​کیسا پیراہن ِ یوسف ہے یہ؟۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

گورنمنٹ آف انڈیا کی گزٹ (جون 1932) کی ایک اشاعت میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں اُس وقت (22300 ) خانقاہیں یا امام باڑے تھے، جن میں کسی بزرگ ، پیر، فقیر کے مقبرے پر سالانہ عرس کا اجتماع منعقد ہوتا تھا، چڑھاوے چڑھتے تھے جن میں قربانی کے بکرے بھی شامل تھے۔ ان پر مجاور بیٹھتے تھے جو نیاز کی ر قوم یا دیگر اشیاء وصول کرتے تھے۔۔یہ نظم ایک ایسے ہی بزرگ کے مردہ جسم کی پکار ہے جسے قبر میں بھی آرام میسر نہیں ہے۔

​کیسا پیراہن ِ یوسف ہے یہ؟

کیسی چادر یہ چڑھائی ہے مری قبر پہ آج؟
میری آنکھوں کے لیے کون سا سرپوش ہے یہ؟
کیسا پیراہن ِ یوسُف ہے جو تم لائے ہو؟
میں تو تابوت کے اندر سے بھی
دیکھ سکتا ہوں کہ میرا ذہن ہے بیدار ابھی

تم جو صدیوں سے * بزرجمہروں، داناؤں  کے ساتھ
کرتے آئے ہو، وہ میرے علم میں ہے
عارفوں اور حکیموں سے تمہیں بَیر ہے، میں جانتا ہوں
ان کی تقدیس سے، تہذیب ِ نفس سے تم کو
کچھ علاقہ ہی نہیں، کوئی تعلق ہی نہیں
ان کی قبروں کو مزاروں میں بدل کر تم نے
روضہ و تربت و اہرام سجا ڈالے ہیں
تم نے ان روضوں کو جاگیر سمجھ کر ان کو
محفلوں، میلوں کے منڈووں میں بدل ڈالا ہے

میں تو بینا ہوں، مرا ذہن ہے زندہ اب تک
جانتا ہوں کہ یہ با زندگی ، یہ دھوکا دھڑی
مجھ سے بھی ہو گی ۔۔۔مجھے پیر بنا کر تم خود
ایک سجادہ نشیں ، ایک مجاورکا لباس
تاج، کفتان ، اک پا پاغ ِ ِکلاہ زر بفت
زیب و زینت سے پہن کر، بہمہ پاس و لحاظ
اک نئی پھولوں کی چادر مجھے اوڑھاؤ گے

Advertisements
julia rana solicitors

اور میں ،لحد کے اندر ہی پڑا تڑپوں گا
استخواں ہوں،مگر یہ ذہن ہے بیدار ابھی
اندھے یعقوب سے لائی گئی اس چادر کو
پیرہن ِ یوسف ِ کنعان سمجھ کر ، اپنے
ذہن کو بھی سلا دوں گا دم ِ محشر تک!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بزر جمہر : نوشیروان عادل کا مشیر جو اسے ہر معاملے میں عدل کا مشورہ دیا کرتا تھا

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply