر
کچھ ایسا اُلجھا ہوا ہے مگریہ شعر، حضور
الگ الگ سے معا نی بھی عین ممکن ہیں
(۱)اگر ہو ’’حسرت دیدار‘‘ ایک آئینہ
تو کیسے ’کھینچیں ‘ گے ہم اس کے سب کے سب جوہر
(۲) اگر ہوں خار ہی پیو ستہ جا بجا اس میں
تو کیا تمیز رہے گی، جنابِ من، اِن میں؟
مجھے تو جچتا نہیں ہے موازنہ ان میں

مرزا غالب
اگر ہو جوہر ِ آئینہ طبعِ موزوں تو
یہ استعارہ یقیناً سمجھ میں آئے گا

ستیہ پال آنند
میں لمحے بھر کو اگر یہ بھی مان لوں، تو حضور
برنگ خاراسے کھینچنا ہے لا یعنی
کہیں تو کوئی کمی رہ گئی ہے اس میں، جناب

مرزا غالب
کمی تو کوئی نہیں ہے، مرے عزیز، مگر
کفاف و کثرت ِ معنی ہیں اس میں پوشیدہ
کبھی کبھی تو کچھ ایسا بھی حال ہوتا ہے
وفور ِ معنی سمائے نہیں سمٹتا ہے
تو میں بذات خود اک آئینہ سا تکتا ہوا
سمجھنے لگتا ہوں خود کو بطور ِ جوہر و خار
یہی ہیں کانٹے بھی، جوہر بھی چشم ِ بینا میں

Advertisements
julia rana solicitors

ستیہ پال آنند
بہت عمیق ہےیہ فلسفہ ٗ معنی و خار
کمال گرمی ٗ سعی ٗ تلاش دید تو ہے
مگر کہاں ہے؟ فقط خارِ دشت میں پنہاں ؟
میں تھک گیا ہوں بہت، بخش دیجیے مجھ کو

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا