تامل ٹائیگرز کے دیس میں (نواں حصہ)۔۔خالد ولید سیفی

سڑک کے دونوں جانب ہریاول ہمارے ساتھ ہم سفر تھا، قد آور درخت اور خوشنما پودے تھے، پھلوں سے لدے اور شگوفوں سے بندھے یہ درخت اور پودے نظروں کو خیرہ کرتے تھے، بہار آتی ہے تو یہ مسکرا دیتے ہیں، رقص کرتے ہیں، ان کے لبوں سے شادمانی کے پھوٹتے مخمور ترانے جب فضاء میں اترتے ہیں تو ایک سماں بندھ جاتا ہے، ان ترانوں کی جلترنگ انسانوں کو بھی بے خود کردیتی ہے۔

درخت کے مکتبے میں محبت کا سبق سکھایا جاتا ہے، فرید الدین عطار، سچل سرمست، مولانا روم، بلھے شاہ اور مست نے ان جیسے مکتبوں سے محبت کا سبق پڑھ کر انسانوں تک پہنچایا ہوگا۔

جب پت جھڑ ہوتا ہے، خزاں اپنے گھمنڈ اور طاقت کے نشے میں مست ان پر حملہ آور ہوتی ہے، تو یہ بڑے استقامت اور خاموشی سے یہ وار اپنے سینے پر سہہ لیتے ہیں، کوئی شکایت نہیں کرتے، ان کی خوبصورتی ختم ہوجاتی ہے، پتے گرجاتے ہیں، نہ کونپلیں رہتی ہیں، نہ مشک بریں شگوفے بچ پاتے ہیں، مگر یہ درخت اور پودے ثابت قدم رہتے ہیں، ایک اور بہار آکر انہیں مسکراہٹیں لوٹا دیتی ہے۔ پھر یہ دوبارہ نغمہ سرا ہوتے ہیں۔

درختوں سے ہم یہ سبق سیکھ لیں کہ مشکل میں ٹوٹنا نہیں کھڑے رہنا ہے۔ جو انسان حالات کے وار سہہ لے، وہ بہاروں کا لطف لے سکے گا۔

موسم خزاں دستک دے رہا تھا۔ مگر اب تک ان خوشنما رنگوں کی جوانی باقی تھی۔

گاڑی کو اچانک بریک لگ گئی۔
ہاشم نے پوچھا
” عرفان اب کیا کرنا ہے”
” بھائی ہاتھی نہیں دیکھنے کا ہے، یہ ہاتھی کا جگہ ہے، سب باہر ملک والا ادھر جاتا ہے”

ہمارے ساتھ کوئی گائیڈ نہ تھا، ہم عرفان کے رحم و کرم پر تھے، ہماری آنکھ، کان اور سوچ سب عرفان تھا، جہاں لے جانے کا ہوتا تھا، ہم وہاں جانے کا ہوتے تھے۔

یہاں سیاحوں کی اچھی خاصی تعداد تھی، کچھ سری لنکن، مگر زیادہ تر غیرملکی سیاح تھے، جو دوستوں اور فیملی کے ساتھ سیر سپاٹے کررہے تھے، بہت ساری ہاتھیاں تھیں، نہ صرف آپ ہاتھیاں دیکھ سکتے ہیں، بلکہ ہاتھی کی سواری بھی کرسکتے ہیں، داخلی گیٹ پر ایک کاؤنٹر بنا ہوا تھا جہاں فیس کی ادائیگی کرکے ہم اندر کو گئے۔ کچھ دیر ٹہلے اور آخر میں، منیر احمد کے قائل کرنے پر ہم دونوں نے ہاتھی کی سواری کی، ہاتھی سواری کے دوران ہمارے لیے اپنا توازن برقرار رکھنا کافی مشکل ہورہا تھا، ہم اب گرے کہ تب گرے، کی صورتحال سے دوچار تھے، اس لیے ہم نے مہاوت کو بتادیا کہ چکر پورا نہ کریں اور ہمیں اتار دیں۔ ساتھ میں ایک ںہت بڑی نہر تھی جس میں اترنا ہاتھی سواری کے اس راؤنڈ میں شامل تھا، ہم نے ہاتھی کو پانی میں لے جانے سے منع کیا اور اپنا چکر مختصر کرکے اتر گئے۔

جب ہم یہاں سے چل دیے تو عرفان سے پوچھا راستے میں اور کہیں رکنا ہے یا اب سیدھا کینڈی جاکر ہی دم لیں گے۔
کہنے لگا آگے چائے بنانے کی ایک فیکٹری ہے وہاں رکنا ہے، چائے کی پتی کیسے تیار ہوتی ہے اور کن مراحل سے گزرتی ہے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔

جب تک چائے کی فیکٹری آجائے اس دوران آئیں سری لنکا کے سماجی ڈھانچے، سیاسی نظام اور حکومتی اتھل پھتل پر کچھ نظر ڈالتے ہیں۔

سری لنکا جنوبی ایشیاء کا ایک اہم سارک رکن ملک ہے، یہ ایک جزیرہ ہے، جو چاروں طرف سمندر میں گِھرا ہوا ہے، جس کی آبادی سوا دو کروڑ کے لگ بھگ ہے، یہاں سنہالی اور تمل زبانیں بولی جاتی ہیں، سری لنکا کا شمار ترقی پزیر ملکوں میں ہوتا ہے، پاکستان کی طرح یہاں بھی سرمایہ کاری کے نام پر چین کا عمل دخل موجود ہے، جو اس وقت کولمبو میں ون بیلٹ ون روڈ پروجیکٹ کے تحت پورٹ سٹی کے نام پر وہاں سرمایہ کاری کررہا ہے۔

سوشلسٹ چین، جس کے سینے میں
سرمایہ دھڑکتا ہے۔
سری لنکن، چین دوستی زندہ باد۔

سری لنکا میں بہت کچھ اچھا ہے، مگر سب کچھ اچھا نہیں ہے، یہاں بھی پاکستان کی طرح نفرت کی ملٹی نیشنل کمپنیاں بنائی گئیں ہیں، کچھ کمپنیاں لسانیت مارکہ مصنوعات تیار کرتی ہیں اور کچھ مذہب برانڈ پروڈکٹس مارکیٹ میں سپلائی کرتی ہیں، یہاں انسانی جان ہماری طرح بہت ارزاں تو نہیں ہے مگر اس قدر مہنگی بھی نہیں کہ اس کی حرمت کی مثالیں دی جاسکیں۔

نفرت اور بلندی کبھی اکھٹی نہیں ہوسکتی ہیں
یا نفرت میں زندگی بسر کرو یا بلندیوں کے سفر پر نکل جاؤ۔

سنہالہ سری لنکا کی سب سے بڑی اکثریت ہے، سنہالہ قوم کو ہر شعبے میں برتری حاصل ہے، ان کے پاس سیاسی طاقت ہے اور یہ خود کو سری لنکا کا اصل وارث سمجھتے ہیں، چھوٹی قوموں کو خاطر میں نہیں لاتے، یہاں کی سماجی جڑوں میں اچھی خاصی منافرت پائی جاتی ہے، سنہالی قوم لسانی تعصب کی بنیاد پر تاملوں سے اور مذہبی تعصب کی بنیاد پر مسلمانوں سے نفرت کرتی ہے۔ لسانی تعصب کی کوکھ سے تامل ٹائیگرز تحریک ( ایل ٹی ٹی ای) کی بنیاد پڑی جو 2009 کو تامل مزاحمتی لیڈر پربھاکرن کی ہلاکت کے بعد اپنے اختتام کو تو پہنچی، مگر نفرت کی وہ چنگاری جو اس وقت بظاہر تامل شکست کی راکھ میں دبی ہوئی ہے، کسی بھی وقت آگ کے شعلوں میں بدل سکتی ہے۔

جس وسطی صوبہ کے ضلع کینڈی میں ہمارا سفر تھا، وہ مذہبی تعصب اور بدھ، مسلم فسادات کے طور پر شہرت رکھتا ہے، ہمارے سفر سے کچھ ماہ قبل یہاں خونی فسادات ہوئے تھے۔ اور حال ہی میں کولمبو میں ایسٹر کی تقریبات میں جو دھماکے اور ہلاکتیں ہوئیں ان کے بعد بھی مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ تعصب اور نفرت کی ان وجوہات پر قابو نہ پانے کی صورت میں سری لنکا ایک اور بدامنی کے دھانے پر کھڑا نظر اتا ہے۔

یہاں زمینی حسن بے پناہ ہے، مگر ذہنی حسن پر کئی پرچھائیاں ہیں۔ سری لنکا میں محبت فاتح عالم نہیں ہے۔

پاکستان کی طرح یہاں بھی سیاسی عدم استحکام ہے، حکومت میں اکھاڑ پچھاڑ ہوتا رہتا ہے، اپوزیشن اور حکومت کی آنکھ مچولی اور آپس کی الزام تراشیاں یہاں کے سیاسی نظام کا حصہ ہیں۔ جس طرح کہ ہمارے نظام کے اٹوٹ انگ ہیں۔

سری لنکا کی سیاست میں اس وقت راجا پاکسے خاندان کی مضبوط گرفت ہے، 2019 کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں گھوٹا بایا راجہ پاکسا، سری لنکا فریڈم پارٹی کے پلیٹ فارم سے صدر منتخب ہوئے، جس کے بعد انہوں نے 2005 سے 2015 تک سری لنکن صدر رہنے والے اپنے بھائی مہندرا راجا پاکسے کو وزیراعظم نامزد کردیا، مہندرا راجا پاکسے کا شمار سری لنکا کی مضبوط سیاسی شخصیات میں ہوتا ہے، اور ان کی شہرت کی وجہ 2009 میں تامل ٹائیگرز کی شکست ہے جو ان کے دور صدارت میں ہوئی۔ جن کا وہ ہمیشہ کریڈٹ لیتے رہے ہیں۔

مہندرا پاکسے کو 2015 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں اپنی ہی پارٹی ( سری لنکا فریڈم پارٹی) کے امیدوار مہتری پال سیریسینا کے ہاتھوں شکست ہوئی، مہندرا راجا پاکسے کی یہ شکست اس وجہ سے حیران کن تھی کہ وہ تامل ٹائیگرز کو شکست دینے کے بعد سنہالی قوم میں بطور ہیرو متعارف ہوئے، وہ 2010 کے انتخابات تامل شکست کے نعرے کی بنیاد پر جیت گئے تھے، لیکن 2015 تک شاید نہ نعرہ اپنا اثر کھوچکا تھا۔

جس وقت ہم سری لنکا میں تھے تو مہتری پال سیریسینا کی حکومت قائم تھی، جس کے وزیر اعظم رانیل وکرمے سنگھے تھا، ہمارے دوران سفر سری لنکا میں سیاسی بحران نے اس وقت جنم لیا جب صدر نے اپنے نامزد کردہ وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے کو برطرف کرکے 2015 میں اپنے صدارتی حریف مہندرا کو وزیراعظم نامزد کردیا۔

سری لنکا کی سیاست میں پاکشے خاندان کی گرفت کا اندازہ اپ اس بات سے لگا سکتے ہیں، جب مہندرا صدر تھے، تو اس کے بھائی( موجودہ صدر) سکریٹری دفاع، ایک بھائی اسپیکر، تیسرا بھائی معیشت کے وزیر تھے اور بیٹا رکن پارلیمنٹ تھا۔ موجودہ وقت بھی یہی پاکشے خاندان کی صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے۔

مہندرا پاکشے سے قبل چندریکا رانا ٹنگا سری لنکا کی صدر رہی ہیں، جو اب بھی سیاسی اثرورسوخ رکھتی ہیں اور ان کا تعلق بھی سری لنکا فریڈم پارٹی سے ہے۔ تامل ٹائیگرز کے ایک قاتلانہ حملے میں جندریکا کی ایک آنکھ ضائع ہوچکی ہے۔ چندریکا 1994 سے 2005 تک صدارت کے عہدے پر رہیں، اور انہیں پہلی سری لنکن خاتون صدر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

سری لنکا میں دو پارٹیوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری رہتی ہے، سابق سری لنکا کرکٹ کپتان جس نے 1996 میں ورلڈکپ بھی جیتا ہے وہ بھی سری لنکن سیاست کا حصہ ہیں اور وزیر پٹرولیم رہ چکے ہیں۔ یہ سری لنکن قوم کی خوش قسمتی ہے یا بدقسمتی کہ ان کے کپتان نے ” تبدیلی” کا کوئی نعرہ لگاکر اپنے عوام کو جعلی خواب نہیں بیچے، وگر نہ ورلڈ کپ وہ بھی جیتے تھے۔

جیسے ہی ہم پاکستان پہنچے تو معلوم ہوا کہ سری لنکا کے معزول وزیر پٹرولیم رانا ٹنگا قتل کے ایک الزام میں گرفتار کرلیے گئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply