گم نام موت کا ڈر۔۔احمد بٹ

شہر کے باہر ایک شاہراہ پر واقع بوسیدہ عمارت کے تیسرے فلور پر ایک چھوٹا سا کمرہ ، جس کا ایک واحد دروازہ باہر لاؤنج میں کھلتا تھا۔ کمرے میں دروازے کے بالکل سامنے والی دیوار پر ایک کھڑکی تھی ۔ کھڑکی کے دو پٹ تھے جو باہر سڑک کی طرف کُھلتے تھے، جن میں سے ایک پٹ زنگ آلودہ ہونے کی وجہ سے بالکل منجمد ہو چکا تھا۔ کمرے میں دروازے کے دائیں طرف ایک پرانا لوہے کا پلنگ تھا جس پر صرف ایک چادر بچھی ہوئی تھی، اور کچھ کاغذ کے ٹکڑے سرہانے کے نیچے بکھرے ہوئے تھے، جن میں سے معمولی سی تعداد زمیں پر گری ہوئی تھی۔

دروازے کی بائیں طرف ایک چھوٹی سی الماری تھی جس میں کپڑے لٹکائے  جاسکتے تھے، لیکن تمام کپڑے ویسے ہی بےترتیب الماری میں لاپرواہی سے پھینکے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ الماری کے اوپر پرانی ٹوٹی ہوئی ایک دو ٹرافی اور ساتھ  گرد آلود ایک شاپر، جس میں شاید ایک بوتل تھی، جسے دیکھ کر لگتا کہ اسے رکھے اور کھولے مہینوں  گزر گئے ہیں۔ کھڑکی سے تھوڑا سا ہٹ کر الماری کی دیوار سے کچھ ہی قدم کے فاصلے پر ایک میز پڑی تھی، جس پر انگریزی اور اردو کے اخبار رکھے ہوئے تھے، ساتھ کچھ کتابیں اور لکھنے کے لیے کچھ کورے ورق پڑے تھے۔

آفتاب وہیں  کھڑا، کھڑکی  کے ایک کُھلے پٹ سے باہر دیکھ رہا تھا۔ سڑک پر زیادہ تر ویگن، بس اور کاریں ہی سفر کرتیں جو یا تو شہر میں داخل ہورہی ہوتیں یا شہر سے باہر نکل رہی ہوتی تھیں۔ موٹرسائیکل تو اکا دکا ہی نظر آتے اور سائیکل نہ ہونے کے برابر۔ سورج غروب ہورہا تھا، اور سڑک پر رات کا اندھیرا آہستہ آہستہ تاریکی پیدا کررہا تھا۔ عمارتوں میں واقع کمروں کی لائٹیں اور دوکانوں کے باہر لگے بلب روشن ہونا شروع ہورہے تھے۔ گاڑیوں کے ہارن اب آفتاب کے لیے ایک سُر کی کیفیت پیدا کرتے تھے۔ اسی سُر کی کیفیت میں سیر کرتا ہوا وہ ماضی کے سفر میں روانہ  ہو گیا۔

آفتاب نے سگریٹ کو دیوار کے ساتھ رگڑ کر بجھایا اور اُس کا خول کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ وہ ہیں کھڑا باہر کہیں نظریں جمائے دیکھتا رہا۔ وہ اب اپنے اندر بےسکونی کی کیفیت سے اُکتا چکا تھا، اور اس کا وجود اب مزید زور سہنے سے انکاری تھا۔ وہ اپنے  ماضی کے باب پلٹتے ہوئے زندگی کے مختلف لمحوں کو یاد کررہا تھا، جن میں اب تک آفتاب کے لیے کچھ بھی خوش آئند نہیں رہا۔ وہ کوئی ایک ٹھوس وجہ تلاش کررہا تھا جو اسے خودکشی کے لیے معقول  توجیہہ  پیش کر سکے۔ اس کے کُل اثاثوں میں دوسروں کی طرف سے نازل کردہ پچھتاؤوں اور افسردگی کے علاوہ کچھ خاص نہیں تھا۔

وہ چاہتا تو اس ناکامی کے بعد اپنے ماضی کے ان صفحوں کو پھاڑتے ہوئے آگے بڑھ جاتا لیکن وہ ایک پُرکیف کوشش میں مگن رہا، شاید وہ اس افسردگی میں رہنے کا عادی  ہو گیا تھا۔ وہ اپنی موت سستے داموں نہیں بیچنا چاہتا تھا۔ لیکن وہ یہ بھی تسلیم کرتا تھا  کہ اس کے ہونے یا نہ ہونے سے کسی ایک چیز کو بھی فرق نہیں پڑنے والا تھا، اور شاید یہی ڈر اسے کھائے جا رہا تھا۔ وہ اپنی زندگی کی طرح موت بھی گمنامی کی حالت میں نہیں چاہتا تھا۔ انسانی موت کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے اس نے ان تمام لوگوں کو یاد کرنا شروع کیا جو اس کی زندگی سے وابستہ تھے، اور وہ انتقال کر چکے تھے۔ آفتاب کے لیے یہ کام زیادہ مشکل تھا، اسے دماغ پر زور ڈالتے ہوئے خود کو ان لوگوں کی موت کا یقین دلانا پڑتا، جن میں سے بیشتر کے متعلق وہ ایک تجسس میں مبتلا تھا کہ وہ زندہ ہیں یا مر گئے ہیں۔

ان ہی خیالات میں گم، آفتاب نے حال میں دوبارہ قدم رکھا جب دو بڑے لوڈنگ ٹرک بےلگام ہارن مارتے ایک دوسرے کو کراس کرتے ہوئے گزرے تھے۔ سکوت میں خلل کے بعد آفتاب نے وہیں کھڑکی کے  ایک کھلے پٹ سے باہر دیکھا تو مکمل رات چھا چکی تھی۔ آفتاب کی نظر وہیں  سڑک کے ایک طرف کھڑی ریڑھی  پر پڑی، جس کا مالک اب سامان اکٹھا کر کے واپس گھر جانے کی تیاری کر رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آفتاب کھڑکی سے پیچھے ہٹا، اپنی پتلون کی دائیں جیب سے سگریٹ نکالی اور ماچس ڈھونڈنے لگا۔ تمام خیالات کو وہیں جھٹک کر باہر کی طرف گیا اور کمرے کا لاک لگایا اور شاید ایک بار پھر سے دوبارہ ماضی سے لاتعلقی کی کوشش میں مصروف ہو گیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply