ٹیڑھی پسلی ؟

دروغ بر گردن راوی۔۔۔ سنا ہے کہ لندن کے ہائیڈ پارک میں جہاں ہر طرح کی تقریر کی آزادی ہے، مشہور اشتراکی مفکر کارل مارکس دنیا بھر کے مزدوروں کو دعوت دیتا کہ ” دنیا کے مزدور!! ایک ہو جاؤ۔۔۔۔ بمشکل ہی کوئی اس کی بات سنتا۔ ایک دن غلطی سے وہ کہہ بیٹھا کہ ” دنیا کے ،مظلومو، ایک ہو جاؤ۔
کہتے ہیں کہ یہاں مارکس کی زبان سے یہ الفاظ پھسلے اور اس سے پہلے کہ وہ اپنی تصحیح کرتا۔ پل بھر میں پارک ایسا بھرا کہ تل دھرنے کی جگہ نہ رہی۔ یہ سارے کے سارے مرد تھے، اور شادی شدہ تھے۔
مجھے یقین ہے کہ یہ سچ نہیں۔ کسی نے یونہی بے پر کی اڑائی ہے۔ میں نے تو اپنے ہاں جو بھی فلم اور ڈرامے دیکھے ان میں مرد کو عورتوں پر ظلم ڈھاتے ہی دیکھا۔ ایسے ڈرامے دیکھ کر مجھے ان مردوں کی تلاش ہوئی۔ میری مار صرف دوبئی،شارجہ اور کراچی کی حد تک ہے۔ میں حدود بلدیہ دوبئی ، شارجہ اور کراچی میں ایسا کوئی جری مرد تلاش نہ کرسکا جس میں اتنی ہمت ہو۔

اور مرد ظلم کرے تو کیوں؟ یہ عورت ہی تو ہے جس کے وجود سے تصویر کائنات اس قدر رنگین ہے۔اور وہ کونسا ایسا مرد ہے جس کے حواسوں پر عورت سوار نہیں ہے۔کیا یہ دنیا ایک دن بھی رہنے کے قابل ہوتی اگر وجود زن سے خالی ہوتی۔ مرد وزن کے وجود کی تکمیل تب ہی ہوتی ہے جب وہ شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں۔ لیکن یہ مرد بھی عجیب مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ جہاں اس قدر عورت ان کے سر پر سوار رہتی ہے وہیں اپنی ذاتی بیوی کے بارے میں نجانے کیا کیا بے پر کی اڑاتے رہتے ہیں۔ ہر لطیفے سے مرد کی مظلومیت ٹپکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر جوڑے کا معاملہ مختلف ہوتا ہےُ۔ مثلاً پچھلے دنوں مجھے کسی نے ایک لطیفہ بھیجا وہ کچھ یوں تھا
” بیویاں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو شوہر کی بات سنتی ہے، اس کے خیالات کو سمجھتی ہے، اس سے محبت سے پیش آتی ہے، کبھی کوئی فرمائش نہیں کرتی اور شوہر کتنا بھی غصہ کرے، وہ مسکراتی رہتی ہے۔
اور دوسری وہ جو سب کے پاس ہے۔

میں نے یہ لطیفہ اپنے ایک بے تکلف دوست کو بھیج دیا ۔ ان کا جواب کچھ یوں آیا۔
بھئی ایک تیسری بھی ہوتی ہے جو صرف اس خادم کے پاس ہے۔
چونکہ ہمارے خاندانی روابط ہیں تو مجھے ان کی بات میں خاصا وزن نظر آیا۔
ہمارے ایک دوست ایک دن جلد گھر آگئے تو بھابی نے پریشانی میں پوچھا کہ خیریت تو ہے، آج جلد کیوں آگئے، دوست کہنے لگے کہ باس سے جھگڑا ہوگیا، اس نے کہا جہنم میں جاؤ، ۔۔۔۔
ان صاحب کو میگرین کی شکایت رہتی تھی۔ ڈاکٹر یونہی پوچھ بیٹھا کہ تمہارے سردرد کا کیا حال ہے۔ یہ نجانے کہاں کھوئے ہوئے تھے۔ بولے، میکے گئی ہوئی ہے۔
مرد ویسے بھی موبائل اور آٹوموبائیل (کار) اور ٹی وی اور بیوی سے کبھی مطمئن نہیں رہتے۔ انہیں ہمیشہ یہ حسد اور حسرت رہتی ہے کہ پڑوس میں اس سے بہتر ماڈل موجود ہیں۔
یوں نہیں کہ آپ ہمیشہ غلط اور بیوی درست ہے بلکہ شادی شدہ مرد اپنے سر کی سلامتی کو اپنی انا سے زیادہ عزیز رکھتا ہے۔ ازدواجی زندگی سے بیزار کچھ مرد اپنا غم غلط کرنے کے لیے شراب خانہ خراب کا سہارا لیتے ہیں اور ڈبل پیگ اندر جاتے ہی وہ اپنے آپ کو سنگل سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ وقتی طور پر تو جی کو خوش رکھنے کا بہانہ ہے، اس وقتی خوش فہمی کے نتائج کچھ زیادہ خوش آئند نہیں ہوتے اور بندہ بہت جلد اپنی اوقات میں آجاتا ہے۔

مرد بھی کم قصوروار نہیں ہے کہ وہ بنا ہی ایسے خمیر سے ہے کہ وہ اسی سلوک کا مستحق ہے۔ عورت جب آنکھ بند کرتی ہے تو وہ اس کا تصور کرتی ہے جسے وہ سب سے زیادہ چاہتی ہے۔ مرد جب ایسے کسی تصور کیلئے آنکھ بند کرتا ہے تو گویا ایک نہ ختم ہونے والی فلم چلنا شروع ہوجاتی ہے۔ ایسے ہی مرد لیکن عورت میں نجانے کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک صاحب کی ٹی شرٹ پر لکھا ہوا تھا ” تمام عورتیں شیطان ہوتی ہیں، میری بیوی ان کی ملکہ ہے”

اب بھلا ایسی باتیں کرکے وہ اپنے گھر میں کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے۔مرد اور عورت دونوں کی اپنی ہی دنیا، اپنے مسائل ، اہنی سمجھ اور اپنی پسند ہوتی ہے۔ مثلاً عورتیں جوتے اس لئے پسند کرتی ہیں کہ لباس کا یہ واحد جزو ہے جو ، وہ کچھ بھی کھائیں ، پئیں، ان کی صحت اور عمر کی چغلی نہیں کھاتا۔خواتین کے اور بیویوں کے بارے میں زیادہ تر باتیں مردوں کی اس جبلی فکر کا نتیجہ ہے کہ مرد ، عورتوں سے برتر ہوتی ہیں ۔ اور میں ان تمام من گھڑت اور بے بنیاد الزامات ، خیالات اور دل آزار لطیفوں کی مذمت کرتا ہوں۔ لیکن ایک معاملے میں مردوں کو بہتر سمجھتا ہوں وہ ہے گاڑی چلانا۔ خواتین عموماً اچھی ڈرائیور نہیں ہوتیں، وجہ اس کی، وہ آئینے ہیں جو کار میں جا بجا لگے ہوتے ہیں اور جوان کی توجہ کےُ ارتکاز کا باعث بنتے ہیں۔ آئینے پر نظر پڑتے ہی خواتین پھر کچھ اور نہیں دیکھیں ، اپنے علاوہ۔

دفتر میں ایک دن میٹنگ کے دوران ہمارے ایک سینئر منیجر کی بیگم کافون آیا۔ انہوں نے کاہلی کے مارے فون کان پر رکھنے کی بجائے، اسپیکر آن کردیا۔ ” ہاں سونیا، کیا ہوا۔” ان کی بیگم کی آواز آئی” ڈارلنگ دو خبریں ہیں، ایک اچھی اور ایک بری، تمھیں کون سی پہلے سناؤں۔
منیجر صاحب جھنجلا کر بولے، “بھئی اس وقت بہت مصروف ہوں تم صرف اچھی خبر سناؤ”
” تو سنو! اچھی خبر یہ ہے کہ اپنی نئی بی ایم ڈبلیو جو تم نے کل خریدی ہے، اس کا ائیر بیگ بالکل درست کام کرتا ہے”

میں نے عرض کیا ناں کہ مرد اور عورت کے پسند ناپسند کے معیار اور مشاغل مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں، مرد جتنا شاپنگ سے بیزار ہوتا ہے عورتیں اس قدر شاپنگ کی دیوانی ہوتی ہیں۔ چند دن پہلے کی بات ہے تین دن کی چھٹی ایک ساتھ آرہی تھی۔ ہم چند بے تکلف دوست اور انکی بیگمات اکھٹا بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ چھٹیوں کا پروگرام بن رہا تھا کہ تین دن میں کیا کیا جائے۔ ایک دوست نے تجویز کیا کہ کسی وادی یا جنگل میں چل کر کیمپنگ کی جائے اور کم از کم دودن وہاں گذارے جائیں۔خواتین نے بیک آواز، متفقہ طور پر اس تجویز کو مسترد کردیا کہ وہ ایسی جگہ سارا دن نہیں رہ سکتیں جہاں کوئی شاپنگ مال نہ ہو۔

اور آپ تو جانتے ہی ہیں کو خواتین کا تو یہ ہے کہ جانکنی کے عالم میں بھی انہیں علم ہوجائے کہ فلاں جگہ 90% رعایتی سیل لگی ہوئی ہے تو وہ ملک الموت کو پیچھے دھکیل کر اٹھ کھڑی ہوں کہ یہ موقع پھر آئے یا نہ آئے۔ ہم ایک بزرگ کی محفل میں بیٹھے تھے۔ کسی نے پوچھا کہ عورت خاموش ہو تو وہ کون سا دن ہوتا ہے جس پر بزرگ بولے، دفع کرویار بات کو کہ وہ کون سا دن ہوتا ہے بس انجوائے کرو کہ عالم دوبارہ نیست۔

مرد سارے ایک سے ہی ہوتے ہیں۔ اس بات کا انکشاف سب سے پہلے چین کی ایک خاتون کو ہوا جن کے شوہر مجمعے میں کہیں کھو گئے تھے۔ لیکن مرد تین مختلف ادوار میں مختلف طرح سے ظاہر ہوتے ہیں۔ یعنی جب تنہا یعنی غیر شادی شدہ ہوتا ہے تو حیران کن کام کرتا ہے۔ شادی نہ ہو، صرف عشق کے مرحلے میں ہوتو حیران کن چیزیں دیکھتا ہے، اور شادی ہوجائے تو حیران ہوتا ہے کہ ہائیں یہ میرے ساتھ کیا ہوا۔

عورتیں بہرحال بہت سی خوبیوں کی حامل ہوتی ہیں جنھیں ہم حاسد مرد، مان کر نہیں دیتے۔ بعض معاملات میں تو عورتیں واقعی جادوگر ہوتی ہیں۔ مثلاً ان میں یہ خداداد صلاحیت ہوتی ہے کہ ایک سیدھی سی بات کو بھی قابل بحث بنا دیں ۔ لیکن ایک نیک بیوی ہمیشہ اپنے شوہر کو معاف کر دیتی ہے جب وہ (شوہر) غلطی پر ہو۔
بہرحال خوشی کی بات یہ ہے کہ خواتین اور خصوصا” بیویاں،مردوں کے مقابلے میں ایک بہتر، پرسکون اور طویل زندگی گذارتی ہیں۔ ایک سیانے سی اس کی وجہ پوچھی تو وہ مرد دانا بولا کہ ان کی بیویاں جو نہیں ہوتیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بعض بد خواہوں کو یہ گمان گذرے گا کہ یہ ساری باتیں میں نے سماجی ذرائع ابلاغ (Social Media) پر مردوں کے پھیلائے ہوئے ، نسوانی تعصب سے پر ، لطیفوں اور اقوال سے گھڑی ہیں۔ یقین جانیے ایسا کچھ نہیں ہے۔ اگر آپ کو میری باتوں کا یقین نہیں ہے تو ایک پورا دن اپنی بیگم کے ساتھ گزاریں اور اگلے دن اسی پوسٹ پر رپورٹ کریں۔
اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply