یہ ان دنوں کی بات تھی جب مجھے نوکری کرتے ہوئے چند ہی سال ہوئے تھے تب میری شاعری کی پہلی کتاب چھپی۔ میں کالج کے زمانے سے محبت کی نظمیں کہا کرتا تھا۔ ان دنوں محبت مجھ پر ایتھر← مزید پڑھیے
وہ ایک اندھیری رات تھی شاید چاند کی آخری راتیں تھیں۔ کمپنی کا فنکشن ختم ہوتے ہوتے رات کے اڑھائی بج چکے تھے، جس وقت میں رائل پام کلب سے نکلا۔ نہر والی سڑک پر گورا قبرستان کراس کرتے ہی← مزید پڑھیے
اس بار بھی بارش نہیں ہوئی ۔۔۔ کرم دین نے اُڑتے ہوئے بادلوں کو دیکھ کے مایوسی سے آہ بھری۔ جانے یہ بارش کب ہوگی؟ کب اتنا مینہ برسے گا کہ اچھی فصل ہو اور پیٹ بھر اناج گھر میں← مزید پڑھیے
موسمِ سرما کی طویل رات کا تیسرا پہر تھا اور میں اپنے نرم گرم بستر میں گہری نیند سو رہی تھی کہ اچانک موبائل کی گھنٹی بجی۔ سیکنڈ کے چوتھے حصے میں میری آنکھ کھلی۔ ہانپتے کانپتے دل کی بے← مزید پڑھیے
تمہیں یہ نہیں پتا کہ تمہاری نظروں میں اپنے لئے پسندیدگی تو میں اسی وقت بھانپ گئی تھی جب ہم پہلی بار ملے تھے۔ اور تم ۔۔۔۔ تم تو مجھے پہلی نظر میں میرے اپنے لگے، یہی لگا کہ تم← مزید پڑھیے
آج مجھے ریٹائر ہوئے بارہ دن ہوگئے ہیں میں لان میں ہلکی دھوپ میں بیٹھی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے ایک پیراگراف پہ اٹکی ہوئی تھی کہ میرا دفتر کا چوکیدار میرے نئے اور ذاتی گھر کی نیم پلیٹ← مزید پڑھیے
افضل بھائی میرے پھوپھی زاد تھے۔ سانولے سے مسکراتی آنکھوں والے۔۔۔ آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ میں نے مسکراتی آنکھوں والے کیوں کہا؟ میں انہیں ساری عمر ہنستے نہیں دیکھا قہقہہ تو بالکل بھی بھی نہیں۔۔۔ البتہ بہت ہنسنے← مزید پڑھیے
وہ دوپہر سے ہی سر پکڑے روئے جا رہی تھی ابھی سرمد کے آنے میں خاصا وقت تھا۔ شاید اس کے آنے پر ہی معاملہ کچھ سلجھے۔۔۔۔ لیکن مسئلہ اس حد تک پریشان کن تھا کہ وہ ابھی سے خاصی← مزید پڑھیے
وہ غالباً 8 جنوری 2012 کی دھندلکی شام تھی۔ جب اچانک میرے موبائل پر اس کا میسیج آیا ” اگر تم فارغ ہو تو کال کرلوں؟” اس سے پہلے کہ میں رپلائی ٹائپ کرتی اس کا فون آگیا۔ حال احوال← مزید پڑھیے
جب مجھے یہ احساس ہوا کہ مجھے واقعی اس سے محبت ہے تو ہماری طلاق کو 23 دن گزر چکے تھے۔ ان 23 دنوں میں مَیں خاصا مصروف رہا اور کچھ سوچنے کا وقت ہی نہ ملا۔ طلاق کے پیپرز← مزید پڑھیے
مانوس خوشبو کا ایک جھونکا اس نے محسوس کیا۔ ۔ چونک کر ادھر ادھر دیکھا۔۔۔۔ وہی خوشبو تھی۔ ایک لمحے کیلئے اس کی سانس رُک سی گئی۔ ٹانگوں نے اس کا بوجھ برداشت کرنے سے انکار کردیا۔ وہ قریبی کرسی← مزید پڑھیے
میری نیلی جھیل۔۔ تمام عمر اکیلے میں تجھ سے باتیں کیں، تمام عمر تیرے رُوبرو خاموش رہے۔۔۔ میری زندگی کی حماقت ۔۔۔۔ تم میرے لئے شفیق الرحمان کے افسانے نیلی جھیل جیسے ہی ہو۔ جو صرف دور سے ہی بہت← مزید پڑھیے
رات کھانے کے بعد نیند کی گولی نگلنا سجاد کا معمول تھا۔ اس کی ریٹائرڈ زندگی کا محور چند کتابیں، پرانی یادیں اور اس کے خیالات تھے۔ کم گو تو وہ ہمیشہ سے تھا لیکن اب وہ ضرورت کی بات← مزید پڑھیے
اس کی طبعیت کچھ بوجھل تھی۔اور گھر کا ماحول میں جھجھک ہونے کی وجہ سے اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس بوجھل پن کی وجہ ماں کو کیسے بتائے۔۔۔۔ وہ ایک مقامی لیڈی ڈاکٹر کے پاس گئی← مزید پڑھیے
“لو یہ کھا لو۔” “یہ کیا ہے؟ ” “Safety measure” “اس کا مطلب ہے کہ تم نے پھر کوئی احتیاط نہیں کی”۔ “نہیں۔۔۔۔۔ اگر احتیاط کے بارے میں سوچتا تو اتنا پرسکون کیسے ہوتا” “اگر مجھے کچھ ہوگیا تو۔۔۔۔۔” اس← مزید پڑھیے
جب اسے ہوش آیا تو زمین پر ہر طرف لاشیں اور خون بکھرا ہوا تھا۔ جابجا انسانی اعضاء ارد گرد پھیلے ہوئے تھے۔ چاروں اطراف میں ایمبولینسوں کے سائرن گونج رہے تھے۔ چیخیںں ، آہ و پکار مچی ہوئی تھی← مزید پڑھیے