دادا جی کو جتنا اعتماد امّی پر تھا ، اتنا کسی بیٹے پر نہ تھا۔ اکثر کہا کرتے تھے ’’ یہ کم بخت جتنی زبان کی فلانی لاڑی ہے اس سے کہیں زیادہ سیانی ہے۔ میرا ایک بھی پُتر اس جیسا گُنیا نکل جاتا تو ۔۔۔۔۔‘‘۔ یہی وجہ تھی جب اُنہوں نے محسوس کیا کہ چچاوں کی شادیوں کے بعد گھر کی مکانیت بڑھتے ہوئے کُنبے کے لئے ناکافی ثابت ہو رہی ہے تو اُنہوں نے صرف امّی سے مشورہ کیا ۔ چنانچہ خدا جانے کیا کیا جتن کرکے ایک نئے مکان کا ڈھانچہ کھڑا کر دیا۔ پھر ایک دن دادا جی نے چھلکتی آنکھوں کے ساتھ ہمیں نئے مکان میں منتقل کردیا۔ اُس وقت وہ مکان تین دیواروں اور ایک چھت پر مشتمل تھا۔ بقیہ دیواریں اور پارٹیشنزامّی نے دوسال تک دن رات ایک کر کے اپنے ہاتھوں سے اٹھائیں ۔ ان دوسالوں میں میں جب بھی دیکھا امّی کو گارے میں لُتھڑا دیکھا۔ مٹّی سے اٹے اُن کے بدن پر کیچڑ زدہ چیتھڑے آج بھی آنکھوں کے سامنے لہراتے ہیں ۔ امّی کے ہاتھوں کے چھالے اور پھٹی ایڑیوں میں پھنسی مٹی اب بھی میرے دل میں نقش ہے۔
والد صاحب کی ۳۲روپے ماہانہ تنخواہ ایک بھرے پُرے کنبے کے لئے دن بدن ناکافی ہوتی جا رہی تھی۔ چنانچہ امّی نے مجھے گھر سے نکلنے کی اجازت بخش دی ۔ کراچی روانگی کے وقت سر سے بندھی دوپٹّے کی تہمت اتار کر ڈھیر ساری دعائیں دینے کے بعد امّی نے صرف ایک نصیحت کی۔۔۔۔ پُتر ! گھر کا دروازہ یاد رکھنا‘‘۔ گھر کا دروازہ تو کبھی کبھی بھول جاتا ہوں ، امّی کے مٹیالے چہرے پر لکیریں کاڑھتے دو آنسو اب بھی یاد ہیں ۔ وہ موتی کِر کر دھرتی میں جذب ہو جاتے تو شاید بھول بھی جاتا لیکن کم بخت ماں کے چہرے پر جمی مٹّی کی تہہ کو پاٹ ہی نہ سکے۔
چار سال کے بعد جب میں سالانہ رخصت پر گھر پہنچا تو ہمارے مکان میں کئی کھڑکیاں، دروازے اور کمرے اُگ آئے تھے۔ جہاں پہلے ایک بے کنڈا دیگچی ، دو خارش زدہ مگ، لکڑی کی ایگ شکستہ پرات اور گھِسی ہوئی ڈوئی پڑی رہتی تھی، وہاں الومینیم کے کئی برتن اور دیسی ساخت کے مٹی کے چند پیالے سوکھ رہے تھے۔ ’’بلّے بلّے۔۔۔۔‘‘بے ساختہ ہمارے منہ سے نکلتے نکلتے رہ گیا۔ جہاں ’’ڈھیر‘‘ ہوا کرتا تھا، وہاں اودے اودے، نیلے نیلے ، پیلے پیلے پھولوں میں بسا اک صحن سا لہلا رہا تھا۔ اس پر رنگ برنگی تتلیاں رقصاں تھیں ۔ میں نے قریبی ستون کا سہارا لے لیا۔ ورنہ ڈھیر بھی ہو سکتا تھا۔ امّی کے سر میں چاندی کے تین چار تار اور آنکھوں میں بے شمار ستارے جھلملا رہے تھے۔ اُس روززندگی میں پہلی بار میں نے ماں کے بدن پر صاف سُتھرا جوڑا اور پیروں میں نئی قینچی چپل دیکھی ۔ ہاتھوں کے چھالے دوُر اور پیروں کے گھاو بھر چکے تھے۔ مجھے میری ماں نئی نئی لگ رہی تھی۔ میں نے داداجی کے سُتےہوئے چہرے پر رونق اور چھوٹی بہنوں کے ہونٹوں پر بے وجہ مسکراہٹیں بکھرتی دیکھیں ۔ میرا چھوٹا بھائی مُنّا(صغیرخان) اتنا بڑا ہو چکا تھا کہ ماں کے پہلو سے چپکا، مجھے دیکھ کر شرم سے اینٹھ سکتا تھا۔
عموماً ماوٗں کو چھوٹی اولاد زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ لیکن امّی کو زیادہ پیار مجھ سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اڑوس پڑوس اور رشتہ دار خواتین میں وہ میرے بارے میں یہ بڑے بڑے بنڈل چھوڑا کرتی ہیں ۔ جیسے اوپر والے نے میرے پُتر کو بڑی عزت دی ہے۔۔۔۔ بڑی بڑی کلغیوں والے اُٹھ اُٹھ کر اُس سے سلام لیتے ہیں۔۔۔ کل ہی اُس نے پورا چالی بیاں روپیّہ بھیجا ہے۔۔۔۔۔ اللہ سوہنے کی مہربانی سے وہ ہوائی جہازوں کا بہوں بڑا افسر، ڈریول کلینڈر سے بھی بڑا کچھ لگا ہوا ہے۔۔۔۔ اس کے بغیر کام ہی نہیں چلتا۔ اِسّے مارے اس کو کم کم چُھٹی ملتی ہے ، ناس پِٹّے اسے نیٹ پاس بھی نہیں دیتے۔ خدا ہونی کہیں تو جِمّہ داریوں والے کام ایسے ہی ہوتے ہیں ۔۔۔،نالے نوکری کیا اور نخرہ کیا؟ ۔ دیکھ ناں بھابیئے توُ آپ سیانی بیانی ہے ، بھلا ہوائی جہازوں کا کام کوئی مجاک مشکیری تو نہیں ناں۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔اس نوع کے بنڈل چھوڑنے کا کوئی اور مقصد نہیں ہوتا، سوائے اس کے کہ لوگ اُنہیں بڑے بیٹے کی ماں کہیں۔ چنانچہ ہوا یہ کہ بیٹے کے لئے ایک ایسے گھرانے سے رشتہ مل گیا جو
حقائق کی بنیاد پر شاید نہ ملتا۔ مرادیں دیکھنے کے لئے جھٹ پٹ بیٹے کی شادی کرا دی۔ اور پھر وہی ہوا جو تقریباً ہر ماں کے ساتھ ہوتا آیا ہے ۔ ’’پرائی بیٹی نے ماں سے اُس کا بیٹا چھین لیا‘‘ ۔ ماں دن بدن چڑچڑی ہونے لگیں ۔ اس حد تک کہ ماں کی نظر یکلخت بہت تیز ہو گئی۔۔۔۔ اُنہیں سیدھی سادی اور اک پرتی بہو میں سو سو نافرمانیاں اور چالاکیاں دکھائی دینے لگیں۔۔۔۔’’میں تجھے سو پردوں میں بھی دیکھ سکتی ہوں ‘‘وہ بہو سے کہتیں’’مجھ سے کچھ نہیں چھپا‘‘ماں اسقدرباریک بین ہو گئیں کہ اُنہوں نے ’’چھِترولہ جھاڑنا ‘‘بھی ترک کردیا۔ اور لفظی چھِترول اپنا لی۔) لیکن بیٹے میں اُنہیں کبھی کوئی قصور، کوئی خامی نظر نہ آتی۔ پھر جب وہی کپتّی، اندر گُجی، نافرمان، چالاک اور مِیسنی بہوسوا سال کی بچّی کو دادی کی گود میں ڈال کر عین عالم شباب میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملی تو ماں کی دُنیا اندھیر ہو گئی۔ وہ سارا سارا دن خلا میں گھورتی رہتیں لیکن کچھ نظر نہ آتا۔ وہی ماں جو دن بھر بیٹے کے گُن گاتی اور بہو کو کوستی رہتی تھیں، رات رات بھر بہو کے لئے روتیں ۔ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اُس کی ایک ایک چیزِ ہرہر نشانی پر بوسوں اور آنسووں کی بارش کرتیں: ’’نی نصیباں پٹیے ، کاہلیے، نامرادے، نی دفان ہون جوگیے یہ توُ نے ۔۔۔۔۔۔‘‘ایک سال کے اندر اندر ٹوٹ پھوٹ کر ماں بوڑھی ہو گئیں ۔ وہ جسم جو کبھی تِیر تھا ، دیکھتے ہی دیکھتے کمان ہو گیا۔ تب سے ماں کی ساری توجہ ، سارے پیار کا مرکز پیارے بیٹے کی اولاد ہے۔
وہ انتہائی حسّاس اور زود رنج ہو گئیں ۔ لیکن امّی کی عادت ہے کہ بہت جلد معاف کر دیتی ہیں ۔ چنانچہ بڑے سے بڑا قصور کر کے بھی ہم بہن بھائی مطمئن رہتے ہیں کہ ہلکے پھلکے تپّڑ کھسڑے ،رولے غوغے کے بعد ماں معاملہ کو رفع دفع کر دیتی ہیں ۔ امی کی ایک عادت سے البتّہ ہم خوفزدہ رہتے ہیں کہ وہ ذرا ذرا سی بات پر ناراض ہو کر بھوک ہڑتال کر لیتی ہیں ۔ پھر ہمیں بچّوں کورشوت دینا پڑتی ہے کہ وہ ’’داامّاں ‘‘ کو بھوک ہڑتال ختم کرنے پر آمادہ کریں ۔ ہماری اس کمزوری کا علم شاید امّی اور بچّوں کو بھی ہے۔ چنانچہ اکثر دونوں کی ملی بھگت سے ہمیں بلیک میل ہونا پڑتا ہے۔ بلیک میلنگ کا براہ راست فائدہ بچّوں کو پہنچتا ہے اس لئے بچّے اکثر ہمیں آنکھیں دکھایا کرتے ہیں ۔ بھوک ہڑتالی کا مدعا بھی یہی ہوتا ہے۔
امّی ہنگاموں میں بہت خوش رہتی ہیں ۔ چنانچہ آئے دن گھر میں ہنگامے بپا رہتے ہیں ۔ کسی نہ کسی بہانے وہ تمام بچّوں کو گھر میں جمع کر لیتی ہیں ۔ اور جب وہ شور مچاتے ہیں تو چھڑی اٹھا کر اُنہیں مارنے دوڑتی ہیں ۔ یہ دیکھ کر کہ شور شرابے سے امّی کے سر میں درد ہونے لگا ہے، میں بچّوں کو ڈانٹتا ہوں تو امّی چھڑی اٹھا کر مجھے مارنے لگتی ہیں۔۔۔۔۔’’تمہارے باپ کا کیا کھاتے ہیں‘‘۔ کہتا ہوں امّی آپ کا مغز کھاتے ہیں۔۔۔۔ ’’نہیں پُتر! اپنا نصیب کھاتے ہیں ‘‘ نرم پڑتے ہوئے کہتی ہیں ’’اِن کو روکو ٹوکو مت۔۔۔ بچّے گھر کی رونق ہوتے ہیں‘‘۔ ٹھیک کہتی ہیں ، بچّوں اور بوڑھوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔۔۔ گھر کی نہیں ، دنیا کی ساری رونقیں ان ہی کے دم سے ہیں۔
امّی نے کارپینٹر سے ایک ایسا رحل بنوا رکھا ہے جو صندوق اور پٹاری کا کام بھی دیتا ہے۔ قراآن پاک کے علاوہ اس میں بچّوں کی مارکس شیٹیں، بِلّوں کی رسیدیں ، زمینوں کی کھتونیاں ، چیونگم ، چورن ، ریزگاری، تسبیح ، نسوار کی ڈبیا اور خدا جانے کیا الابلا بھرا رہتا ہے۔ یہیں امّی نے چابیوں کا گُچھا بھی ’’سنبھال کر ‘‘ رکھا ہوا ہے۔ گُچھّے میں اُس صندوق کی چابی بھی ہے جس میں ماں نے بادام ، کھوپرا، کاجو اور کشمش کی تھیلی چھپا کر رکھی ہے۔ ’’ضروری کاغذ‘‘ کی تلاش میں بچّے رحل کھول کر چابی اُڑا لیتے ہیں ۔ امّی کو تب پتہ پڑتا ہے جب خشک میوے کی جگہ ہاتھ میں خالی تھیلی آتی ہے۔ ’’ میں کبھی بھولتی تو نہیں ، لیکن خورے کیسے صندوق کہیں کھُلا چھوڑ دیا ۔ مخے چوہے سارے بدام ، کُل کاجو کھا گئے۔۔۔۔ اخے تھوڑے جئے ہور لے آنا۔ وعدہ رہا ،اب کبھی چابی رکھ کے نہیں بھولوں گی‘‘۔ اُنہوں نے مجھ سے جتنی بار آئیندہ چابی سنبھال رکھنے کا ازسرِ نو وعدہ کیا، اس سے کہیں زیادہ از سرِ نوعہد شکنی کر چکی ہیں۔
اسی طرح امّی کہتی ہیں ’’تم پر بڑی ذمہ داریاں ہیں بیٹے، میں خوب جانتی ہوں ۔ لیکن کیا کروں سخت ضرورت آن پڑی ہے۔۔۔۔۔‘‘۔ ذاتی ضرورت کے لئے جو کچھ مجھ سے لیتی ہیں ، وہ بچّوں کی جیبوں اور بستوں میں ٹھونس دیتی ہیں ۔ میں اُنہیں مقدور بھر آسائشیں بہم پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں ، وہ سب میرے بچّوں میں تقسیم کر دیتی ہیں ۔ مصنوعی دانتوں کے بارے میں امّی کے خیالات بڑے عجیب سے ہیں ۔ پوچھتا ہوں امّی یہ سیٹ لگائے رکھنے کے لئے ہے، لگاتی کیوں نہیں؟ تو کہتی ہیں ۔۔۔۔’’پُتر! اب اس عمر میں مجھ سے نسوار نہیں چھوٹتی۔ ہر وقت لگائے رکھوں تو خراب ہو جائیں گے۔ بس اندر باہر جانے کے لئے رکھ چھوڑے ہیں ۔‘‘ کہتا ہوں وہ جو اللہ نے موتیوں جیسے لاکھوں کے دانٹ دیئے تھے، آپ نے نسوار کی نذر کر دیئے۔۔۔۔
’’ وہ اللہ کی دین تھی، مُفت کا مال۔ ان پر تیرے تیراں چودہ ہجار لگے ہیں ۔۔۔۔‘‘۔
امّی کے سر میں اکثر درد رہتا ہے ، ایک دن مالش کرتے اور دباتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ اُن کے سر میں جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے گومڑے سے ہیں ۔ پوچھا تو ٹال گئیں ۔ زیادہ اصرار کیا تو کہنے لگیں ۔۔۔۔’’ بیٹا جب تک جان تھی ، کبھی پرواہ نہیں کی۔ اب جان ہاری تو بندوق بھاری۔ یہ وہ کانٹے ہیں جو بالن کاٹ لانے میں کبھی سر میں کھب کر ٹوٹ گئے تھے۔ ‘‘ میری کوشش ہے کہ جتنے خاز ماں کے سر میں ہیں ، اُتنے گلزار اُن کے قدموں میں کھلا دوں ۔ مگر (الحمدللہ کسی حد تک آسودہ حال ہونے کے باوجود)نِکّی بے کو ابھی تک چھُٹی نہیں ملی۔ وہ بے خوابی میں مبتلا ہیں ۔ رات رات بھر میرے لئے جاگتی رہتی ہیں
ایک مدّت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں