ریلوے اسٹیشن 1947۔۔راؤ عتیق الرحمٰن

بہاولنگر ریلوے اسٹیشن پر ریاست بہاول پور میں باقی رہ جانے والے ہندو اور سکھ مہاجرین کو ہندوستان پہنچانے والی ٹرین کا کچھ مقامی مسلمان شدت سے انتظار کر رہے تھے ان میں چند جوشیلے اور جذباتی افراد بہاولنگر کے شہریوں کو تقریر اور نعروں کے ذریعے انتقام اور تشدد کی ترغیب دے رہے تھے۔ با لآخر ٹرین بہاول نگر آ ن پہنچی ،مسلمانوں کا ایک ہجوم غم وغصہ میں مبتلا تھا اور غیض وغصب کا اظہار ،نعرے ، بدلہ اور انتقام پر مبنی تقریریں کرتے ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے ۔یہاں انہوں نے ڈنڈوں اور چاقوؤں سے ڈبوں میں گھس کر حملہ کرنے کی کوشش کی،لیکن اسٹیٹ آرمی اور مقامی پولیس نے ان بلوائیوں کا حملہ ناکام بنادیا اور انہیں پلیٹ فارم سے دور بھگا دیا ۔تاہم بلوائیوں نے اینٹیں اور پتھر برسا کر انتقام کی آگ کو کم کیا ،انتظامیہ نےٹرین کو بہاول نگر ریلوے اسٹیشن سے بحفاظت روانہ کرکے سکھ کا سانس لیا ۔

ریاست بہاولپور بنیادی طور پر انگریز سرکار کی اتحادی ریاست تھی ۔ انگریز سرکار نے دہلی کا فا صلہ کراچی سے کم کرنے بارے جغرافیائی سروے کیا تو انگریز ماہرین نے اندازہ لگایا کہ فیروزپور سے لاہور اور پھر بہاول پور کے علاؤہ اگر فیروزپور کو بذریعہ بہاولنگر (پرانا نام روجھا نوالی) سمہ سٹہ سے ریلوے لائن کے ذریعے منسلک کیا جائے تو دہلی اور کراچی کا فا صلہ مزید کم ہوجائے گا۔ریلوے لائین بچھانے کا آغاز1881 میں ہوا ۔1894 میں ریلوے اسٹیشن تعمیر ہوئے اور ریاست بہاول پور کے قصبات سمہ سٹہ تامنڈی صادق گنج میں تکنیکی اصطلاحات مکمل کرنے کے بعدمیں دہلی تا کراچی براستہ بہاولنگر ٹرین کی آ مد و رفت1898 میں شروع ہو گئی ۔ اس وقت اگر چہ ہندوستان میں عام آدمی اس قدر پڑھے لکھے دستیاب نہ تھے تاہم نیم خواندہ پرائمری ،مڈل اور میٹرک پاس مسلمان ، ہندوؤں اور سکھوں کو بمطابق تعلیم ریلوے میں تعینات کیا گیا ۔۔

بہاولنگر کے مضافاتی ریلوے اسٹیشن پر 1947میں ایک سکھ سردار جسپیر سنگھ اسٹیشن ماسٹر تعینات تھا ۔ پاکستان کاقیام عمل میں آچکا تھا پاکستان سے ہندو اور سکھ ہندوستان جبکہ ہندوستان سے مسلمان پاکستان ہجرت کر رہے تھے ،ہجرت کا بڑا ذریعہ ٹرین تھی ۔ دورانِ ہجرت مسلمان مہاجرین سے بھری ٹرینیں مشرقی پنجاب کے شہر وں فاضلکا ، فیروزپور ہندو مالکوٹ اور ابوہر سے آ کر بہاولنگر جنکشن پر رکتی تو دیکھنے میں آتا کہ بہت سے مسلمان شہید او زخمی حالت میں ریل کے ڈبوں میں پڑے ہیں ۔ ان ہی دنوں ایک ٹرین بہاولنگر جنکشن پر رکی تو مقامی مسلمان، مہاجرین مسلمانوں کو کھانا پانی وغیرہ دینے گئے تو انہیں دیکھ کر انتہائی دکھ ہوا کہ ٹرین میں  کٹی  پھٹی، زخمی اور مردہ حالت میں نہ صرف مردوں بلکہ عورتوں کی بھی لاشیں موجود ہیں ،یہ حالت دیکھ کر مقامی مسلمان غصہ اور سکتے کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے ۔

