چاند کا آنسو۔مریم مجید ڈار

چاند کی بڑھیا کی آنکھوں میں دو آنسو رہا کرتے تھے ۔ایک شام جب بڑھیا سوت کات رہی تھی تو یونہی اس نے زمین پہ جھانکا۔۔تو اس نے کیا دیکھا؟؟؟

اس نے دیکھا کہ زمین کی سبھی عورتیں بہت دکھی، افسردہ اور مضحمل ہیں ۔۔گھاس پھونس کی مانند بے وقعت عورتیں ۔۔روتی بسورتی اور اداس۔بڑھیا بھی تو ایک عورت تھی ۔اس کا دل پسیج گیا اور اس نے اپنے ایک آنسو کو حکم دیا کہ وہ زمین پر اترے اور زمین پر جو عورت سب سے دکھی اور ضرورتمند ہو وہ اس کے دکھوں کا مداوا کر ے۔
آنسو اپنی اس عزت افزائی پہ بہت خوش ہوا ۔۔بے وقوف!! وہ نہیں جانتا تھا کہ کائنات کی کوئی شے عورت کی اداسی کا مداوا نہیں کر سکتی۔

تو آنسو خوشی خوشی زمین کی جانب روانہ ہوا اور بڑھیا ایک آنسو کے ہمراہ سوت کاتتی رہی، کاتتی رہی، کاتتی رہی۔۔۔اس نے دونوں آنسو کیوں نہ بھیجے؟؟؟ معلوم نہیں ۔۔۔
آنسو سب سے پہلے جس گھر میں اترا وہاں عورتوں کا ایک ڈھیر بھرا ہوا تھا۔۔اور وہ سب بھوکی عورتیں تھیں ۔۔چھوٹی بڑی بوڑھی جوان۔۔چالاک معصوم عورتیں۔۔بھوکی عورتیں ۔وہ بھوک سے بلبلاتی تھیں اور ایک دوسری کو بھنبھوڑتی نوچتی کھسوٹتی تھیں ۔۔مگر ان کی بھوک ہمیشہ وہیں کی وہیں رہتی تھی۔۔ وہ کیوں بھوکی رہتی تھیں؟؟؟ کیونکہ ان کے مرد صرف اپنی بھوک سے آشنا تھے۔وہ صرف مردوں کی بھوک  کو معتبر جانتے تھے۔۔آنسو کو ان سے بہت ہمدردی ہوئی، اور اس نے ان کے گدھیوں جیسے بدنوں پر اپنا کچھ حصہ مل دیا۔پھر کیا ہوا؟؟ کیا ان کی بھوک مٹ گئی؟؟؟ کیا وہ ہنوز  ایک دوسری کو بھنبھوڑتی رہیں؟؟معلوم نہیں ۔

آنسو بہتا رہا بہتا رہا۔۔۔اور بہتے بہتے ایک محلے کے آخری مکان کے قریب آن ٹھہرا۔۔ اس مکان کے ایک کمرے میں ایک جوان عورت درد زہ میں مبتلا تھی اور وہ ذبح ہوتی ہوئی ادھ کٹی بکری کی طرح بلبلا رہی تھی۔۔اس عورت کا منہ اس کے قریب کھڑی چار عورتوں نے دبا رکھا تھا. کیوں دبا رکھا تھا؟؟؟ کیونکہ اگر اس کی چیخوں کی آواز گھر کے مردوں کے کانوں میں پڑ جاتی تو وہ غیرت سے مر جاتے۔۔۔وہ اس کو درد برداشت کرنے کی تلقین کر رہی تھیں. آنسو بیچارہ تلملا کر رہ گیا۔۔اسے درد زہ میں مبتلا عورت دنیا کی سب سے دکھی عورت لگی اور اس نے اپنا کچھ وجود اس عورت کی رانوں میں ٹپکا دیا۔۔پھر کیا ہوا؟؟ کیا مردوں کی غیرت بچ گئی؟؟ کیا ولادت بغیر چیخے انجام پا گئی؟؟؟ معلوم نہیں ۔۔۔

آنسو اس کمرے کے دروازے کے نیچے سے رستہ بنا کر باہر نکل آیا اور بہتا رہا بہتا رہا۔۔۔۔۔
بہتے بہتے تھک گیا اور دم لینے کو ایک جگہ رک گیا۔جس جگہ وہ ٹھہرا تھا وہاں سے کچھ فاصلے پر مشتعل مردوں کا ایک ہجوم ایک مکان کو گھیرے ہوئے کھڑا تھا. ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے اور پتھر تھے اور وہ یک زبان ہو کر چلا رہے تھے۔۔

“نکالو اس زانیہ کو ۔۔۔باہر نکالو اسے ملعونہ۔۔۔شیطانہ۔۔۔فاحشہ ۔۔۔” وہ ایک درخت کے تنے کے پیچھے چھپ گیا اور سن گن لینے لگا. مجمع کی گفتگو سے پتا چلا کہ وہ مکان ایک مصنفہ کا تھا اور اس نے کچھ ایسا لکھ دیا تھا جو مردوں کو ہیجڑا بنانے کی قدرت رکھتا تھا۔۔

تو اگر مرد ہیجڑے بن جاتے تو عورتوں کا کیا ہوتا؟؟؟

ایکدم مجمع پرجوش ہو کر چلایا اور کچھ نوجوان مصنفہ کو بالوں سے گھسیٹتے ہوئے باہر لا رہے تھے ۔۔انہوں نے اسے ہجوم کے درمیان کٹی ہوئی مرغی کہ طرح پھینکا اور مردانگی اس پہ ٹوٹ پڑی۔۔۔ٹھڈے، ڈنڈے ۔۔۔اور پھر ایک پتھر اس کی پیشانی پہ ایسا تاک کے لگا کہ آنکھوں کے وسط میں شوخ سرخ خون کی پھلجھڑی پھوٹ پڑی. ۔مصنفہ کی آنکھوں میں موت نے چھلانگ لگائی تو وہ کرب سے مضحکہ خیز انداز میں پھیل گئیں ۔۔اتنی کہ اس کی بھوری آنکھوں کی پتلی میں دراڑیں پڑنے لگیں ۔۔آنسو کا پتہ پانی ہو چکا تھا ۔۔لرزتے کانپتے آگے کو بڑھا اور مصنفہ کی تکلیف کے مداوے کے طور  پر اپنا تھوڑا سا وجود اس کی آنکھوں میں گرا دیا۔۔پھر کیا ہوا؟؟ موت سے پھیلی پتلیاں سکڑ گئیں؟؟ معلوم نہیں ۔۔۔مصنفہ کی موت آسان ہو گئی ۔۔۔؟؟؟معلوم نہیں ۔۔۔۔
آنسو کا وجود مختصر ہو گیا تھا اور تاحال اسے اب سے دکھی عورت نہیں ملی تھی۔۔۔

وہ بہتا رہا بہتا رہا۔۔۔۔اور ایک روشنیوں سے سجے گھر کی چوکھٹ پر تھک کر بیٹھ رہا۔۔۔وہاں آج شام کو ہی شادی کی تقریب منقعد ہوئی تھی اور آرائشی روشنیاں ابھی تک جھلملا رہی تھیں ۔ آنسو ہمت جمع کر کے اٹھنے کا ارادہ  کر ہی  رہا تھا کہ اسے ایک درد بھری سسکی سنائی دی ۔۔سسکی میں ایسا درد تھا مانو جسم کی کھال زندہ  کھینچ لی گئی ہو۔۔”شاید یہاں بھی کوئی دکھی عورت ہے۔۔ہو سکتا ہے وہی دنیا کی سب سے دکھی عورت ہو۔۔

“اس نے سوچا اور کمرے کے دریچے سے جھانکنے لگا. وہ حجلہ عروسی تھا اور ایک تقریبا پچاس سالہ مرد ایک بارہ سال کی عورت سے زبردستی حقوق زوجیت وصول کر رہا تھا ۔۔اس کے منہ میں سرخ زرتار آنچل ٹھنسا ہوا تھا اور مرد ماچس کی ایک تیلی جلا کر یہ اطمینان کر رہا تھا کہ اس کی بارہ سالہ بیوی باکرہ تو ہے ناں۔۔؟؟

بارہ سالہ عورت مردانگی کے شایان شان کشادگی نہیں رکھتی تھی سو اس کی آنکھوں میں ایک مجسم تنگی تھی۔۔۔وہی تنگی جو اس کے پچاس سالہ شوہر کو درکار تھی۔۔۔اس کی پتلی پتلی ٹانگوں بانہوں اور کمزور سے دہانے پر جگہ جگہ خراشیں اور نیل تھے۔۔

آنسو کا دکھ ابلنے لگا۔۔اس نے اپنے سکڑتے وجود کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے تن کی کچھ بوندیں اس کے منہ میں ٹھنسے ہوئے سرخ دوپٹے میں گرا دیں تا کہ نو عمر دلہن اس کی نمی سے کچھ راحت پا سکے ۔۔پھر کیا ہوا؟؟ کیا بارہ سالہ عورت کو حقوق زوجیت ادا کرنے میں آسانی ہو گئی؟؟ معلوم نہیں ۔۔۔کیا اس کا جسم کچی اینٹ کی طرح تڑخ گیا؟؟ معلوم نہیں۔۔۔

آنسو مداوا، کرتے، کرتے، اب ختم ہو رہا تھا اور سب سے دکھی عورت مل کر، ہی نہیں دے رہی تھی۔۔۔وہ دریچے سے باہر کود گیا اور بہنے لگا۔۔۔
وہ بہتے بہتے شہر کے باہر آ گیا تھا اور قریب ہی ایک شمشان گھاٹ دکھائی دے رہا تھا۔۔
شمشان گھاٹ پر ایک ارتھی جلائے جانے کی تیاری کی جا رہی تھی۔لکڑیوں کی تعداد، اور تیل کی مقدار، جانچی جا رہی تھی۔۔اس نے غور سے دیکھا تو مرنے والے نوجوان مرد کی ارتھی کے ساتھ ایک لاش کی مانند سفید، دبلی پتلی دلہن کے لباس، اور گہنوں سے لدی، عورت کھڑی تھی۔۔ اوہ خدایا!

تو وہ مرنے والے کی پتنی تھی ۔اس کا پتی مر گیا  تھا، لہذا اس کا جینا بے کار تھا. دھرم کی اونچائی پہ پہنچنے کے لٰئے اور پتی ورتا کا ثبوت دینے کے لئے مردہ مرد کے، ساتھ زندہ عورت کا ستی ہونا لازمی تھا۔۔۔چتا کی لکڑیاں چنی جا چکی تھیں ۔دو عورتوں نے اس کو جکڑا اور دو نے اس  کے منہ کے  ساتھ ایک بڑا سا  پیالہ لگا دیا۔۔۔اس میں گاڑھا سفید محلول تھا ۔۔ویسا ہی تھا جیسا  وہ جوہر ہوتا ہے، جس سے انسانیت کا تسلسل برقرار  ہے۔۔۔وہ محلول کیلے اور دھتورے کے ملن سے بنا ایک نشہ  آور  محلول تھا جو ودھوا کو باآسانی جلنے کی ہمت، فراہم کرتا تھا۔۔آنسو جانتا  تھا کہ اب اس عورت کو ستی ہونے سے اس کا بھگوان بھی بچا  نہیں سکتا اس لیے اس نے اس کی تکلیف میں کمی کی خاطر اپنا  آپ اس محلول کے  پیالے میں دھکیلا۔۔۔ستی ہونے والی پی گئی۔۔۔پھر کیا ہوا؟؟

کیا زندہ کھال کے اور مردہ کھال کے جلنے کی بو ایک جیسی تھی؟؟؟ معلوم نہیں ۔کیا عورت کے تن سے نکلتے شعلوں میں بھگوان جل مرا؟؟؟ معلوم نہیں ۔۔۔

آنسو کی عمر کی نقدی بھی تمام  ہونے  کو  تھی اور  تاحال روئے زمین کی سب سے  ضرورت مند  اور افسردہ عورت  نہ مل سکی تھی۔۔وہ شکستہ  قدموں سے شہر سے باہر جانے  والے  راستے میں پھسلتا رہا۔۔۔چلتے چلتے وہ  بالا خانے تک آ پہنچا اور پھر۔۔۔اس نے دنیا کی سب سے افسردہ اور ضرورت مند عورتیں دیکھیں ۔۔۔چالاک مکار لومڑی صفت عورتیں جو اتنی افسردہ  تھیں کہ ہنس ہنس کر پاگل ہو رہی تھیں ۔۔تو انہوں نے چاند  کا بچا کھچا آنسو جھپٹ لیا اور اپنے کالے گورے دلکش اور بھدے جسم آنسو کی چاندی میں قلعی کرا لئے۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

انہوں نے چاند کے  آنسو کو خود  پہ ملا اور اتنی چکاچوند ہو گئی کہ مرد دیوانوں کی مانند کھنچے چلے آنے لگے۔۔ان کا  اضمحلال قہقہوں میں بدل گیا ۔۔دنیا کی سب سے ضرورت مند عورتیں چمکنے لگیں۔۔۔۔چاند کا آنسو مٹ  گیا ۔۔۔پھر کیا، ہوا؟؟؟ کیا بالا خانے کی عورتوں نے افسردگی مٹانے کا طریقہ کھوج لیا تھا۔۔۔معلوم نہیں!
بالا خانے سجتے رہے، سجتےرہے، سجتے رہے۔۔۔۔۔
بڑھیا ایک آنسو کے ساتھ سوت کاتتی رہی، کاتتی رہی، کاتتی رہی ۔۔۔۔!

Facebook Comments

مریم مجید
احساس کے موتیوں میں تحریر کا دھاگہ پرو کر مالا بناتی ہوئی ایک معصوم لڑکی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply