تصوف کی حقیقت۔حصہ دوئم/سائرہ ممتاز

تاریخ اسلام شاہد ہے کہ جس شد و مد، جوش و خروش سے اہل تصوف نے شریعت پر عمل کیا ہے اس کے عشر عشیر پر بھی علمائے ظواہر عمل نہیں کر سکے. حضرت جنید بغدادی رحمت اللہ علیہ کے پاس ایک رات باہر سے کھانا آیا. چونکہ بھیجنے والا سرکاری ملازم تھا آپ نے کھانا نہ کھایا. اس خیال سے کہ سرکاری خزانے کا مال مخدوش ہوتا ہے. اور نہ ہی آپ نے وہ کھانا کسی اور کو کھانے دیابلکہ دریا میں پھینک دیا اور اس روز سے اس دریا کی مچھلی کھانا ترک کر دی کہ ممکن ہے اس مچھلی نے وہی چیز کھائی ہو.

یہ ہے صوفیاء کرام کا تقوی اور پابندی  شریعت جس کی گرد کو بھی علمائے ظواہر نہیں پہنچ سکے. تصوف اسلام کی روح ہے اور روح اگر بدن سے نکال دی جائے تو وہ ایک مردہ ڈھانچہ بن کر رہ جاتا یے جیسے آج کل ظاہر پوش اور علمائے سو نے بنا رکھا ہے.

رسول اللہﷺ  کی ساری زندگی روحانیت سے لبریز تھی. آپ کے معجزات، آپ کی وحی، آپ کا تعلق باللہ اور اللہ کے ساتھ شدید محبت، قرب و معرفت اور آپ کا معراج، یہ تمام بھرپور روحانیت کے دلائل اور تصوف کی جان ہیں. آپ فرماتے ہیں کہ میں پیچھے کی طرف بھی اسی طرح دیکھتا ہوں جس طرح آگے کی طرف. آپ علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں مومن کی فراست (باطنی بصیرت) سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے. روحانیت کے مختلف درجات اور مختلف اقسام ہیں جن پر ہم بعد میں بات کریں گے اس سے پہلے دیکھتے ہیں کہ اولیائے اسلام کے ہندو ارباب روحانیت پر اور دیگر مذاہب پر کیا اثرات مرتب ہوتے رہے ہیں.

مستشرقین نے یہ ڈھونگ رچا رکھا ہے کہ تصوف اور صوفیائے کرام ہندو اور عیسائی فلسفہ روحانیت (mysticism )سے متاثر ہوئے ہیں. یہ سراسر لغو اور بے بنیاد ہے. مولانا واجد بخش سیال شرح کشف المحجوب میں رقم طراز ہیں کہ انھوں نے اسلامی تصوف اور ہندو و عیسائی مسٹی سسزم پر طویل ریسرچ کی ہے اور ان تمام مذاہب کے دیانتدار و منصف مزاج ریسرچ سکالروں کی ان کتابوں کے حوالہ جات پیش کیے ہیں جن میں ثابت کیا گیا ہے کہ صوفیائے اسلام دیگر مذاہب سے متاثر نہیں ہوئے بلکہ دیگر مذاہب کے ارباب روحانیت نے صوفیائے اسلام سے زبردست استفادہ کیا ہے (البتہ ہندوستان میں اٹھنے والی بھگتی تحریکوں میں مسلمان شعراء و صوفیا کی شمولیت کی وجہ سے کسی حد تک ان الزامات کا دفاع نا ممکن بھی ہو جاتا ہے) مثلاً ہندو ریسرچ اسکالر ڈاکٹر تارا چند نے تحقیق کے ذریعے اپنی کتاب (influence of Islam on hindu culture) میں ثابت کیا ہے کہ نامور ہندو ارباب روحانیت مثل شنکر آچاریہ، رامانوجا، راما نند ، کبیر اور ان کے چیلوں نے صوفیائے اسلام سے روحانی تعلیمات حاصل کیں یہاں تک کہ انھوں نے تمام مشرکانہ ہندو عقائد مثلاً بت پرستی، تناسخ، ذات پات، مردوں کو جلانا وغیرہ ترک کر کے اسلامی عقائد اختیار کر لیے تھے اور مندروں اور برہمنوں کی سخت مذمت کرتے تھے. ہندو ارباب روحانیت میں سے شنکر آچاریہ اور راما نوجا کے نام سر فہرست ہیں اور ان ہر دو کی صوفیائے اسلام کی تعلیمات کے درمیان زبردست مشابہت اور یگانگت دیکھ کر بعض سطح بین لوگ جن میں یورپ کے چند اسکالر اور مسلمان بھی شامل ہیں یہ خیال کرتے ہیں کہ تصوف شنکر آچاریہ کی پیداوار ہے حالانکہ ڈاکٹر تارا چند کتاب مذکور میں لکھتے ہیں کہ۔۔

” جنوبی ہند میں شنکر آچاریہ اور ان کے شاگردوں کی روحانی تعلیمات اور اسلامی تصوف کی تعلیمات میں حیرت انگیز مشابہت ہے. شنکر کی پیدائش کے وقت تک اسلامی نظریہ ء توحید (monotheism )جنوبی ہند میں جڑ پکڑ چکا تھا. اس لیے شنکر آچاریہ اپنے عہد کی پیداوار تھے اور ایک نئے مذہب توحید کے بانی تھے جو برہمنوں کی بت پرستی کے برعکس تھا. شنکر کے اس نظریہ توحید کو اسلام کے سخت توحید پسند مذہب سے بڑی تقویت ملی. شنکر اس وقت پیدا ہوئے جب مسلمانوں نے جنوبی ہند میں قدم جما کر وہاں کے ایک راجا کو مسلمان کر لیا تھا اور اپنی تبلیغی کوششوں میں مصروف ہو چکے تھے ان کی جائے پیدائش بھی وہ جگہ تھی جہاث عربستان اور ایران سے جہاز آ کر ٹھہرتے تھے لہذا اگر شنکر کا نیا نظریہ توحید اسلامی توحید کی ایک گونج قرار دیا جائے تو کوئی نئی  اور حیرت کی بات نہ  ہوگی.

آگے چل کر ڈاکٹر تارا چند لکھتے ہیں کہ ” راما نوجا کے وقت مسلمان کاروبار منڈل ساحل پر آباد ہو چکے تھے اس وقت مسلم اولیاء مثل ناصر ولی وغیرہ اسلام کی تبلیغ میں مصروف تھے اور ہندوؤں اور ان کے حکمرانوں مثل راجا کنپوریا وغیرہ کو مسلمان بنا رہے تھے اور ان سے مساجد کے لیے زمینیں حاصل کر رہے تھے. مزید آگے چل کر ڈاکٹر تارا چند لکھتے ہیں” ساتویں صدی کے جنوبی ہند کے دیگر عقائد پر بھی اسلام کی چھاپ نمایاں نظر آتی ہے مثلاً خدائے واحد لا شریک کی عبادت، عبادت الہی میں عشق و محبت کا زور، تزکیہ ء نفس، گورو یا پیر و مرشد کا احترام، ذات پات کا ترجمہ وغیرہ “۔

ڈاکٹر تارا چند ان اصلاحات کو اسلام اور صرف اسلام کی پیداوار قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
” چنانچہ راما نوجا نے شورشوں کو مندروں میں داخل ہونے کی اجازت دے رکھی تھی ان اصلاحات کو جین مت اور بدھ مت سے ہرگز منسوب نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان مذاہب میں بھی ذات پات اور بت پرستی کی لعنت گھس چکی تھی. بھگتی یعنی محبت اور پاراپتی (اطاعت) کا عنصر خالص اسلامی اثرات کا نتیجہ ہے ” مصنف بھمدار کار اسے ہندو مت ہر عیسائیت کے اثرات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے ایک مسلمان ہی سچا پارا پنا (مطیع) ہوتا ہے اور یہ بات بھی ثابت ہے راما نوجا نے یہ عقائد اسلام سے حاصل کیے. احترام شیخ کا یہ اصول قرون وسطی کے ہندو ازم کے اندر صوفیاء اسلام کے ذریعے داخل ہوا. شنکر کا نظریہ انانند گیری، یعنی شوا میں فنا کو جانا اور الورا اور اچارو کا وشنو. میں فنا ہو جانا اور اناپاتھی لا گرو وادا یہ تمام نظریات صوفیانہ ہیں اور صوفیوں کے ذریعے سارے ہندوستان میں پھیل گئے. چنانچہ عصر حاضر کا ایک ہندو اسکالر لکھتا ہے کہ ہندو مذہب میں استاد کو اتنا اونچا مقام دیا جاتا ہے میرے نزدیک یہ اسلام کا اثر ہے. راما نوجا اور آرتھا پنچیکائےکا عقیدہ آچاریہ بھیما بھی اسلام سے ماخوذ ہے نہ کہ عیسائیت سے. اور یہ اثرات جنوبی ہند سے ظاہر ہو رہے تھے کہ شمالی ہند تک ابھی اسلام نہیں پہنچا تھا.

ہندو فرقے لنگا(جگنا ماس) اور سدھار پر صوفی اثرات..

ڈاکٹر تارا چند کے مطابق ” جنوبی ہند کا ذکر کرنے سے قبل دو اور ہندو فرقوں کا ذکر ضروری یے کیونکہ ان پر اسلامی اثرات سب مذکورہ بالا فرقوں سے زیادہ ہوئے ہیں ان فرقوں کے نام سے لنگاہ (جگنا ماس) اور سدھارا ہیں. ہندو. مت کے ان فرقوں کی عادات و خصائل، عقائد و اعمال برہمنوں سے مختلف ہیں یہ لوگ خدائے واحد لا شریک کی پرستش کرتے ہیں جسے وہ پارا شوا کے نام سے یاد کرتے ہیں. وہ بلند ترین تجلیات اور کمالات کا مرکز، وہ تمام تر خوشیوں کا منبع، لازوال ہستی جو ہر مادہ تغیرات سے پاک ایک عالمگیر ہستی ہے جسے وہ پربھو کہہ کر پکارتے ہیں. انسان کی شکل میں جو ہادی آیا وہ اس ستار و غفار کا نائب ہے جسے وہ اپنی زبان میں بساوا کہتے ہیں. ان نائب یادیں کے نام ان کی زبان میں ریوان، مارول، اکوراما اور پنڈت ہیں پروفیسر براؤن کا خیال ہے کہ یہ مسلمانوں کے چار پیر ہیں جو روحانی تربیت پر مامور ہیں اور جن کی مرید بنانے کی رسومات اس قوم کے چار پیشوا چیلہ بناتے وقت ادا کرتے ہیں. ان کے چیلہ بنانے کے قواعد وہی ہیں جو مسلم صوفیاء کے ہیں. ”

Advertisements
julia rana solicitors london

ان کے عقائد بھی مسلمانوں جیسے ہیں جو قدیم مہا بھارت دور سے چلتے اپنے رواجوں کی نفی کرتے ہیں جن میں ذات پات کے امتیاز کی نفی، امیر غریب یا مرد و عورت کے حقوق میں فرق جیسے بنیادی عقائد بھی شامل ہیں. ڈاکٹر تارا چند کے مطابق مورخ نائرن (nairn) کا بھی یہی خیال ہے کہ لنگایت فرقہ اسلامی تعلیمات کی پیداوار ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا نظریہ پیدا نہیں کیا جا سکتا کہ جس سے ان کے عقائد میں اس قدر انقلاب واقع ہو سکے کہ وہ مردہ جلانے، ذات پات کی تفریق کرنے، شادی بیاہ جیسی اہم رسومات میں غیر متعلق افعال کر دیں اور مجاہدانہ زندگی جو انہوں نے اپنے ہادی سے سیکھی پر عمل کرنے لگیں. ” ڈاکٹر تارا چند نے اس قوم کے اسلامی عقائد کی جو تفصیل بیان کی ہے اس میں سے چند باتیں یہاں نقل کی جا رہی ہیں. غیر اسلامی رسومات چھڑانے کے لیے ان کے رہنما یہ دعوت دیتے ہیں :
” گھوڑوں کی قربانی بند کردو. اجاپا منترا کی بیعت چھوڑ دو، آگ کی پوجا چھوڑ دو، گیاتری جادو کی رغبت ترک کردو، لوگوں پر جادو مت کرو، خدا کی پرستش کرو اور ذات پات کا چکر چھوڑ دو، کیونکہ سب سے اعلی ذات اس کی ذات ہے جو خدا کا بندہ ہے،.”
مندرجہ ذیل عبارت تو بعینہ صوفیاء کرام کے مقام فنا فی اللہ کا بیان ہے :
” آہ میں وہ لذت کیسے بیان کروں کہ. جب میرا وجود برف کہ طرح گھل کر پانی کے ساتھ یک جان ہو جاتا ہے. جیسے آگ کے اندر لاکھ کی مورتی. آہ! میں کیسے کہوں کہ میں خدا سنگنام ڈیرا کے ساتھ ایک ہو جاتا ہوں. جب آسمان، زمین سب کچھ گم ہو جاتا ہے ساری کائنات برف کے ٹکڑے کی طرح اور میں ایسے سمندر میں پہنچ چکا ہوں جہاں لذت ہی لذت ہے اور دوئی کا نام  نہیں”
اس قوم کے بزرگوں کی یہ عبارت قابل غور ہے :
” خدا وہ نورہے جو نہ آسمانوں میں سما سکتا ہے نہ زمین میں، وہ میرا بادشاہ ہے جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے. ”
راما نند اور بھگت کبیر شمالی ہند میں تصوف کے اثرات..
اس کے بعد پروفیسر تارا چند نے شمالی ہند میثاق اسلامی اثرات کو بیان کرتے ہوئے ان دو روحانی پیشواؤں کی مثال پیش کی ہے جو تصوف سے بہت متاثر تھے.
راما نند جنوبی و شامل ہند کے درمیان بھگتی تحریک کا پل ہے. بند کار اور گریسن جیسے سکالروں کا خیال ہے کہ راما نند، راما نوج سے چوتھی پشت پر ہے.. میکن لیف کہتا ہے کہ 1249ء میں پریاگ (آلہ آباد) کے ایک گھرانے میں پیدا ہونے والے راما نند آزاد ذہنیت کے مالک تھے. انھوں نے بہت ممالک کے سفر کیے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے اپنے مذہب کے پرانے خیالات ترک کر دیے.
بھگت کبیر کے متعلق ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ” کبیر کا مذہب کیا تھا. نابھا جی کہتے ہیں وہ ذات پات کے منکر تھے اور نہ ہی ہندو مت کے چھ مکاتبِ فکر کو مانتے تھے اور نہ برہمنوں کے بنائے ہوئے زندگی کے چار حصوں میں یقین رکھتے تھے. ان کا مذہب بھگتی (محبت) تھا. جو انہوں نے صوفیا سے اخد کیا. کبیر کی تعلیمات وہی تھیں جو صوفیاء کی تھیں ہندو دھرم میں ان کا کوئی پیشوا نہیں تھا…. اب ہم اس سلسلے کو کچھ دیر کے لیے موقوف کر کے واپس اسلامی نظریہ تصوف کی طرف چلیں گے…
جاری ہے۔۔۔

Facebook Comments

سائرہ ممتاز
اشک افشانی اگر لکھنا ہے تو ہاں میں لکھتی ہوں... درد اگر کشید کرنا اگر فن ہے تو مجھے یہ فن سیکھنے کا شوق ہے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply