سود مند/نور بدر

بلاشبہ وہ بہت مسحور کُن شخصیت کی مالک تھی، زندگی سے بھرپور۔۔۔جہاں جاتی ایک رونق سی آجاتی۔ دلوں کو گرما دینے کی طاقت تھی اس میں۔ اللّٰہ نے اسے خوبصورتی کے ساتھ ساتھ کشش سے بھی نوازا تھا اور پھر ادائیں ایسی کہ سامنے والا مر مٹنے کو تیار ہوجاتا۔ بڑی بڑی کشادہ آنکھیں جس پہ ٹھہر جاتیں اس کی دھڑکنیں تھم جاتیں، اٹھتے قدم رک جاتے۔ ایک بھرپور مسکراہٹ اس کے چہرے کا خاصہ تھی۔ قہقہے کچھ ایسے بلند و بانگ نہ تھے کہ بدتہذیبی کہلاتے مگر خالص اور زندگی سے بھرپور تھے۔ وہ بڑھتے جانے کی قائل تھی کسی کے لیے رکتی نہ تھی۔ پانی کی سی خاصیت لیے وہ اپنا راستہ خود بناتی تھی۔ بولتی تو اتنے اعتماد سے کہ سننے والا من و عن یقین کرلے۔ وہ ایسی ہی تھی زندہ دل ۔ دل کی آواز سننے والی، آسمان پہ نظر رکھنے والی، اونچی اڑان بھرنے والی، پراعتماد۔

 

 

“معاشرے کے لیے لڑکیاں زیادہ سود مند ہیں یا لڑکے؟” پروفیسر غضنفر نے سب کے سامنے سوال رکھا۔ ایک لمحے کے لیے کلاس میں خاموشی چھا گئی پھر ہلکی ہلکی کھسر پھسر شروع ہوگئی۔
“سر میری نظر میں مرد کو اللّٰہ نے عورت کی نسبت زیادہ قابلیت دی ہے اس لیے معاشرے کے لیے سود مند تو مرد کو ہی ہونا چاہیے۔” کلاس کے ذہین فطین لڑکے نے اپنی رائے دی۔ لڑکیوں میں ایک شور سا مچ گیا۔

“قابلیت کسے کہتے ہیں مسٹر آپ سالانہ رزلٹ اٹھا کر دیکھ لیں ہر سال بڑی تعداد میں اچھے نمبروں سے پاس ہونے والی لڑکیاں ہوتی ہیں اور زیادہ تر لڑکے یا تو فیل ہوتے ہیں یا رعایتی پاس۔ مختلف اداروں کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہے۔ زندگی کا کون سا شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں لڑکیاں داخل نہیں ہو چکیں۔” پیچھے بیٹھی لڑکیوں میں سے ایک نے تند لہجے میں کہا۔

“سر مرد کو اللّٰہ نے جسمانی طور پر مضبوط بنایا ہے اور اس میں برداشت بھی عورت کی نسبت زیادہ ہے تاکہ وہ اپنے حصے کے کام احسن طریقے سے کر سکے۔” ارسلان ایک بار پھر بولا۔
“اور اسی طاقت کا ناجائز استعمال کر کے مرد عورت کو دبانے کی کوشش کرتا ہے اس کے حقوق پامال کرتا ہے۔” ایک تیز طرار لڑکی بولی۔

“یہ سراسر غلط بیانی ہے سر کہ مرد میں عورت سے زیادہ قوت برداشت ہے برداشت کا مادہ عورت میں مرد سے کہیں زیادہ ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں عورت جتنا بھی ظلم سہہ رہی ہے اس کے پیچھے زیادہ ہاتھ مرد کی عدم برداشت کا ہے۔ عورت جو بڑی بڑی باتیں برداشت کر جاتی ہے مرد نہیں کر سکتا۔” ایک اور لڑکی جوش سے بولی۔

وہ اگلی سیٹ پر بہت پرسکون سی اپنی انگلیوں میں بال پوائنٹ دبائے سوچنے کے انداز میں بیٹھی دونوں طرف کے دلائل سن رہی تھی اور مسکرا رہی تھی۔ ابھی تک اس نے اس بحث میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اتنے میں ایک اور لڑکا بول اٹھا۔

“سر میں یہ سمجھتا ہوں عورت کو اللّٰہ نے عقلی اعتبار سے بھی مرد سے ایک درجہ پیچھے رکھا ہے اور اس کا سب سے بڑا ثبوت عورت کا حقوق نسواں کے نام پر مچایا جانے والا ہنگامہ ہے۔” وہ بڑے تحمل سے بول رہا تھا لیکن اس کی اس بات سے لڑکیوں میں ایک بار پھر شور مچ گیا۔

“اگر مرد عورت پر حکمران بن کر نہ بیٹھ جاتا تو عورت کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے گھر سے نہ نکلنا پڑتا اور ابھی کس برداشت کی بات کی جا رہی تھی مرد سے عورت کا وجود تو برداشت نہیں ہوتا وہ اس کی برابری تو برداشت نہیں کر سکتا اسی لیے چار دیواری میں اسے قید کرنا چاہتا ہے۔” وہ فیشن ایبل سی لڑکی تنک کر بولی۔

“دیکھیں یہ علمی بحث ہے اس لیے تحمل سے کام لیں اور غصے کی بجائے دلائل سے بات کریں” سر غضنفر نے مداخلت کی۔

“سر یہ حقوق والا بھی ایک ڈرامہ ہے۔ دیکھا جائے تو جو ذمہ داریاں اللّٰہ نے عورت کے لیے مخصوص کی ہیں انہیں چھوڑ کر اگر وہ مردوں کے ساتھ کام کرنا چاہے گی تو معاشرے کا نظام برباد ہو کر رہ جائے گا۔” کلاس کا شرارتی لڑکا فہد بھی اس بحث میں شامل ہوگیا۔

“اصل بات تو یہ ہے کہ مرد عورت کو آگے بڑھنے دینا ہی نہیں چاہتا اسے گھر میں قید رکھ کر اسے اس کے حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ یہ کہاں کی انسانیت ہے کہ آپ اس طرح سے عورت کا جینا دوبھر کر دیں، وہ اپنی مرضی سے نہ کچھ کر سکے نہ کچھ پہن اوڑھ سکے۔” ایک اور بھڑکتا سا جواب لڑکیوں کی طرف سے آیا۔ وہ خاموش بیٹھی کبھی ہونٹوں کو سکوڑتی کبھی آنکھیں گھما کر ادھر ادھر دیکھتی ساتھ بیٹھی اس کی دوست نے کہنی مار کر اسے متوجہ کیا اور بولنے کا اشارہ کیا لیکن وہ خاموش رہی۔ اتنے میں ایک اور لڑکی نے بات بڑھائی

“میرے خیال میں عورت بھی معاشرے کے لیے اتنی ہی فائدہ مند ہے جتنا مرد لیکن اسے اپنی قابلیت دکھانے کا موقع نہیں دیا جاتا حالانکہ وہ یہ فرائض بخوبی انجام دے سکتی ہے اور ویسی ہی قابلیت رکھتی ہے جیسی کہ مرد۔”

“سر یہ تو اللّٰہ کی تقسیم ہے عورت مرد کی برابری چاہتی ہے لیکن جتنے بھی اہم عہدے ہیں سب مردوں کو عطا کیے گئے ہیں۔ جتنے بھی انبیاء ہیں اولیاء ہیں سب مرد ہیں اس کے علاوہ جانے مانے سائنسدان، فلسفی اور تبلیغ کرنے والے زیادہ تر مرد ہی ہیں۔” ارسلان نے کہا۔

“لیکن ان سب کو جنم تو عورت نے دیا، تربیت تو عورت نے ہی کی اور پھر حضرت رابعہ بصری کو کیوں بھول جاتے ہیں آپ۔ وہ بھی عورت تھیں لیکن ولی اللّٰہ تھیں۔” لڑکیاں ہارنے کے موڈ میں نہیں تھیں سوائے اس کے باقی سب بڑھ چڑھ کر بول رہی تھیں لیکن وہ صرف سن رہی تھی مسکرا رہی تھی۔

“محترمہ بات اگر تربیت کی ہے تو یہ مت بھولیں کہ نظرو علی ناریجو کی ماں بھی ایک عورت تھی، سو بچوں کو بیدردی سے قتل کر دینے والے جاوید اقبال کی تربیت بھی ایک عورت نے کی تھی۔ اس کے علاوہ عامر قیوم، اجمل قصاب، عزیر بلوچ، رحمان ڈکیت اور ان جیسے بےشمار لوگوں کی پرورش کسی نہ کسی عورت کے ہاتھوں ہی ہوئی تھی پھر یہ لوگ اتنے بے راہرو کیسے ہوگئے؟ آپ حضرت رابعہ بصری کی مثال دینا نہیں بھولتیں آپ یہ بھی یاد رکھیں نا کہ فرانس کی شارلٹ کوڈے، آئرلینڈ کی این بونی، انڈیا کی پھولن دیوی اس کے علاوہ بونی پارکر اور ان جیسی بہت سی دوسری جو دنیا میں دہشت کی علامت بنی رہیں اور جنہوں نے خوف و ہراس پھیلا رکھا تھا سبھی خواتین ہی تھیں۔” فہد نے لمبی چوڑی فہرست گنوا دی۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ پری زاد بول اٹھی:
“جو ہم نہ ہوں تو زمانے کی سانس رک جائے
قتیل وقت کے سینے میں ہم دھڑکتے ہیں”

کئی دل ایک ساتھ دھڑکے۔ وہ سماعتوں کو بیدار کر دینے والی زبانوں کو گنگ کرنا جانتی تھی۔ وہ چاند جیسی تھی خواہش کا مرکز پہنچ سے دور۔ بے دھڑک ہو کر بات کرتی لیکن سامنے والے کو ایک حد سے آگے نہ بڑھنے دیتی۔ بے تکلفی کے باوجود ایک فاصلہ موجود رہتا۔

“یہ درست ہے کہ پھولن دیوی اور بونی پارکر جیسی عورتوں کو ان کی پھیلائی دہشت کے باعث دنیا یاد رکھے ہوئے ہے لیکن آپ ایڈا لَولیس کو بھی یاد رکھیں جو پہلی کمپیوٹر پروگرامر مانی جاتی ہے، طبیعات دان اور کیمیا دان میری کیوری کو بھی مت بھولیں۔ ماہرِ نباتات جانکی امل کو بھی یاد رکھیں۔ روزالنڈ فرینکلن، کیتھرین جانسن اور ویرا رابن جیسی بےشمار عورتوں کو بھی یاد رکھیں جن کے کارناموں نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا۔” پیچھے بیٹھی لڑکیوں کے چہروں پر خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اب بازی ان کے حق میں پلٹنے والی تھی لیکن اس کی اگلی بات نے سب کو حیران کر دیا۔
“یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن جو بات ابھی کہی گئی کہ مرد کو جسمانی اور ذہنی طور پر عورت سے مضبوط بنایا گیا ہے میں اس سے متفق ہوں۔ یہ سچ ہے کہ عورت کی عقل ناقص ہے اور جذباتی ہونے کے باعث وہ بہت سے نازک مرحلوں پر اپنے حواسوں پر قابو نہیں رکھ پاتی جیسے مرد رکھ سکتا ہے۔ بعض اوقات مشکل گھڑی میں عورت کے کیے گئے فیصلے بھی ناقص ہوتے ہیں۔”
“تم عورت ہو کر عورت کے خلاف بول رہی ہو۔” پچھلے ڈیسک سے دبے دبے غصے کا اظہار کیا گیا لیکن اس نے اپنی بات جاری رکھی:
“لیکن اس سب کے باوجود ایک حقیقت ایسی ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا اور وہ یہ کہ عورت کو مرد کی پسلی سے بنایا گیا ہے۔ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود عورت مرد کے وجود کا حصہ ہے۔ مرد کو مضبوط بنایا گیا تاکہ وہ عورت کو سنبھال سکے اس کی حفاظت کر سکے، اسے زمانے کے سرد و گرم سے محفوظ رکھ سکے۔ لیکن سوال یہ نہیں کہ کون مضبوط ہے اور کون کمزور، سوال یہ بھی نہیں کہ کون عقل میں ایک درجہ آگے ہے اور کون ناقص العقل۔ سوال یہ ہے کہ کون معاشرے کے لیے سود مند ہے۔ جواب یہ ہے کہ مرد عورت کے بغیر اور عورت مرد کے بغیر کسی کے لیے سود مند نہیں۔ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں مرد و عورت دونوں کا کردار ہوتا ہے۔ مرد کو طاقت بخشی گئی تاکہ وہ گھر کے باہر کے معاملات نپٹا سکے، کما کے کھلا سکے اور عورت کے لیے مضبوط حصار بن سکے۔ مرد باپ ہو،بھائی ہو،شوہر ہو یا بیٹا، عورت اس کی مضبوط پناہوں میں چین پاتی ہے۔ دوسری جانب مرد جب باہر سے تھکا ہارا آتا ہے تو اس کی واحد پناہ گاہ عورت ہوتی ہے۔ عورت ماں ہے تو تربیت گاہ، بہن ہے تو ڈھال، بیٹی ہے تو دل کا چین اور بیوی ہے تو راحت۔ مرد مضبوط ہونے کے باوجود عورت کے وجود سے ہی سکون پاتا ہے۔ نوعِ انسانی میں سے بہترین انسان کو جب نبوت سے نوازا گیا تو نبیِ آخر الزماں کو راحت خدیجتہ الکبریٰ نے پہنچائی۔ کائنات کے پہلے مرد آدم علیہ السلام عقل میں عورت سے افضل ہونے کے باوجود عورت کی محبت میں شجرِ ممنوعہ کو چکھ لیتے ہیں۔ تو حقیقت یہ ہے کہ عورت اور مرد لازم و ملزوم ہیں۔ مرد کفیل ہے،نگران ہے، سائبان ہے تو عورت اس کی عزت کی نگہبان ہے۔ مرد کی شان ہے۔ جب ان دونوں میں سے کوئی ایک کسی دوسرے پر انگلی اٹھانے لگتا ہے تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ جب عورت اور مرد ایک دوسرے کو کمتر ثابت کرنے میں لگ جاتے ہیں تب معاشرہ زوال پذیر ہوتا ہے۔ اگر دونوں اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے تو دونوں سودمند ہوں گے کیونکہ یہ دونوں معاشرے کے اہم رکن ہیں دونوں میں سے کسی ایک کو بھی ہٹا دیا جائے تو معاشرہ نمو نہیں پا سکتا۔” اس نے اپنی بات مکمل کی اور سر غضنفر نے بے اختیار تالی بجا کر اسے سراہا تو باقی سب نے بھی ان کی تقلید کی۔

Advertisements
julia rana solicitors

“دیٹس دا پوائنٹ آئی نیڈڈ۔” وہ مسکرائے۔ “مرد اور عورت دونوں ہی اپنی اپنی جگہ سودمند ہیں مگر دونوں ہی اپنے محور سے ہٹ گئے ہیں کیونکہ دونوں اپنی معاشرتی مذہبی اور اخلاقی حدود بھول گئے ہیں۔اب جو سود مند ہیں وہ فرد واحد مرد ہے یا پھر عورت۔ دونوں کے ملنے سے جو معاشرہ تشکیل پاتا ہےوہ ناپید ہوتا جا رہا۔ آج کل ہر گھر میں یاتو مرد زیادہ قربانیاں دے رہا ہے یا عورت۔ آج کا معاشرہ متوازن معاشرہ نہیں رہا۔ دونوں طرف شدت پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے معاشرہ اپنی اصل حالت کو کھو رہا ہے۔ ایسے میں مرد اور عورت دونوں کو اپنے اپنے فرائض ایمانداری سے پورے کرنے ہوں گے تب ہی دونوں معاشرے کے لیے سودمند ثابت ہو سکتے ہیں۔” پروفیسر غضنفر نے بات مکمل کی اور اس کے ساتھ ہی کلاس کا وقت ختم ہوگیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply