آملیٹ/نور بدر

وہ ناشتے کے بعد برتن دھو کر باورچی خانہ سمیٹ رہی تھی جب کسی نے دھڑا دھڑ دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس نے تیزی سے ہاتھ صاف کیے اور باہر کو لپکی۔ اماں پڑوس کی خالہ صغریٰ کے ہاں گئی ہوئی تھیں اور بلال کالج جا چکا تھا۔ ابّا اپنے دفتر تھے جس کے باعث وہ گھر پر اکیلی تھی لہٰذا دروازہ اسی کو کھولنا تھا۔ دروازہ کھولتے ہی وہ حیرت زدہ رہ گئی۔ سامنے اس کی کالج کی ایک ساتھی ‘راحت’ کھڑی تھی۔ راحت اس کی دوست نہیں تھی صرف کالج میں اس کے ساتھ پڑھتی تھی۔ دونوں کا ڈیپارٹمنٹ بھی الگ تھا مگر اس کے باوجود اتنی صبح اس کا اس طرح گھر آجانا کچھ عجیب سی بات تھی لیکن بہرحال وہ اسے اندر لے آئی۔ وہ اندر آتے ہی بڑے تپاک سے اسے ملی جس کی اسے ہرگز توقع نہیں تھی۔ ساتھ ہی ساتھ اس نے ایک بڑا سا شاپنگ بیگ اسے تھما دیا۔
”یہ لو، خاص تمہارے لیے چاکلیٹ کیک لے کر آئی ہوں۔“ اس نے بڑے جوش سے کہا۔ کچھ حیران ہوتے ہوئے وہ کیک کا ڈبہ باورچی خانے میں لے آئی مگر اس سے پہلے کہ وہ باہر نکلتی راحت وہاں پہنچ چکی تھی۔ ایک بار پھر اس نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا۔ کچھ تھا جو غیر معمولی تھا۔ اس کے لاشعور میں خطرے کی گھنٹی بج رہی تھی مگر کوئی سرا اس کی پکڑ میں نہیں آ رہا تھا۔
”ناشتہ کر لیا تم نے؟“ راحت کی آواز سن کر وہ چونکی۔
”ہاں کر لیا بلکہ بہت دیر پہلے کر چکے ہیں۔“
”لو، میں سوچ رہی تھی تمہارے ساتھ ناشتہ کروں گی، میرے لیے ناشتہ بنا دو گی؟“ راحت بڑے مان سے پوچھ رہی تھی۔
”ہاں کیوں نہیں۔“ اپنی پریشان سوچوں کو جھٹکتے ہوئے اس نے فریج سے آٹا نکالا۔
”پراٹھے بنا دینا میرے لیے۔۔۔تین۔“
”تین؟“ اسے جیسے جھٹکا سا لگا۔
”ہاں عام طور پر میں دو پراٹھے کھاتی ہوں لیکن آج بھوک کچھ زیادہ ہے۔“ راحت نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔ اس کے انداز میں کچھ عجیب تھا لیکن وہ اس وقت اس کا تعین نہیں کر سکی۔
”اور دو انڈوں کی آملیٹ۔۔۔پیاز ڈال کے۔“ راحت نے یوں ہدایت دی گویا کسی ہوٹل پہ بیٹھی ہو۔
”تم فرائی انڈہ نہیں کھاتی؟“ نایاب نے پوچھا۔
”کھاتی ہوں مگر آج آملیٹ کھاؤں گی۔ پیاز کو زیادہ پکانا مت، مجھے تھوڑا کچا پیاز پسند ہے۔“
پیڑہ بناتے بناتے ایک دم اس کے ہاتھ رکے۔
”امام صاحب نے کہا ہے چالیس دن تک انڈے اور کچے پیاز سے مکمل پرہیز کرنا ہوگی۔“ اماں کی بات اس کے ذہن میں گونجی۔
”اب اس کی کیا ضرورت ہے امی۔“ اس نے فوراً سوال کیا تھا۔
”ضرورت ہے۔ یہ جو گھر بھر میں وقت بے وقت آہٹیں سنائی دیتی ہیں بیٹھے بٹھائے چیزیں گم ہوجاتی ہیں، یہ سب جنات کی وجہ سے ہے۔ کہا بھی تھا سالوں سے بند پڑے اسٹور کو مت کھولو مگر تمہیں اور تمہارے ابّا کو چین نہیں تھا۔ نجانے کیا تھا وہاں کہ اسٹور کھلتے ہی ہمیں آسیب نے آ لیا۔“ اماں بولے چلی گئیں۔
”خواہ مخواہ نیا وہم پال رہی ہیں آپ، ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔“ نایاب نے تاسف سے کہا۔
”اچھا کچھ بھی نہیں ہے تو تمہارے جہیز کے ٹرنک سے نئے جوڑے کہاں غائب ہوگئے اور وہ جو فریج میں دودھ کا برتن خالی ملا تھا اس میں سے دودھ کہاں چلا گیا تھا؟ یہ سب وہم ہے میرا؟“
”ہو سکتا ہے آپ کپڑے کہیں اور رکھ کر بھول گئی ہوں۔ اور اسی طرح دودھ ختم ہوگیا ہوگا اور بے دھیانی میں خالی برتن فریج میں پڑا رہ گیا۔ ایسا ہوجاتا ہے امی…“ اس نے احتجاج کیا۔
”پاگل نہیں ہوں میں جو ایسے وہم ہوتے ہیں مجھے۔“ نایاب کی بات سے انہیں غصہ آگیا۔ ”امام صاحب نے بتایا ہے گھر میں جنات ہیں جو یہ سب کر رہے ہیں۔ خاص تاکید کی ہے انہوں نے کہ پانچ وقت نماز کے علاوہ ان کی بتائی ہوئی دعائیں بھی پڑھیں سب اور چالیس دن تک انڈے اور کچے پیاز سے پرہیز کریں۔“
”اف اماں بہت وہمی ہوتی جا رہی ہیں۔“ اس نے زیرِ لب کہا مگر چونکہ وہ سوچ چکی تھیں اس لیے ان کے مطابق امام مسجد کی تاکید پر عمل کرنے میں ہی عافیت تھی۔ اور آج یہ سب کرتے ہوئے چھتیسواں دن تھا لیکن اس دوران نہ تو کوئی آہٹ سنائی دی نہ ہی دوبارہ کوئی چیز گم ہوئی۔
”جلدی کرو مجھے بہت بھوک لگی ہے۔“ راحت کی آواز پر وہ چونکی اور پراٹھے بنانے لگی۔ اسے اس طرح راحت کا بے تکلف ہونا کھَل رہا تھا۔ جب تک وہ ناشتہ بناتی رہی راحت وہیں باورچی خانے میں بیٹھی اس کے ساتھ باتیں کرتی رہی گویا وہ اس کی برسوں پرانی اور گہری سہیلی ہو۔ پہلے تو نایاب صرف ہوں ہاں کرتی رہی لیکن جلد ہی وہ اس کی اپنائیت سے مانوس ہوگئی۔
”تم بھی آؤ نا۔ کھاؤ میرے ساتھ۔“ راحت نے اصرار کیا۔
”ارے نہیں میں ناشتہ کر چکی ہوں اب مزید گنجائش نہیں۔“ اس نے سہولت سے منع کیا لیکن راحت بھی کہاں ٹلنے والی تھی۔
”تھوڑا سا تو لو نا۔ یہ لو ایک نوالہ ہی لے لو۔“ اس نے جھٹ ایک نوالہ بنا کر اس کے سامنے کیا۔ اب نایاب کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ ایک کشمکش کی کیفیت میں اس نے راحت کے ہاتھ سے نوالہ لیا اور ہچکچاتے ہوئے کھالیا۔ ناشتے کے بعد کافی دیر تک وہ دونوں باتیں کرتی رہیں۔ راحت بہت ہنس مکھ اور باتونی تھی اور اسے اس بات کا اندازہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ وہ کبھی کالج کے قصے تو کبھی لطیفے سنا کر نایاب کو ہنساتی رہی۔
اماں ابھی تک نہیں لوٹی تھیں یوں بھی خالہ صغریٰ کے ساتھ ان کی گاڑھی چھنتی تھی۔ دونوں مل بیٹھتیں تو سب کچھ بھول جایا کرتی تھیں۔
”تم نے کیک تو کھایا ہی نہیں نکال کر لاؤ نا۔“ راحت نے اچانک کہا اور وہ پلیٹوں میں کیک نکالنے لگی۔ راحت کی طرف پشت کیے وہ کیک کاٹ رہی تھی جب اسے ایک انجانا سا احساس ہوا۔ اچانک اس نے پلٹ کر دیکھا تو راحت ٹکٹکی باندھے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ ایک لمحے کو اسے خوف سا محسوس ہوا لیکن اس نے سر جھٹک کر منہ پھیر لیا۔ اگلے چند لمحوں میں ایک پلیٹ راحت کے سامنے رکھتے ہوئے وہ اپنی پلیٹ ہاتھ میں پکڑے اس خوف کے احساس کو بھول چکی تھی۔
”مجھے پتہ تھا تمہیں چاکلیٹ بہت پسند ہے۔“ راحت نے اسے رغبت سے کھاتے دیکھ کر کہا۔
”لیکن تمہیں کیسے پتہ۔“ نایاب نے پوچھا
”بس دیکھ لو ہم ساری خبریں رکھتے ہیں۔“ اس نے پراسرار انداز میں کہا لیکن اس سے پہلے کہ نایاب اس کے انداز پر غور کرتی کچھ دور پڑے فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ اس نے اپنی پلیٹ ہاتھ میں پکڑے پکڑے جا کر فون اٹھایا۔
”ہیلو! نایاب! کیسی ہو؟“ دوسری طرف اس کی دوست ماہم تھی۔
”میں ٹھیک ہوں تم سناؤ۔“
”ہاں یار میں بھی ٹھیک ہوں۔ تمہیں یاد ہے ہمارے کالج میں ایک لڑکی ہوتی تھی راحت۔۔۔ بڑی چلبلی سی لڑکی تھی اس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔“
”کیا؟“ نایاب کی سانس حلق میں اٹک گئی۔
”میں نے ابھی اس کے گھر بھی فون کر کے پتہ کیا ہے کافی چوٹیں آئی ہیں اسے اور وہ آئی سی یو میں ہے۔ تم چلو گی اس کی عیادت کرنے؟“ ماہم کی بات سن کر لاشعوری طور پر اس کی نظر راحت کی طرف اٹھی جہاں سوائے پلیٹ میں پڑے کیک کے ٹکڑے کے کچھ نہ تھا۔ اس کی اپنی پلیٹ جانے کب کی ہاتھ سے چھوٹ چکی تھی۔ تب ہی اسے ماہم کی آواز سنائی دینا بند ہوگئی۔ دھواں دھواں ہوتی نظروں سے اس نے اردگرد دیکھا مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔ ہر طرف مکمل سکوت چھا چکا تھا سوائے اس کی دھڑکن کے جو کسی کلاک کے پینڈولم کی طرح گونجتی ہوئی اسے سنائی دے رہی تھی ٹِک ٹاک ٹِک ٹاک۔ پھر اس آواز میں ایک اور آواز شامل ہوگئی۔ کسی کی تیز سانسوں کی آواز۔۔۔ اس نے قدم بڑھانے کی کوشش کی لیکن اس کا وجود گویا منجمند ہوچکا تھا۔ ایسے میں اسے وہ گرم سانس اپنی گردن کی پشت پہ محسوس ہوئی اور ایک ٹھنڈا یخ مادہ اسے اپنے سر سے پورے وجود میں سرایت کرتا محسوس ہوا۔ وہ لڑکھڑا کر گری اور فرش پہ گرتے گرتے اسے ایک سرگوشی سنائی دی ”دو انڈوں کی آملیٹ۔۔۔پیاز ڈال کے۔“ اور ہر طرف اندھیرا چھاگیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply