حبس کی پیدائش/مسلم انصاری

آبادی کے اُس حصے میں جہاں اس نے پرورش پائی تنگ گلیوں، گُھسے بندھے کمروں اور فربہ لوگوں کی بھیڑ رہی
عمومی طور پر جب لوگ گھروں میں بھی ایک جگہ سے گزرتے تب بھی آتے جاتے ان کے اجسام آپس میں ٹکراتے ،اس تنگی کے باعث قریب سبھی افراد ایک دوسرے کے بدن کی خوشبو اور پسینے کی بُو سے واقف تھے۔۔

بہت پہلے کی بات تھی جب مرد اور عورت مباشرت کے لئے الگ کمرے چنتے
مگر اب عورتوں اور مردوں کے اردگرد بچوں، رشتے داروں اور سامان کی بہتات تھی۔

شام ڈھلے جب مرد گھروں کو لوٹتے سب سے پہلے کم اونچے دروازوں سے ان کے سر ٹکراتے گوکہ یہ روز کا معمول تھا یہاں تک کہ مرد عورت کی تفریق پھولے ہوئے سروں سے کی جا سکتی تھی پھر بھی وہ روز ٹکراتے۔
بالآخر انہوں نے سر اٹھا کر چھجّوں کو دیکھنا بھی بند کردیا

ایسے ہی ایک حبس بھرے دن میں جب اُس کی ماں نے اسے جنم دیا اس کے فوراً بعد بھی وہ عورت جگہ کی تنگی کے باعث ٹانگیں سیدھی کرکے نہیں لیٹ سکی
ایک دائی جیسے فرد نے اُسے ماں کے پیٹ کے اندر سے نکال کر پیٹ کے اوپر لٹا دیا۔

اُس کی کم عمری میں سونے کی جگہ وہ استری کا ٹیبل تھا جہاں ایک جانب گندے اور دوسری جانب دھلے ہوئے کپڑے رکھے جاتے

یہ دونوں طرح کے کپڑے اس کے لئے حفاظتی تکیے کا کام کرتے پھر جس وقت کپڑے استری کرنے کا مرحلہ وقوع پذیر ہوتا گھر کا کوئی نا کوئی فرد اسے اٹھا کر شینک یا واشنگ مشین پر رکھ دیتا
بھیڑ اور شور کے باعث اس کا رونا ہمیشہ دبا رہتا۔

سامان کے خلط ملط ہونے اور ہجوم کی وجہ سے کبھی کبھار اس کے بستے سے چمچے، پلیٹیں، باپ کی پنشن بک، پالش اور ٹی وی ریموٹ بھی نکل آتا۔

یہ ایک طرح کی انجانی بھول تھی کہ مذکورہ سامان رکھنے والا دھیان ہی نہیں کر پاتا تھا کہ یہ اس کے اسکول کا بستہ ہے یا گھر کا ہی ایک حصہ ہے۔

رش کے باعث ایک ہی گھر کے دوسرے فرد کو بلانے کے لئے کوئی آواز نہیں لگائی جاتی بلکہ ساتھ کے فرد کو کان میں چیخ کر بتایا جاتا کہ ساتھ والے سے کہو وہ اس کے ساتھ والے کو بتلائے کہ اس کے ساتھ والا فلاں کی بات سُنے۔

اسی طرح ایک دن اس کی ماں نے لیٹے لیٹے ساتھ کے فرد سے سرگوشی کی کہ اُسے بلا دیا جائے
یہ بلانے کی بات 19 لوگوں سے ہوتے ہوئے جب اس تک پہنچی تب تک اس کی ماں مر چکی تھی۔۔

اب وہ دھیرے دھیرے بڑا ہورہا تھا
اپنی بہن یا باپ کو تلاش کرنے کے لئے وہ کسی سوئے ہوئے فرد کو کھینچ کر ہٹاتا تو اس کے نیچے سے مطلوبہ فرد برآمد ہو جاتا۔

ایک رات اس نے گلی سے گزرتے ہوئے محسوس کیا کہ سبھی گھر زمین کے اندر دھنس رہے ہیں مگر جب وہ سونے کے لئے لیٹا تب اسے اس بات کا ادراک ہوا کہ دیواریں اپنی جگہ سلامت ہیں
حقیقت میں چھتیں نیچے آرہی ہیں۔

وہ تیزی سے اٹھا اور اس نے بازو سے بالشت کے ناپنے کا کام لیتے ہوئے اندازہ لگایا پھر اس نے خود سے کہا
(ابھی چھت سے سر ٹکرانے میں کچھ ہفتے باقی ہیں)

اس کے بعد وہ کبھی سو نہیں سکا
رات رات بھر وہ اُٹھتا اور پیمائش کرتا
کئی ماہ بعد جب اوندھے منہ پڑے ہوئے اس کی آنکھ اچانک لگی اسے محسوس ہوا کہ پنکھے کی ہوا تیز ہو چکی ہے اس نے آنکھ کھول کر دیکھا تو پنکھے کے پَر اس کے جسم کے سب سے باہر نکلے ہوئے حصے “کولہوں” کو چھونے ہی والے ہیں
اس نے چیخنا چاہا مگر اب بہت سے بچوں کی آوازوں میں پنکھے کی گڑ گڑ بھی شامل تھی

اوندھے منہ ہی اس نے رینگنا شروع کیا اور کہنیوں کے بل گھسٹتے ہوئے باہر نکلنے لگا

وہ حیران تھا کہ اس کے سوا کسی بھی گھر سے کوئی کیوں نہیں نکلا؟ جب کہ گلی کی بات اور تھی وہاں کوئی چھت نہیں تھی مگر آسمان نیچے آرہا تھا

وہ رینگتا رہا
کئی دن، لا تعداد ہفتے، سینکڑوں مہینے اور غیر متعین برس!
سالہاسال، برس در برس وہ رینگتا رہا

اب بھیڑ، بستی اور آبادی کے اثرات کافی پیچھے رہ چکے تھے مگر آسمان بدستور نیچے آ رہا تھا

کئی صدیاں رینگنے کے باعث وہ ویسے بھی اٹھ کر سیدھا چل نہیں سکتا تھا رینگتے رینگتے اسے جب بھوک کا احساس ہوتا وہ زمین چاٹنے لگ جاتا
زمین ترچھی اور کھردری دونوں تھی اور اس میں کوئی ذائقہ نہیں تھا
یہ جگہ بنجر تھی پانی یا نمکیات کا کوئی سِرا سِرے سے ہی موجود نہیں تھا

لیکویڈ کی وہ شکل جسے اس نے ماں کے پیٹ میں پانی سمجھ کر چکھا تھا اِس بات کو گزرے بھی کھربوں شمسی سال بیت چکے تھے اسے یقین تھا کہ وہ کسی کو پانی کا ذائقہ تک نہیں سمجھا سکتا
ایک دن اس نے کچھ ایسے نشانات دیکھے جو مذکورہ حروف سے مشابہ تھے “خ ت م ش د”

“خ” کی شکل کسی کنوئیں کی گولائی سے مشابہ تھی صحراء میں سراب دیکھنے جیسی کیفیت میں اس نے وہ جگہ کھودنی شروع کردی
اسے لگا یہیں ان لفظوں کے نیچے کہیں پانی ہوگا

(ایک لڑکا جس نے اپنی لائبریری سے کئی سال پرانی کتاب کھول رکھی تھی اور بدستور اس دیمک کے کیڑے کو گھور رہا تھا جس نے کتاب کے آخری پیراگراف سے 10 منٹس میں “ختم شد” تک کا سفر کیا تھا اس لڑکے نے سیل فون کی گھنٹی بجنے پر بے دھیانی میں کتاب بند کردی)

کاش یہ زمین جلدی جلدی کھودی جا سکے
وہ زور زور سے “خ” پر کہنیاں مارنے لگا

Advertisements
julia rana solicitors london

“آسمان کتنا دور رہ گیا ہے؟” ایک لمحہ جس میں اس نے گردن گھما کر پیچھے دیکھنا چاہا مگر اچانک بڑا سا آسمان اس پر آ گرا
اور وہ وہیں پچک کر رہ گیا!!
خ ت م ش د!

Facebook Comments

مسلم انصاری
مسلم انصاری کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے درسِ نظامی(ایم اے اسلامیات) کےبعد فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب بعنوان خاموش دریچے مکتبہ علم و عرفان لاہور نے مجموعہ نظم و نثر کے طور پر شائع کی۔جبکہ ان کی دوسری اور فکشن کی پہلی کتاب بنام "کابوس"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مسلم انصاری ان دنوں کراچی میں ایکسپریس نیوز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply