تتھاگت نظم ۔تعارف اور پہلی نظم

(آج سے تتھاگت نظم کے عنوان سے ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی گوتم بدھ کے بارے لکھی گئی نظموں کا نیا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے ،امید ہے یہ نیا نظمیہ سلسلہ آپ کو پسند آئے گا۔مدیر)
تعارف ۔۔تتھاگت نظمیں۔۔ستیہ پال آنند
پہلی بھکشا ایک کرُتا اور دھوتی کی ملی، تو تن ڈھک گیا۔ دوسری بھکشا کے لیے من ہی من میں طے کیا، پکا پکایا بھوجن نہیں سویکار ہو گا۔ آٹا یا چاول، ایک مٹھی دال، نمک کی ایک ڈلی۔دو تین چمچ گھی یا ناریل کا تیل، چند سوکھی لکڑیاں۔پہلی بار آگ جلا کر کھانا بنایا تو بہت مزے کا تھا۔ دو گلہریاں پاس آ کر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر مانگنے لگیں، تو میں نے پوچھا، کیا واقعی بھوکی ہو؟ ایک بولی، سچ مانو تو بھوکی نہیں ہوں۔ کل کے لیے اکٹھا کر رہی ہوں۔
سوچا، مانو جاتی اور پشو جاتی (انسانی نسل اور جانوروں ) میں کتنا کچھ ایک جیسا ہے۔ دونوں کل کے لیے ذخیرہ کرتے ہیں۔ طے کیا، بھکشو ہر روز کی بھکشا پر انحصار کرے گا۔ اگر نہیں ملے گی تو بھوکا سو جائے گا، لیکن ذخیرہ نہیں کرے گا۔ کچھ اصول بنانے پڑیں گے، مجھ کو۔ دن رہتے، شام پڑتے سورج چھپتے، گاؤں گاؤں یاترا، ویاکھیان، اور آگے ، اور آگے۔ بھارت دیش بہت بڑا ہے، جیون بہت چھوٹا ہے، لیکن اگر ایک ہزار گاؤں میں بھی پہنچ پاؤں تو سمجھوں گا، میں سپھل ہو گیا۔ایک گاؤں میں ایک سو لوگ بھی میری باتیں سن لیں تو میں ایک لاکھ لوگوں تک پہنچ سکوں گا۔ یہی اب میرا کام ہے ،فرض ہے ، زندگی بھر کا کرتویہ ہے۔
یہ تھا کپل وستو کے شہزادے، گوتم کا پہلا وعدہ … خود سے …اور دنیا سے۔ وہ جب اس راستے پر چلا تو چلتا ہی گیا۔اس کے ساتھ اس کا پہلا چیلا بھی تھا، جس کا نام آنند تھا۔ آنند نام کا یہ خوبرو نوجوان سانچی کے ایک متمول خاندان کا چشم و چراغ تھا، لیکن جب یہ زرد لباس پہن کر بدھ کا چیلا ہو گیا تو اپنی ساری زندگی اس نے بدھ کے دستِ راست کی طرح کاٹ دی۔
یہی آنند میرا ، یعنی ستیہ پال آنند کے خاندانی نام ’’آنند‘‘ کی بیخ وبُن کی ، ابویت کی، پہلی سیڑھی کا ذوی القربیٰ تھا۔ اسی کی نسب خویشی سے میرے جسم کا ہر ذرہ عبارت ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے کئی سال اس تحقیق و تفتیش میں گذارے ہیں۔ اور جب مجھے اس بات کا یقین ہو گیا کہ اخیاف و انساب میں میری عینیت یہی ہے تو میں نے گوتم بدھ کے سب ارشادات، بدھ مت پر تحریر کردہ انگریزی میں (اور انگریزی کے توسط سے سنہالی، جاپانی، چینی ، تبتی اور کوریائی زبانوں سب کتابوں کو پڑھا۔ انگریزی میں منظومات کی ایک کتاب One Hundred Buddhas جب امریکا سے شایع ہوئی تو ایک تہلکہ سا مچ گیا۔ اس کے تراجم ہندی کے علاوہ شری لنکا کی زبان سنھالی اور جاپانی میں چھپے۔
مکالمہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان نظموں کے اردو تراجم اس میں بالاقساط شایع ہو رہے ہیں۔ اردو کے غیر آگاہ قاری کے لیے یہ لکھنا بھی ضروری ہے کہ ’’تتھا گت‘‘، عرفِ عام میں، مہاتما بدھ کا ہی لقب تھا۔ یہ پالی زبان کا لفظ ہے جو نیپال اور ہندوستان کے درمیان ترائی کے علاقے کی بولی ہے۔ اس کا مطلب ہے۔ ’’ابھی آئے اور ابھی گئے‘‘۔ مہاتما بدھ گاؤں گاؤں گھوم کر اپنے ویا کھیان دیتے تھے۔ بولتے بولتے ایک گاؤں سے دوسرے کی طرف چلنے لگتے اور لوگوں کی بھیڑ ان کے عقب میں چلنے لگتی۔ آس پاس کے دیہات کے لوگ جب کچھ دیر سے کسی گاؤں پہنچتے
تو پوچھتے کہ وہ کہاں ہیں، تو لوگ جواب دیتے۔ ’’تتھا گت‘‘، یعنی ابھی آئے تھے اور ابھی چلے گئے‘‘۔ یہی لقب ان کی ذات کے ساتھ منسوب ہو گیا۔ میں نے ’’لوک بولی‘‘ سے مستعار یہی نام اپنی نظموں کے لیے منتخب کیا۔
ستیہ پال آنند

تتھاگت نظم۔۔۔۔اول نظم
جنم سے چتا تک

میں نے پہلی بار یہ منظر تبھی دیکھا تھا
جب رتھ بان نے مجھ کو بتایا تھا کہ مُردہ جسم ک
انتم چرَن کی یاترا میں
اُس کو اگنی کے حوالے کر دیا جاتا ہے …
تب اک بار پھر
اس جسم کے تینوں عناصر، مٹّی، پانی اور ہوا
چوتھے سے ، یعنی آگ سے مل کر
حقیقی اور ازلی جزو میں تقسیم ہو جاتے ہیں …
… میں انجان تھا اس بات سے تب

بات کا آغاز کرنے کے لیے آنند نے تو
بر سبیلِ تذکرہ اتنا ہی پوچھا تھا…تتھاگت
یہ بتائیں
راکھ یا مٹی ہی کیا ذی روح انسانوں کی
حیوانوں کی، جیووں ، جنتوؤں کی
آخری منزل ہے جس سے کوئی چھٹکارہ نہیں ہے؟

…….بُدھّ بولے تھے
مگر سوچو تو آنند
جسم کے یہ مرحلے
پہلے تو بچپن
پھر لڑکپن
پھر جوانی
پھر بڑھاپا
اور پھر ان سب کا حاصل …موت
اس کے بعد اگنی
بھسم ہو جانا چتا کی راکھ میں۔۔۔۔
ترتیب یہ سیدھی ہے، لیکن
ایک لمحے کے لیے کروٹ بدل کر
اس کو ہم اُلٹا ئیں تو پھر
کیا لگے گا تم کو بھکشو؟

میں نہیں سمجھا، تتھا گت

سیدھی سادی بات ہی تو ہے، سُنو آنند، لیکن غور سے
ترتیب کے اُلٹے مساوی رُخ کو اب دیکھو ذرا
…ہم آگ میں پہلے جلیں
پھر اپنے مردہ جسم میں داخل ہوں
وہاں سے ..
اپنی ارتھی پر چلیں واپس وہیں گھر میں
جہاں ہم مر گئے تھے
جانکنی کی سب اذیت جھیل کر لوٹیں …
… جہاں "سر کانپتے، پگ ڈگمگاتے" وہ بُڑھاپا تھا، جسے
برداشت کرنا موت سے بد تر ہے بھکشو …
اور پھر الہڑ جوانی۔۔۔۔ پھر لڑکپن
لوٹ کر چلتے ہوئے آغوش ماں کی
شیر خواری کے دنوں تک
اور پھر تولید کا آزار …
کیسا سلسلہ ہے یہ؟ بتاؤ

Advertisements
julia rana solicitors

اپنے سر کو نیوڑھائے
گو مگو کی کیفیت میں
گم رہا آنند کافی دیر تک
پھر سر اٹھایا
اور کچھ کہنے کو لب کھولے مگر تب تک تتھا گت
لمبے لمبے ڈگ اُٹھاتے جا چکے تھے!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply