وچھی۔۔ربیعہ سلیم مرزا

جب گاؤں کے ہر گھر میں دو دو ڈنگر ہوں تو پھر رات کو چاہے کَٹا بھونکے یا کتا اڑِنگے ۔تھکے ہاروں کی آنکھ نہیں کھلتی ۔زری کی نانی کے ہاں تو دو مجھیں اور ایک وچھی تھی ۔
بھینسیں طبعا ً سُست مزاج تھیں, مگر وچھی زریں کی طرح ۔۔۔۔اچھی نہیں تھی ۔جیسے زری ہر دسویں دن پٹوسی مار کے گاؤں آجاتی ویسے ہی وچھی گیٹ کھلا دیکھ کر بلاوجہ بتائے ویہڑے سے نکل جاتی
سوتے ہوؤں کو صبح ہی پتہ چلتا ۔
اس لئے نانی عشاء کے بعد ہی گیٹ بند کردیتی ۔۔
زری کو گیٹ بھی نہ روک سکا ۔
گڈو۔۔۔ زری کی نانی کے گوانڈ میں رہتا تھا ۔
گڈو کی زمین اور ڈنگر نانی سے دوگنے تھے لیکن وہ زری کے کزنوں کی طرح ڈنگروں کے ساتھ ڈنگر نہیں بنا تھا ۔
پہلی بار تب ملا جب گاؤں بیٹھی زری کو یاد آیا کہ آج اس کا پیپر ہے ۔نانی کو اور کچھ نہ سوجھا تو شہر دودھ دینے جاتے گڈو کی پک اپ میں بٹھا دیا ۔گاؤں کی ٹوٹی سڑک پہ اتنی تیزی سے پک اپ چلائی کہ دودھ والے برتن اچھلتے رہ گئے ۔لیکن زری وقت پہ اسکول پہنچ گئی ۔۔
پیپر کے دوران بھی سینہ سنسناتا رہا ۔
پہلی بار ایسا لگا جیسے کچھ ہے ۔
لیکن اتنی سمجھ نہیں تھی کہ کیا ہے ۔
بیالوجی کا پیپر تھا ۔
فزکس, کیمسٹری تب سمجھی جب نانی گڈو کے ساتھ شہر دوائی لینے آئی اور واپسی پہ انہیں گڈو لینے آیا۔ زری بھی کچے لسوڑے کی طرح نانی سے چمبڑ گئی ۔
دونوں پک اپ میں بیٹھنے لگیں تو نانی نے اسے پہلے بٹھایا ۔ درمیان کی تنگ جگہ میں نانی پھنس کر رہ جاتی ۔
زری ایک ٹانگ گئیر کے ادھر اور ایک اُدھر رکھ کر آسانی سے گڈو کے ساتھ سٹک گئی ۔
اب کی بار گاؤں کی ٹوٹی سڑک پہ پک اپ زیادہ نہیں اچھلی ۔گڈو ہر ٹویا ٹبہ چیک کر کے چلا رہا تھا ۔
اب نہ دودھ والے برتن اچھلے اور نہ سینہ سنسنایا ۔۔
گئیر بدلتے بدلتے سنسناہٹیں, سر سرسراہٹوں میں بدل گئیں ۔
سارے ٹوئے ٹبوں سے گذرتے گاؤں پہنچ گئے ۔
اس کے  بعد جب بھی زری گاؤں جاتی ۔آدھی رات کو گڈو کے باڑے میں ضرور جاتی۔
دونوں توڑی والے کمرے میں کوشش کرتے کہ شہر سے گاؤں کو ملانے والا راستہ ہموار ہو ۔
ایسی ہی ایک سردیوں کی ٹھنڈی رات تھی, زری دبے پاؤں گڈو سے ملنے نکلی ۔
آدھی گلی میں تھی کہ اندھیرے میں گڈو نے انارکلی کو دبوچ کر دیوار سے لگالیا ۔
بہت کوشش کی لیکن انارکلی کو دیوار میں چن نہ سکا ۔
بہتر جگہ توڑی والا کمرہ تھا ۔جہاں بوری کا تَپّڑ بچھا تھا ۔
دس پندرہ منٹ نہ ہوئے ابھی توڑی کی حدت نے شدت بھی نہیں پکڑی  تھی کہ باہر شور مچ گیا ۔
باڑے کے دروازے پہ کچھ لوگ اونچی آواز میں باتیں کر رہے تھے ۔
دونوں کے ساہ رُک گئے۔دم سادھنے کے علاوہ اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا ۔۔
گڈو رینگ کر توڑی والے کمرے سے نکلا ۔
دیوار سے چپک چپک کر گیٹ تک پہنچا ۔محلے داروں کے ساتھ زری کا نانا اور مامے کھڑے تھے ۔گڈو نے دیوار کی اوٹ سے سن گن لی ۔پتہ چلا زری کی نانے  کی وچھی کھلے گیٹ سے کہیں نکل گئی ہے ۔
گڈو نے سکھ کا سانس لیا, چپکے سے مڑا, اور ویسے ہی دیواروں سےلگ لگ کر توڑی والے کمرے میں واپس آیا ۔
اندھیرے میں گھبرائی زری کو تسلی دی کہ  باہر اُسے نہیں۔۔۔ لوگ گائے کو ڈھونڈ رہے ہیں ۔
دونوں نیویں نیویں باڑے کی پچھلی دیوار تک پہنچے ۔
گڈو جھکا اور زری اس کی کمر پہ اوپر پاؤں رکھ کر دیوار سے کود گئی ۔لیکن قسمت کی خرابی ۔۔۔۔
دوسری طرف اندھیرے میں زری کا منجھلا ماما دیوار کا ساتھ دھوتی اٹھائے مُوت رہا تھا ۔زری سیدھی مامے پہ گری ۔ماما منہ کے بل دہرا ہوگیا ۔
ہلکی پھلکی زری گرتے ہی اٹھی اور بھاگ نکلی ۔
مامے نے اندھیرے میں خود کو سہارا دے کر بمشکل اٹھایا ۔۔تو بھاگنے والے کا زمین پہ گرا دوپٹہ ہاتھ آگیا ۔
مامے کی کمر تقریباً  مفلوج ہوگئی ۔کراہتا ہوا بمشکل گڈو کے باڑے کے گیٹ تک آیا ۔
وہاں ابھی تک وچھی کی ڈھنڈیا چل رہی تھی ۔
منجھلے نے بڑے بھائی کے کان میں سرگوشی کی ۔وچھی کی تلاش کو صبح تک ملتوی کر کے گھر لوٹ آئے ۔ گھر زری کی مامی نے شوہر کی کمر پہ ٹکور کی تو نظر دوپٹے پہ پڑی ۔مامی نے دوپٹہ پہچان لیا ۔
صبح زری سے کسی نے نہ کچھ پوچھا ۔بس اگلی صبح چھوٹا ماما اسے شہر چھوڑ آیا ۔
اگلے دن جس کھیت سے وچھی ملی تھی ۔۔۔۔
ہفتے بعد اس سے کلومیٹر آگے سڑک کے ایک ٹوئے سے گڈو اَدھ مویا ملا ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply