آج مجھے مرے ہوئے ایک سال کا عرصہ بیت گیا ہے آج میری Death anniversary ہے کاش آج مجھے فرصت مل ہی جاتی تاکہ میں اپنی بغیر کتبے والی پرانی قبر پہ جا کر اپنے لئے فاتحہ پڑھ پاتا← مزید پڑھیے
مجھے یہاں لائے ہوئے اُنیس دِن گزر چکے ہیں عموماً یہاں کوئی بھی لاش اتنے دن تک نہیں رکھی جاتی ،مگر پتا نہیں مردہ خانے والے مجھ پر اتنے مہربان کیوں ہیں؟ زیادہ تر لاشیں ان کے ورثاء چند← مزید پڑھیے
وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ یہ ایک سیٹی نما شور تھا جس سے اسے اپنے دماغ میں ٹیسیں اٹھتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ مکمل ہوش میں آتے آتے اس نے لا شعوری طور پر اپنے نتھنوں کو سکیڑا۔← مزید پڑھیے
” بولنے کیلئے اللہ نے سب کو زبان دی ہے ۔ مگر تمہیں پتا ہے مانوی کی آنکھیں کلام کرتی تھیں ۔ پورے گوٹھ میں ایسی آنکھیں کسی کی بھی نہیں ہوں گی۔جیسی مانوی کی تھیں ، گہری سبز بولتی← مزید پڑھیے
نو دس سال کی فاطمہ جھلونگا چارپائی کی ادوائن پر بیٹھی تھی سیلاب زدگان ریلیف کیمپ خیمہ بستی میں۔۔ سوچوں میں گم ۔۔۔ایک ہاتھ سے بوڑھی دادی کے منہ سے مکھیاں ہٹاتی تھی اور ٹانگوں سے چھوٹی بہن کی جھلونگی← مزید پڑھیے
اُردو کے طالب علموں کا ایک سچا افسانہ سردیوں کی خوشگوار دھوپ اپنی نرم گرم کرنیں ماں کی محبت کی طرح بلا معاوضہ ہر ایک کو دان کر رہی تھی ۔ ہر وہ چیز جس پر یہ مہربان کرنیں پڑتیں← مزید پڑھیے
اب میں اپنے اجڑے دل کے ساتھ، سونے در و دیوار کے بیچ پہروں بیٹھی سوچتی ہوں کہ ہم لوگ آنے والے بچے کے لیے لفظ “مہمان “کیوں استعمال کرتے ہیں؟ مہمان کو تو جلد یا بدیر رخصت ہی ہونا← مزید پڑھیے
آج کی صبح بھی روز ہی جیسی چبھتی ہوئی تھی۔ وہی غصیلا قہر برساتا سورج، نروٹھی ساکت ہوا اور کائیں کائیں کرتے ہوئے سمع خراش کؤے۔ شہر ہے یا کنکریٹ کا جنگل، درخت ناپید سو کانوں کا مقدر چڑیوں کی← مزید پڑھیے
“سر جی، یہ لوگ خودکشی کیسے کر لیتے ہیں؟” وہ آج تین دن بعد آفس آیا تھا اور اپنے خیالوں میں کھویا مجھ سے پوچھ رہا تھا۔ ” مرنا تو آسان نہیں ہوتا۔ یہ تو بڑا مشکل کام ہے۔ انسان← مزید پڑھیے
بچپن میں ہم دونوں قاری ولی صاحب کے حجرے اور ماسٹر ریحان صاحب کے سکول میں اکٹھے پڑھتے تھے۔ ہمیں شرارت اور چھیڑ چھاڑ کرنے پر ہمیشہ مار بھی کھانی پڑتی تھی۔ اس نے جماعت پنجم کے بعد سکول کو← مزید پڑھیے
بوڑھے درویش نے اپنی لاٹھی سے زمین پر ایک دائرہ کھینچا اور مجھے کہنے لگا، جانتے ہو یہ کیا ہے؟ میں نے کہا یہ دائرہ ہے- وہ مسکرا کر بولا حسابی زبان میں یہ دائرہ ہی ہے اور تم جیسے← مزید پڑھیے
بوڑھے برگد نے چونک کر سر اٹھایا اور مجھے دیکھا۔ اس کی بوڑھی آنکھوں میں ایک غیر معمولی چمک ابھری وہ سامنے دیکھتا ہوا محسوس ہوا لیکن یوں لگ رہا تھا اس کی نظر سامنے نہیں کہیں اور ہے۔۔ عشق← مزید پڑھیے
میں اپنا سکول دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔وہی سکول جہاں سے میں نے دسویں پاس کی تھی! وہ دور افق کی جانب دیکھتے ہوئے بولا- لیکن اب اتنے سالوں بعد تم وہاں کیوں جانا چاہتے ہو، ایسا کیا ہے وہاں پر؟ میں← مزید پڑھیے
ڈیڈوِل اسٹیشن پہنچتے ہی سروے افسر گلیب سمرنوف نے دیکھا کہ وہ فارم جس کا اس نے جائزہ لینا تھا ابھی بھی تیس یا چالیس میل کی دوری پر تھا۔ اگر کوچوان نے پی ہوئی نہ ہو اور گھوڑے چاق← مزید پڑھیے
کیا تم نے کبھی تجریدی مصوری جسے ایبسٹریکٹ آرٹ کہا جاتا ہے دیکھی ہے؟ میں نے اس سے سوال کیا۔۔۔ میں بذات خود ایبسٹریکٹ آرٹ کا ایک شاندار نمونہ ہوں، مجھے اور کچھ دیکھنے کی فرصت ہی نہیں، اس نے← مزید پڑھیے
پائڈ پائپر کا نام تو تم نے یقیناً سنا ہو گا ۔۔۔۔ اچانک وہ اپنے سامنے سے ایک مشہور افسانوی کتاب کو ہٹاتے ہوئے بولی۔ لائبریری کے مرکزی ہال میں کچھ دیر پہلے وہ میرے سامنے والی کرسی← مزید پڑھیے
سیٹھ صاحب ایک نہایت عالی شان ہوٹل کے ایک پُرتعیش کمرے میں شیشے کی دیوار کے سامنےکھڑے باہر کا منظر دیکھ رہے تھے۔ ان کا چھ سالہ صاحب زادہ ان کے ساتھ ہی کھڑا تھا۔اس نے اپنی آنکھوں سے ایک← مزید پڑھیے
(برسات کی ایک بارش زدہ شام جب وہ اپنے دوست کو الوداع کہہ کر گاؤں کے ایک بوڑھے آدمی کے ساتھ بارش میں بھیگتا ہوا شہر جانے والی مرکزی شاہراہ کی جانب گامزن تھا تو اس نے بوڑھے سے پوچھا،← مزید پڑھیے
امی !قیصر صاحب کون ہیں ؟ چھوٹی کے لہجے میں کچھ ایسا ضرور تھا جس نے مجھے چونکا دیا ۔ کیا؟ کون قیصر ؟ میں اچھنبے میں تھی۔ بہت ذہن دوڑایا، یاداشت کو کھنگالا پر← مزید پڑھیے
اب جس برس اُس نے بتایا کہ اُسے ٹھنڈے کمرے میں سونے کی خواہش ہے تب وہ جھونپڑی میں اپنی کانی بیوی اور اپاہج بیٹی کے ساتھ تھا۔ پھر ایک رات بس سے اُترتے ہوئے اُسی بس کے ٹائروں تلے← مزید پڑھیے