مشرقی پنجاب میں ہونے والا مسلمانوں کا وہ قتل عام تھا ،جسے دیکھ کر امرتا پریتم نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا  تھا۔۔

اج آ کھاں وارث شاہ نوں کتوں قبراں وچوں بول۔۔

تے آ ج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول۔۔

اک روئی سی دھی پنجاب دی تو لکھ لکھ مارے وین ۔۔

وے اج لکھا ں دھیاں  روندیا ںتینوں وارث شاہ نوں کہن۔۔

اٹھ دردمنداں دیا ں دردیاں اٹھ تک اپنا پنجاب۔

اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب۔۔۔

بہرحال شہید مسلمانوں کے کفن دفن کا انتظام کیا گیا اور زخمیوں کی مرہم پٹی کی گئی تاہم کچھ مقامی مسلمان اکھٹے ہوئےاورقسمیں کھائیں کہ ہم انتقام لیں گے۔  ریاست بہاول پور کی  جانب سے ہندو اور سکھ رعایا کو ہندوستان بھجوانے کا حفاظت کے ساتھ منا سب طریقے سے انتظام کیا گیا تھا ۔سپیشل ٹرین برائے مہاجرین کی منادی کروائی گئی اور پھر ٹرین مہاجرین کو لیکر روانہ ہوئی، بہاولنگر ریلوے اسٹیشن سے جیسے تیسے کر کے تقریباً 3کلومیٹر کے فاصلے (موجودہ سب کیمپس اسلامیہ یونیورسٹی) پر ابھی سپیڈ اختیار کر رہی تھی کہ اس مقام پر مسلمان بلوائیوں کا ایک اور ہجوم ٹرین کا انتظار کر رہا تھا یہ مسلمان قریبی دیہاتوں سے اکھٹے ہوئےتھے اور انتقامی جذبے سے لبریز تھے انہوں نے ٹرین روکنے کے لئے باقاعدہ بندو بست کیا ہوا تھا درختوں کے موٹے تنے کاٹ کر ریلوے لائن کے قریب رکھے ہوئے تھے جیسے ہی ٹرین اس جگہ کے قریب پہنچی پھر چند لمحوں میں بیلوں کے ذریعے اور اپنی مدد آپ کے تحت ریلوے لائن پر درختوں کے تنے ڈال دیے گئے۔ ٹرین بمشکل ریلوے اسٹیشن سے نکلی تھی کہ اب یہ افتاد آ ن پڑی، ٹرین رک گئی۔۔ بس پھر کیا ہوا کہ مسلمان بلوائی ٹرین کے ڈبوں میں گھس گئے ان کے ہاتھوں میں تلواریں چاقو اور ڈنڈے تھے ان کے آ گے جو ہندو سکھ آ یا اس پر تشدد شروع کر دیا کچھ زخمی ہوئے قتل ہوئے اور کچھ بچنے کے لئے ٹرین سے اتر کر بھاگ گئے۔۔ ابھی یہ ہنگامہ جاری تھا کہ ٹرین کے ایک ڈبے سے ایک جوان لڑکی گرتی پڑتی دوڑتی ہوئی ٹرین کے انجن کی طرف بھاگی اس کے پیچھے چند غنڈے بھاگ کر پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے لڑکی کے کپڑے کئی جگہ سے پھٹے ہوئے تھے اور سر پر دوپٹہ بھی نہ تھا لیکن لڑکی ٹرین کے انجن تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی اور روتے ہوئے زور سے چلائی چاچا رمضان مجھے بچاؤ ۔اسی دوران انجن ڈرائیور محمد رمضان اور کوئلہ ڈالنے والے خیر محمد نے لڑکی کو دیکھا اور اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنے گلے لگا یا اور اسکے سر اور جسم کو سرخ کپڑے سے ڈھانپ دیا اور للکار کر کہا خبردار کسی نے لڑکی کو ہاتھ لگایا اس کے ہاتھ کاٹ دونگا ۔۔۔

خیر محمد نے کوئلہ ڈالنے والا کسیا اٹھا لیا جبکہ محمد رمضان ہتھوڑا اٹھا لایا، دو تین غنڈے آگے بڑھے اور کہا کہ” اے تے سکھنی ہے تسی مسلمان ہو اینوں ساڈھے حوالے کرو ،اسی انتقام لینا ہے ” لیکن رمضان اور خیر محمد نے کسیا اور ہتھوڑا لہراتے ہوئے کہا “رب دی سونہہ جیہڑا اگے ودیا اوہذندہ نہیں جائیگا تے اے ساڈے یار سردار جسپیر سنگھ دی دھی ہے تے ساڈی وی دھی ہے ” اسی اثناء میں ٹرین سے اتر کر ایک فوجی انجن کی طرف رابطے کے لئے آتا دکھائی دیا پھر غنڈے بڑ بڑاتے ہوئے انجن کیطرف سے کھسک گئے ۔ تقریباً آدھے گھنٹے تک ریل کے ڈبوں میں بلوائی لوٹ مار اور تشدد کرتے رہے بہت سے سکھ ہندو زخمی اور قتل ہوئے کچھ دیر بعد اسٹیشن کی جانب سے فوج اور پولیس کے دستے ٹرین کے قریب پہنچے تو بلوائی بھاگ گئے ۔ جب سکھ لڑکی ڈبے سے نیچے اتر کر بھاگی تو غنڈے اس کے پیچھے لگ گئے اسکاوالد سردار جسپیر سنگھ اپنے دیگر اہل خانہ کو بچانےکےلئے ڈبے سے اتر کر درختوں کےذخیرے میں چھپ گیا ۔سٹیٹ آ رمی اور پولیس نے شر پسند بلوائیوں پر لاٹھی جارج کیا اور وہ بھاگ گئے جب امن و سکون ہوا تو رمضان اور خیر محمد نے لڑکی کو ساتھ لیا اور تمام ڈبوں میں لڑکی کے والدین وکو  تلاش کیا،لیکن وہ نہ ملے ۔

ضروری سرکاری کارروائی کے بعد ٹرین کو ہندوستان کی جانب روانہ کردیا ۔لڑکی چونکہ سردار جسپیر سنگھ اسٹیشن ماسٹر کی تھی اسکا نام سخا نند تھا اسے بہاولنگر ریلوے اسٹیشن کے ایک ملازم رفیق احمد کے پاس بطور امانت سپرد کر دیا ۔ دن مہینوں میں مہینے سال میں تبدیل ہو گیا لیکن سخا نند کے والدین سے رابطہ نہ ہوسکا سخا مسلمان گھرانے میں رہ رہی تھی ریلوے اسٹیشن کے ملا زمین نے سوچا آ خر کب تک جوان لڑکی کو گھر رکھا جائے۔ رفیق احمد اور دو دیگر ملازمین نے اپنی بیویوں اور ما ؤں سے مشورہ کیا۔ لڑکی کے ماں باپ مل نہیں رہے کیا کرنا چاہیے تاکہ اس امانت اور ذمہ داری سے نمٹا جاسکے عورتوں نے کہا کہ لڑکی کی شادی کردی جائے لیکن کس سے ؟ اور مذہب بھی آ ڑے آ تا تھا۔

بہرحال مسلمان خواتین نے سخانند سے شادی بارے بات چیت شروع کر دی اور اسے سمجھایا کہ تمہارے والدین نہیں  مل رہے ہیں تو ہماری بیٹی ہے کیوں نہ تمہاری شادی کر دی جائے ؟سخانند رو پڑی ۔تاہم لڑکے کی تلاش شروع کر دی گئی ۔۔نظام دین ریلوے میں جونیئر آ فیسر تھا وہ ریلوے ریسٹ ہاؤس میں رہتا تھا اور ابھی تک کنوارہ تھا ۔رفیق احمد اور آسکی بیوی نے آ پس میں صلاح مشورہ کیا اور نظامِ دین بارے معلومات حاصل کیں ۔ کچھ دنوں بعد رفیقِ احمد نظام دین کو ساتھ لیکر ریلوے گراؤنڈ کی طرف چل پڑا اور اس سے کہا کہ تم کب تک اکیلے زندگی گزارو گے کیوں نہ تمھاری شادی کر دی جائے ،ہم نے تمہارے لئے ایک لڑکی دیکھی ہے اگر تم رضامند ہو تو شادی کروا دیں، نظام دین کو یک دم حیرت ہوئی پھر بولا آ پ میرے بزرگ ہیں خوشگوار ماحول میں گراؤنڈ سے واپسی ہوئی ۔

گھر آ کر رفیق نے اپنی بیوی کو نظام دین سے ملاقات بارے آ گاہ کیا اگلے دن رفیق کی بیوی نے سخا نندکو بچوں سے علیحدہ بلایا اور کہا کہ تیرے چاچا اور دوسرے ملازمین نے تیرے والدین کا پتہ کروایا لیکن انکا کچھ پتہ نہیں  چل رہا ہے،ہم بھی تیرے ماں باپ ہیں اب تم بڑی ہو لہذا  ہم تیری شادی کرنا چاہتے ہیں اور لڑکا تلاش کر رہے ہیں مگر تیری رضامندی ضروری ہے۔ سخا نے یہ سنا تو آ سمان کی طرف دیکھتے ہوئے رو پڑی ۔

رفیق کی بیوی ذکیہ نےسر پر ہا تھ پھیرا اور کہا ” دھی رانی تو وڈی ہو گئی ہیں ہن سیانی بن ” کچھ دنوں بعد رفیق اور نذیر ریلوے ملازم نے نظام دین سے ریلوے ریسٹ ہاؤس میں اسکے کمرے میں ملاقات کی اور کہا کہ سخانند سردار جسپیر سنگھ اسٹیشن ماسٹر کی بیٹی ہے جو کہ اپنے والدین سے دوران ہجرت بچھڑ گئی تھی اب میرے گھر رہتی ہے، جو اب میری بیٹی ہے ہم اس سے تیری شادی کرنا چاہتے ہیں۔۔نظام دین سردار صاحب کو جانتا تھا اور اسے بچھڑنے کے واقعے  سے  تھوڑا سا  باخبر  تھا، لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ سخانند رفیق احمد کے گھر رہتی ہے ۔نظام دین نے کہا آ پ میرے بڑے ہیں مگر وہ تو سکھ مذہب سے تعلق رکھتی ہے؟رفیق احمد نے کہا اس بارے میں ہم لڑکی سے بات کر یں گے ۔

کچھ دنوں بعد دونوں نے سخا نند کو بلایا کہ ہم نے تیرے لئے لڑکا پسند کیا ہے اسکا نام نظام دین ہے ریلوے میں ملازم ہے تیری مرضی پوچھنی ہے سخا خاموش ہو گئی اور اسکی آ نکھوں میں آنسو آ گئے ذکیہ سر پر  ہاتھ پھیر تے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ نظام دین نے رفیق احمد کو بتایا کہ وہ شادی کےلئے تیار ہے مگر مذہب کا فرق کیسے حل ہو گا رفیق احمد نے اسے کہا کہ وہ تھوڑا انتظار کرے ۔گھر آ کر اس نے اپنی بیوی کو نظام دین کے فیصلے سے آگاہ کیا اور مذہب والی بات بھی بتائی، آسکی بیوی نے کہا رب چنگیاں کریگا ۔

ایک دن ذکیہ نے دیکھا کہ سخا کا مزاج اچھا ہے تو اس نے کہا بیٹی میرا ایک کہنا اور مان لے ہم چاہتے ہیں کہ تیرے اور نظامِ دین میں ہربات پر اتفاق اور پیار ہو ۔میری دھی تو اسلام قبول کر لے گرو نانک جی مہاراج اور اور اسلام کی تعلیمات میں کئی قدریں مشترک ہیں توحید/ بندگی یہ سن کر سخا کی آ نکھوں میں آ نسو آ گئے اور وہ آسمان کی طرف دیکھنے لگی ذکیہ نے سخا کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پیار کیا ۔۔ایک دن ذکیہ اپنے بچوں کو کلمے یاد کرواتے ہوئے انکا ترجمہ کروارہی تھی کہ “اللہ ایک ہے، وہ ہی عبادت کے لائق ہے تمام بنی نوع انسان کا مالک ہے اور اپنے بندوں کی بات سنتا ہے “۔۔۔اسی دوران سخا بھی قریب آ کر بیٹھ گئی اور غور سے ذکیہ کی باتیں سنتے ہوئے کہا کہ رب میری مانگیں بھی سنے گا ذکیہ نے کہا کیوں نہیں رب تیری ضرور سنے گا تو بڑی بختاں والی ہے ۔ سخا رو پڑی اور پھر کہا خالہ آ پ جو کلمہ پڑھا رہی ہیں مجھے بھی پڑھادو، ذکیہ کی آ نکھوں میں خوشی سے آنسو آ گئے اس نے کلمہ طیبہ پڑھا اور سخا دہراتی گئی، بس پھر سخا اور ذکیہ آ پس میں لپٹ گئیں اور دیرتک روئیں پھر خوشی سے مسکرا اٹھیں ۔

رفیق احمد گھر آ یا تو اسے ذکیہ نے خوشی کی خبر سنائی انہوں نے مل کر سخا نند کا نیا نام فاطمہ رکھا وہ فوراً بازار سے شیرینی ،  بتاشے  اور ٹانگر لیکر آ یا، سب کا منہ میٹھا کروایا جبکہ قریبی گھروں میں شیرنی بانٹی گئی ۔ رفیق احمد نے نظام دین کو یہ خوشی کی خبر پہنچائی کہ سخانند نے اسلام قبول کرلیا،رفیق احمد اور دیگر ریلوے ملازمین نے نظام دین کو کہا کہ اب تم اپنے گھر والوں کو بلاؤ تاکہ شادی کی جاسکے نظام دین نے کہا کہ آ پ ہی میرے بڑے ہیں پھر کچھ ریلوے ملازمین اور انکی عورتوں نے نظام دین کی طرف سے بڑوں کا کردار ادا کیا اور جمعے کا دن شادی کے لئے طے ہوا۔

رفیق احمد کے گھر شادی کا اہتمام شروع ہوا، قریبی گھروں سے فاطمہ کی ہم عمر لڑکیوں نے فاطمہ کو مبارکباد دی اور شرارتیں کیں اور شام کو شادی کے گیت گا ئے ڈھولکی بجا ئی  گئی۔ ۔کئی  دن رفیق احمد گھر رونق لگی رہی پھر فاطمہ کو مایوں بٹھایااور ابٹن لگایا گیا جس سے اس کے چہرے کی رنگت نکھر گئی  ا ور چہرے پر نو ر پھیل گیا ،فاطمہ اگر چہ اس عرصے میں گھل مل گئی  تھی تاہم کبھی گہری سوچ میں مبتلا ہو جاتی تو ذکیہ فوراً اسکی توجہ کسی کام اور شادی بارے بات کرکے  ہٹا    دیتی۔

با لآخر جمعے کا دن آ ن پہنچا ۔ نظام دین چند ریلوے ملازمین ،اپنے دوستوں اور دو تین ریلوے کالونی کی بزرگ خواتین کے ہمراہ بارات لیکر آ گیا ۔باراتیوں نے ڈھول کی تھاپ پر جھومر ڈالا اور گولے بجا کر خوشی منائی ۔ رفیقِ احمد نے کھانا کھلایا ۔پھر دولہا رفیقِ احمدکے گھر گیا فاطمہ کی سہیلیوں نے دولہا کی جوتی چھپا ئی  کی رسم ادا کی اور خوب ہنسی مذاق کیا ۔ جمعے کی نماز کے بعد فاطمہ کی رخصتی عمل میں آئی۔ رخصتی کے وقت فاطمہ اپنی منہ بولی ماں اور باپ کے گلے لگ کر بہت روئی ۔ شادی میں موجود عورتیں اور مرد بھی اس موقع پر اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکے اور انکی آ نکھوں میں  آ نسو آ گئے ۔ نظام دین نے شادی کے فوری بعد ریلوے کالونی میں گھر الاٹ کروالیا ،وقت گزرتا گیا فاطمہ کے بچے ہو گئے اور وہ بڑی ہنسی خوشی سے زندگی گزار رہے تھے ،شادی کو 15سال ہو چکے تھے کہ ایک دن رفیق احمد فاطمہ کے گھر آ یا وہ اضطراب کی حالت میں تھا فاطمہ نے سلام کر کے اسے بٹھایا اور پانی کا گلاس دیا ،اس نے پانی پینے کے بعد جیب سے ایک کاغذ نکالا جو کہ خط تھا اس نے وہ خط فاطمہ کے ہاتھ میں پکڑا دیا فاطمہ نے خط کھولا اور پڑھنا شروع کر دیا، خط فاطمہ کے حقیقی والد سردار جسپیر سنگھ کی طرف سے تھا اس نے لکھا تھا پیاری بیٹی جب 1947میں بہاولنگر ریلوے اسٹیشن سے کچھ دور مسلمان بلوائیوں نے ٹرین پر حملہ کیا وہ ہمارے ڈبےمیں گھس آئے بلوائی  تجھے پکڑ نا چاہتے تھے تیرے بھاگنے اور ڈبے سے چھلانگ لگانے کے بعد ہم بھی دوسری طرف سے ڈبے سے اترکر بھا گے تو کچھ اور بلوائی ہمارے پیچھے لگ گئے بلوائیوں نے تیرے بھائیوں کو مارنے کی کوشش کی میں انکے سامنے آ گیا انھوں نے میری ٹانگ میں چاقو مارے میں زخمی ہونے کے باوجود واھ گرو کی کرپا سے تیری ماں اور بھائیوں کو بچانے کے لئے قریبی درختوں کے ذخیرے کی طرف لیکر بھا گااور ہم درختوں اور جھاڑیوں کے جھنڈ میں چھپ گئے ،کچھ دور تک بلوائیوں نے پیچھا کیا پھر وہ ٹرین کی طرف لوٹ گئے خوف اس قدر تھا کہ ہم جیتے جی مر چکے تھے میں نے چھپ کر ٹرین کی طرف دیکھا تو بلوائی لوٹ مار اور قتل کر رہے تھے لوٹ مار اور ہنگامے کے دوران ہم سب نے سوچا کہ تمہیں جان سے مار دیا گیا میں چلنے کے قابل نہ تھا ۔پھر جیسے تیسے رات گزری ہمیں پتہ ہی نہ چلا ہم دن کو چھپ جاتے اور رات کو خوف وہراس اور بھوک کی حالت میں سفر کرتے ۔کئی  دنوں بعد بیکانیر کے راستے ہندوستان پہنچے پھر تمہاری ماں تیرے غم میں بیمار ہو گئی  اور ایسی مصیبتیں پڑیں  کہ ہم کوئی  رابطہ نہ کر سکے، ایک عرصے بعد بھائی  رفیق احمد سے رابطہ ہوا تو تمھارے ذندہ بچنے کا پتہ لگا تو یہ خط لکھ رہا ہوں کہ میں تیری ماں اور تیرے بھائیوں کو لیکر رنجیت سنگھ کی سمادھی پر مذہبی تقریبات کے سلسلے میں لاہور آ رہا ہوں تم لاہور آ جاؤ فلاں دن ہم سمادھی میں تمھارا انتظارِ کریں گے اور یہ نشانیاں ہو ں گی۔

خط کا پڑھنا تھا کہ فاطمہ کی چیخیں نکل گئیں اور زارو قطار رونا شروع کر دیا بچے بھی سہم گئے اسی اثناء میں نظام دین بھی گھر میں داخل ہوا تو گھبرا گیا پھر اسکی نظر فاطمہ کے ہاتھ میں پکڑے خط پر  پڑی ۔اس نے فاطمہ کو دلاسہ دیتے ہوئے وہ خط لیا اور پڑھ کر جیب میں رکھتے ہوئے کہا کہ رو مت ہم ملنے لاہور چلیں گے ۔۔فاطمہ نے تیاری شروع کردی ،جانے کے دن تک کبھی خوشی کبھی غم کی کیفیت طاری رہی بعض اوقات کچھ سوچ کر ڈر جاتی مقررہ دن آ پہنچا فاطمہ ،نظام اور رفیق بھاولنگر سے لاہور کے لئے روانہ ہوئے فاطمہ سوچ رہی تھی کہ1947 سے شروع ہونے والا سفر اللہ جانے کب ختم ہوگا اسے لگا کہ جیسے کہیں سفر کرتے ہوئے ساری عمر رائیگاں تو نہیں گزر گئی ۔ پورے سفر میں سوچوں میں گم فاطمہ کو پتہ ہی نہ چلا کہ کب لاہور آ گیا وہ اچانک چونک گئی  جب کنڈ یکٹر نے کہا “یادگار بادشاہی مسجد سٹاپ والے مسافر اترنے کی تیاری کریں” جیسے تیسے فاطمہ نظام دین اور رفیق کے ساتھ نیچے اتری تو سڑک سے رنجیت سنگھ کی سمادھی کا مختصر سا فاصلہ اسے صدیوں پے محیط لگا فاطمہ سمادھی میں پہنچی تو پیپل کے درخت تلے اسکے ماں باپ اور بھائی کھڑے دکھائی دیئے انہیں پہچاننے میں کسی بتائی گئی نشانی کی بھی فاطمہ کو ضروت نہ رہی ۔فاطمہ دوڑتی ہوئی اپنے ماں باپ سے لپٹ گئی۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

پھر چشم فلک نے ایسا ملنا اور رونا دیکھا کہ بس ،کتنی دیر وقت کا پتہ ہی نہیں چلا پھر نظامِ اور رفیق نے نے دلاسہ دیا اور چپ کروایا ۔ فاطمہ والدین اور بھائیوں کے ساتھ ایک ہفتہ لاہور رہی ماں باپ نے اشارے کنا ئیوں میں واپس ہندوستان جانے کا کہا فاطمہ کا ایک ہی جواب تھا اب پاکستان ہی میر ا گھر ہے ۔ اس دوران رفیق احمد بھاولنگر گیا اور فاطمہ کے بچے بھی لے آ یا نانا نانی ان کے ساتھ کھیلتے رہیے۔ یوں ان کی ہندوستان واپسی کا دن آ گیا اور وہ واپس لوٹ گئے۔فاطمہ کے بھائی  سردار امر سنگھ ا ور بیلا سنگھ اعلی تعلیم کے لئے امریکہ چلے گئے اور وہاں کی شہریت اختیار کرلی اور کئ مرتبہ اپنی بہن کو ملنے بھاول نگر آئے ۔ فاطمہ اپنے مقدر پر راضی تھی آ ج فاطمہ کے بچے پا کستانی ہیں ۔ یہ “ایک” سچی کہانی نہیں ایسی ہزاروں سچی کہانیاں پاکستان اور ہندوستان کے قیام 1947 میں دونوں ملکوں کے مختلف شہروں میں رونما ہوئیں ۔ جہاں ہندو، مسلمان اور سکھ خواتین کے ساتھ بہت سے انسا نیت سوزدلخراش واقعات پیش آ ہے ۔ تاہم جہاں انسانیت زندہ رہی وہاں بلا تفریق مذ ہب ہندو ۔ سکھ اور مسلمان خواتین کی جان و عزت کو بچا لیا گیا دوسری صورت میں ایسے واقعات سانحات کا روپ دھار گئے جن کا زخم آج بھی رستا ہے ۔۔۔بھا گا والیو نام جپو مولا نام ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply