جہاد(افسانہ)-عامر حسینی

عصمت چپکے سے اپنی چارپائی سے اٹھا اور آہستگی کے ساتھ اس نے کمرے کی کنڈی کھولی ۔برآمدے میں بنی الماری سے ایک بیگ نکالا اور صحن پارکرکے وہ مرکزی دروازے کا گیٹ کھول کر گلی میں آگیا۔اس وقت رات کا آخری پہرتھا۔اس کی گلی اور گاؤں کے سارے مکین سورہے تھے۔آخری پہر کی نیند ویسے بھی آدمی کو بےخبر کر دیتی ہے۔وہ گلی سے نکل کر اس پگڈنڈی پر آگیا جو سیدھی مرکزی شاہراہ تک لے جاتی تھی۔ایک میل کا فاصلہ طے کر کے وہ مرکزی شاہراہ پر آگیا۔اس کو کچھ دیر انتظار کرنا پڑا۔تھوڑی دیر میں لاہور سے آنے والی ایک اے سی کوچ اس کے پاس آکر رکی۔کنڈکٹر نے پوچھا اس نے کہاں جانا ہے۔اس نے کہا ملتان۔کنڈکٹر نے اس کو سوار ہونے کا اشارہ کیا ۔وہ سوار ہوگیا۔بس میں تھوڑے سے مسافر تھے۔وہ قریب ہی ایک خالی نشست پر بیٹھ گیا اور اونگھنے لگا۔35 منٹ کے بعد وہ ملتان بس سٹینڈ پر کھڑا تھا۔اس نے سٹینڈ کے اوپر لگے شیڈ پر نظر ڈالی تو ایک پر اس کو ڈیرہ اسماعیل خان لکھا نظر آیا۔وہ اس طرف چل پڑا۔ایک اے سی بس سٹینڈ پر موجود تھی۔اس نے سٹول پر بیٹھے آدمی سے ڈیرہ اسماعیل خان کا ٹکٹ خریدا اور اے سی بس میں سوار ہوگیا اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔وہ کافی تھک گیا تھا۔بیٹھتے ہی اس کو نیند آگئی۔بس نجانے کب چلی اور کب اس کے ساتھ ایک اور مسافر آکر بیٹھا اس کو کوئی خبر نہیں تھی۔بس ایک جھٹکے سے کہیں رکی اور ساتھ والے مسافر نے اس کا کندھا ہلایا اور کہا کہ بس کچھ دیر رکے گی ۔اگر آپ نے ناشتہ کرنا ہے تو کر لیجیے۔وہ سن کر اٹھا تو بس بھکر کے پاس آچکی تھی۔دن نکل چکا تھا۔سورج بھی آہستہ آہستہ مشرق کی اوٹ سے نکل رہا تھا۔اس نے نیچے اتر کر واش روم یوز کیا اور پھر ٹیبل پر بیٹھ گیا۔اس کو زیادہ بھوک نہیں تھی۔ایک سینڈوچ اور چائے سے اس نے کام چلایا اور پھر واپس بس میں آکر بیٹھ گیا۔

نیند اب اس کی آنکھوں میں نہیں تھی۔وہ گہری سوچ میں ڈوبا ہوا لگتا تھا۔اس نے بی اے میں ٹاپ کیا تھا۔اس کو یونیورسٹی جانے کا بہت شوق تھا۔اس کے دو بھائی مدرسے میں پڑھتے تھے۔ایک بھائی مفتی بن چکا تھا۔اور وہ بہت معروف تھا اپنے علاقے میں۔والد صاحب تبلیغی جماعت کے امیر تھے۔دوسرا بھائی جیش محمد کا مقامی امیر تھا۔ان کی کافی زمین تھی۔ایک ڈیری تھی۔گزر بسر اچھی ہورہی تھی۔عصمت کو مدرسہ بھیجا جاتا مگر اس نے ضد کی  کہ وہ سکول جائے گا تو لاڈلا ہونے کی وجہ سے اس کو اسکول میں ڈال دیا گیا۔مگر ساتھ ساتھ اس کو حفظ بھی کرنے کو کہا گیا۔اس کی دو بہنیں تھیں جو عالمہ فاضلہ کا کورس کر رہی تھیں۔ان کا گھر بہت سکون  سے چل رہا تھا کہ ایک دن یہ سکون برباد ہوگیا۔اس کو وہ دن اچھی طرح یاد تھا کہ وہ بارھویں کلاس میں تھا۔کالج سے واپس لوٹا تھا کہ اچانک گھر کے سامنے شور ہوا ۔وہ اور اس کا والد شور سن کر باہر گئے تو ایک ایمبولینس کھڑی تھی۔اور مزید کئی گاڑیاں تھیں۔ایمبولینس سے اس کا بھائی جو جیش محمد میں تھا باہر نکلا۔اس کے کاندھے پر کلاشن کوف لٹک رہی تھی۔اس کی کالی داڑھی آنسوؤں سے تر تھی۔اس کے والد نے پوچھا !حافظ خالد کیا ہوا؟اس نے کہا !بابا دشمنوں نے بھائی عبد الله کو شہید کر دیا۔فجر کی نماز کی امامت کراتے ہوئے ان پر قاتلانہ حملہ ہوا۔چالیس گولیاں لگیں ان کو اور ہسپتال جاکر وہ دم توڑ گئے۔یہ سن کر اس کے والد سکتہ میں آگئے۔اور وہ لڑ کھڑا کر دیوار کے ساتھ لگ گئے۔عصمت کو بھی اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا ۔وہ بھی خاموش ہوگیا۔بھائی کی میت اندر پہنچی تو اس کی ماں ،اور بہنیں غش کہا کر گر پڑیں۔ایمبولینس سے عبد الله کی جوان بیوی اور تین چھوٹے چھوٹے بچے باہر نکلے جب اندر پہنچے تو جیسے قیامت آگئی۔لیکن بھابھی طاہرہ کی آنکھوں سے آنسو تو نکل رہے تھے مگر وہ ماں اور بہن کو صبر کرنے کا کہہ رہی تھیں۔چپ کرو ماں جی شہید بین کو خلاف شرع کہتے تھے۔اس پر بین ہلکی ہلکی سسکیوں میں بدل گیا۔

بھائی کے جنازے سے لیکر تدفین تک اور ختم تک پورے ملک میں ہنگامے ہوئے۔ہر مکتبہ فکر کے لوگ ان کی وفات پر اظہار غم کر رہے تھے۔عصمت کے سامنے اپنے بھائی کی تصویر گھوم رہی تھی۔جب بھی وہ لاہور سے آتے تو سارے گھر کو وقت دیتے۔ماں کے پاس گھنٹوں باتیں کرتے ۔ماں سے چھوٹے بچوں کی طرح سر میں تیل لگو مالش کرواتے ۔وہ اس کی جدید تعلیم حاصل کرنے کے سب سے زیادہ حامی تھے اور کہا کرتے تھے کہ اب سب سے زیادہ ضرورت مسلم ملکوں کو سائنس اور ٹیک کے ماہرین کی ہے۔سائنس اور ٹیک میں مہارت کے بغیر اسلام غالب نہیں ہوسکتا۔

وہ لاہور میں بھی بہت مقبول عالم تھے۔ان کی بہت قدر تھی۔ان کی وفات کے بعد گھر میں کوئی اب ہنستا نظر نہیں آتا تھا۔کبھی کسی بات پر کوئی ہنستا بھی تو اچانک اس کے سامنے عبد الله کا خوں سے بھرا چہرہ سامنے آجاتا تو ہنسی دم توڑ جاتی اور باقی سب بھی زخمی زخمی سے نظر آتے۔ابھی یہ زخمی پن چل ہی رہا تھا کہ اس کا بھائی حافظ خالد ایک رات گھر آیا تو اس نے والد صاحب کو کہا کہ وہ افغانستان جارہا ہے وہیں  امیر المومین ملا عمر کی قیادت میں وہ اسلامی خلافت قائم ہوچکی ہے۔وہ دین کی سربلندی کے لئے کام کرنا چاہتا ہے۔والد صاحب نے کہا کہ وہ اس کو کیسے روک سکتے ہیں۔حافظ خالد نے کہا !ابّا  آپ  تو نہیں روکتے مگر اماں اجازت نہیں دے رہیں۔والد صاحب نے کہا کہ اس الله کی بندی کو میں سمجھا لوں گا۔پھر حافظ خالد بھی افغانستان چلا گیا۔وقت گزرتا چلا گیا۔اس نے بی اے میں ٹاپ کیا۔وہ خوشی منا رہا تھا جب گاؤں میں بنے واحد چائے کے ہوٹل پر اس نے امریکہ کے شہر نیویارک میں جڑواں ٹاور گرتے دیکھے تھے۔اس کے بعد امریکہ نے افغانسان پر حملہ کردیا۔روز بمباری کی خبریں آرہی تھیں۔اس کے بھائی خالد کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔سارا گھر پریشان تھا۔پھر ایک رات جب وہ اپنے دوستوں کے پاس سے اٹھ کر گھر جارہا تھا تو گلی کے نکڑ پر ایک چادر پوش نے اس کو پکارا اور کہا کہ کیا وہ خالد کا بھائی ہے؟۔۔۔۔عصمت کا دل زور سے دھڑکا تھا۔اس نے کہا ہاں۔تو چادر پوش نے کہا کہ وہ خالد کا دوست ہے اس کا پیغام لیکر آیا ہے۔عصمت نے اس کو کہا کہ چلو گھر چل کر بات کرتے ہیں۔چادر پوش نے کہا میں چلتا ہوں لیکن کسی کو خبر نہ ہونے دینا کیوں کہ خفیہ   کتے اس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ڈالر لیکر سودا کرنے والوں کی نہ کل کمی تھی اور نہ آج ہے۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا اور اس کو لیکر چل پڑا ۔

چادر پوش کو اس نے بیٹھک میں بٹھایا اور اپنے والد کو خبر دی۔دونوں باپ بیٹا جب بیٹھک میں داخل ہوئے تو نووارد چادر اتار چکا تھا۔گھبرو جوان تھا۔لمبی گھنی داڑھی تھی۔سرخ سپید چہرہ تھا اور آنکھیں خوب چمک دار تھیں۔اس نے بتایا کہ اس کا نام مفتی طاہر ہے۔چکوال سے تعلق ہے۔اور مُلا عمر کے البدر بریگیڈ سے اس کا تعلق ہے۔حافظ خالد بھی اسی بریگیڈ کا حصہ تھا۔اس نے کچھ دیر خاموشی کے بعد کہا کہ حافظ خالد ان طالبان میں شامل تھا جن کو قلعہ جنگی میں بمباری کر کے شہید کر دیا گیا تھا۔دونوں باپ بیٹا نے بڑے حوصلے سے اس خبر کو سنا تھا۔فیصلہ یہ ہوا کہ مستورات کو اس کی خبر نہیں دی جائے گی۔

مفتی طاہر کے ساتھ وہ پوری رات عصمت نے گزاری تھی۔مفتی خالد نے بتایا تھا کہ مجاہدین وزیرستان میں اکٹھے ہورہے تھے۔بہت جلد امریکیوں کے خلاف لڑائی شروع ہوجائے گی۔مفتی خالد سے اس نے پوچھا کہ اگر جہاد میں شریک ہونا ہو تو وہاں تک کیسے پہنچا جائے تو مفتی خالد نے کہا کہ تم کسی بھی طرح جنڈولہ پہنچ جانا ۔وہاں مدرسہ احسن العلوم ہے جس میں میرا بھائی مفتی شاکر مہتم ہے۔اس کو میرا حوالہ  دینا، تم کو مجاہدین تک پہنچا دیا جائے گا۔

عصمت کئی دن تک کشمکش میں مبتلا رہا۔پھر ایک دن اس نے پختہ ارادہ کرلیا تو چپکے سے نکل آیا تھا۔گاڑی ڈیرہ اسماعیل خان پہنچ چکی تھی۔وہ ڈیرہ اسماعیل خان سے جنڈولہ جانے والی بس میں بیٹھ گیا۔ٹانک سے بس ہوتی ہوئی جنڈولہ پہنچ گئی۔وہاں سے بہت آسانی کے ساتھ اس کو احسن العلوم کا پتہ چل گیا۔مفتی شاکر نے جب اس کے بھائی کا حوالہ سنا تو اس کو بتایا کہ اس کا بھائی اس کو عصمت کے بارے میں بتا چکا تھا۔اس نے عصمت کو آرام کرنے کو کہا۔رات کے گیارہ بجے اس کو اٹھا دیا گیا اور ایک بند ٹرک میں ان کو بٹھا دیا گیا۔ٹرک میں اور بھی چند لڑکے تھے۔انھوں نے آپس میں کوئی بات نہیں کی۔رات کے کسی وقت میں ٹرک رک گیا ۔ترپال ہٹایا گیا اور ان کو باہر آنے کو کہا گیا ۔یہ کسی پہاڑ کا دامن تھا۔کچھ پتا نہیں لگ رہا تھا کہ وہ کہاں آگئے ہیں۔تھوڑی دیر بعد ان کو ایک غار میں لیجایا گیا۔غار کیا تھا بہت کشادہ کمرہ تھا۔جس کے پورشن بنے ہوئے تھے۔ایک بزرگ وہاں موجود تھے۔گائیڈ نے بتایا کہ وہ استاذ المجاہدین مفتی عکرمہ ہیں۔مفتی عکرمہ نے ان کو خوش آمدید کہا۔پھر ان کو آرام کرنے کے لئے اسی طرح کی گھروں میں منتقل کر دیا گیا۔گھروں میں بجلی کی سہولت موجود تھی۔بڑے بڑے جرنیٹر چلنے کی آوازیں آرہی تھیں۔عصمت اور ایک اور نوجوان ایک گھر میں ٹھہرا دیے گئے۔صبح تہجد کے وقت ان کو اٹھا دیا گیا۔مفتی عکرمہ امامت کر رہے تھے۔ان کی آواز میں بہت سوز تھا۔سورہ رحمان کی تلاوت ہورہی تھی۔تہجد کی نماز کے بعد نماز فجر ادا ہوئی۔اس کے بعد تمام طالبوں کو مدرسہ آنے کو کہا گیا۔عصمت اور اس کے روم میٹ کو ایک پرانے طالب نے مدرسہ تک رہنمائی دی۔مدرسہ پہاڑ کے دامن میں تھا۔سرخ پتھروں سے بنی ہوئی عمارت قلعہ لگتی تھی۔عمارت کی پیشانی پر لکھا تھا “مکتب خالد بن ولید”اندر داخل ہوئے تو چاروں اطراف کمرے بنے ہوئے تھے۔جبکہ درمیان میں ایک کھلا میدان تھا۔سب لڑکے قطاروں میں میدان میں جمع ہوگئے۔سب سے پہلے ایک جوان نے چبوترے پر آکر تلاوت شروع کی
وہ جو خدا کی راہ میں قتل ہوجائیں ان کو مردہ مت کہو۔وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کی طرف سے رزق
پاتے ہیں مگر تمھیں شعور نہیں ہے۔

تلاوت کے بعد مفتی عکرمہ کھڑے ہوئے انھوں نے تقریر شروع کی۔تقریر بہت جذباتی تھی اور اس تقریر میں امریکہ ،یورپ کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ ان کی اتحادی مسلم حکومتوں کے خلاف بھی جہاد کرنے پر زور دیا گیا تھا۔تقریر ختم ہوئی تو ایک ڈیجیٹل سکرین چبوترے کے سامنے لگا دی گئی۔اور سامنے ایک پروجیکٹر اور لپ ٹاپ لاک رکھا گیا۔عصمت کو یہ سب جدید انتظام دیکھ کر حیرانی ہوئی۔تھوڑی دیر بعد سکرین پر مناظر آنا شروع ہوگئے ۔۔

امریکی طیاروں کی عراق اور افغانستان پر بمباری ،کٹی پھٹی ،سوختہ لاشیں۔مردوں ،عورتوں بچوں کے لاشے۔صدر بش کا جنگ کو صلیبی جنگ کہنا۔اور گیرٹ ویلڈر کی فلم فتنہ کے مناظر ،سلمان رشدی کی شیطانی آیت ،کارٹون اور پھر آخر میں ایک ترانہ جس میں افغان صدر کرزئی ،کنگ عبد الله ،صدر مشرف اور آصف زرداری کی تصویریں اور ان کے نیچے “ننگ دین و ملت “لکھا ہوا تھا۔
فلم دیکھ کر عصمت کے جذبات بھی بہت ابھرے۔اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ ابھی جاکر سب کو اڑا ڈالے۔سارا دن اور رات عشاء کے بعد تک مختلف تربیت اور تدریس ہوتی رہی۔جب عصمت واپس لوٹا تو اس کا روم میٹ بھی آچکا تھا۔دونوں  کا باہم تعارف ہوا۔اس کے روم میٹ نے بتایا کہ وہ زرغون ولی ہے۔سوات سے آیا ہے۔ایک کام گر خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔خوانین کا ستایا ہوا تھا۔سوات میں طالبوں کے ساتھ مل کر خوانین کا خاتمہ چاہتا تھا۔

دن گزرتے چلے گئے ۔عصمت اور زرغون ہر طرح کا ہتھیار چلانا سیکھ گئے تھے۔بم اکسپلوسیو بھی ان کو آگیا تھا۔اس دوران ایک فوجی کانوائے پر کامیابی سے شب خون بھی مار چکے تھے۔ایک رات ان کو عشاء کے بعد مفتی عکرمہ نے بلایا اور ان کو کہا گیا کہ ان کو پنڈی میں ایک کاروائی کرنی ہے۔مفتی عکرمہ کا کہنا تھا کہ ان کو ایک پارک میں حملہ کرنا ہے جہاں پر ایک معروف سیاسی شخصیت نے آنا تھا۔عصمت ،زرغوں اور دس دوسرے طالب اس مہم کے لئے چنے گئے۔سب کو گلاب کے پھولوں سے لاد دیا گیا ۔اور جنت کے دولہوں کو مبارک باد دی گئی۔عصمت اور زرغوں باقی طلباء  کے ساتھ پنڈی آگئے۔ایک دن عصمت جب ریکی کرنے اپنے مطلوبہ پارک تک گیا تو اس نے پارک کے باہر اپنے ہدف کی ایک پوٹریٹ دیکھی۔جس  میں وہ ہدف تسبیح ہاتھ میں پکڑے کھڑی تھی۔عصمت غور سے اس تصویر کو دیکھتا رہا۔اس کے اندر کچھ ہلچل مچی۔اتنے میں عصر کی اذان ہونے لگی۔اس نے قریبی ایک مسجد کا رخ کیا۔نماز پڑھ کر وہ فارغ ہوا تو ایک بزرگ عالم کھڑے ہوگئے اور انھوں نے اسلام پر تقریر شروع کردی۔

Advertisements
julia rana solicitors

“اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔جس آدمی نے کسی بھی انسان کو قتل کیا تو اس نے ساری انسانیت کو قتل کرڈالا۔مومن وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے لوگ محفوظ رہیں”
بزرگ کی تقریر نے عصمت کی کایا کلپ کرڈال تھی۔وہ واپس اپنے ٹھکانے پر آیا اور اس نے زرغون کو کہا کہ ہمیں معصوم لوگوں کے خون سے ہاتھ نہیں رنگنے چاہئیں۔اور اپنے ساتھیوں کو بھی سمجھانا چاہیے ۔زرغوں نے کہا کہ اچھا کل چلے جاتے ہیں اور ان کو سمجھائیں گے ۔فجر کی نماز پڑھ کر وہ اور زرغوں اپنے ساتھیوں کے پاس چل پڑے۔رستے میں اچانک زرغون نے کہا کہ اس کو پیشاب کرنا ہے۔وہ بغل میں گلی کے اندر چلا گیا ۔عصمت اس کا کھڑا ہوکر انتظار کر رہا تھا۔اچانک اس کے کانوں میں پیچھے سے سائیں کی آواز آئی۔یہ بے آواز ماؤزر کی گولی کی آواز تھی۔اس سائیں کو عصمت خوب پہچانتا تھا۔اس نے بے اختیار پیچھے مڑ  کر دیکھنا چاہا مگر دیر ہوچکی تھی۔اس کو لگا کہ کوئی پگھلتا ہوا سیسہ اس کی کمر میں اتر گیا ہے۔وہ نیچے گرتا چلا گیا۔دو نفرت انگیز آنکھیں اس کو گھور رہی تھیں۔اس نے اپنی آنکھوں میں چھاتی تاریکی کو ذرا پرے دھکیلنے کی کوشش کی تو اس نے دیکھا کہ زرغون ماؤزر پکڑے کھڑا تھا اور اس کے ساتھ ایک طالب اور تھا۔پھر اچانک اس کی آنکھوں سے قریب کے سارے منظر اوجھل ہوگئے۔اور اس کے گاؤں کے کھیت سامنے آگئے۔کماد کے کھیت جن میں چھپ،چھپ کر وہ نازو سے ملا کرتا تھا۔آخری بار نازو کو ہی اس نے اپنے فیصلے کے بارے میں بتایا تھا۔نازو کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ عصمت کو کہہ رہی تھی تو مت جاؤ۔بھائی بھی وہاں گیا تھا تو لوٹا نہیں تھا۔اس کی جو تصویر ملی تھی اس میں اس کا وجود گولیوں سے روشندان بنا ہوا تھا۔اس کی آنکھوں کو دیکھ کر مجھے یوں لگا تھا جیسے اس کو جینے کی بہت خواہش تھی۔یہ خواہش اس کی آنکھوں میں جم گئی تھی۔عصمت کو بھی پھیلتی تاریکی میں جینے کی شدید خواہش ہوئی۔وہ نازو کے ساتھ گاؤں میں جیون بتانا چاہتا تھا ۔نازو بہت دور گاؤں میں اس کی منتظر تھی اور وہ یہاں پنڈی کی سڑک پر  زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا ۔اس کو اپنے دونوں بھائیوں کے چہرے نظر آئے ۔اس کا بڑا بھائی اس کو شکوہ کے انداز میں کہہ رہا تھا کہ کہا تھا کہ زوال کا حل سائنس اور ٹیک میں ہے ۔مگر تم بارود میں تلاش کرنے چل نکلے۔ماں کی یاد آئی اور اس کے چہرے کی یاد آتے ہی ایک دم سے تاریکی پوری طرح سے اس کے دماغ پر طاری ہوگئی۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply