بساند/تحریر: قراةالعین حیدر

اس بار بھی بارش نہیں ہوئی ۔۔۔ کرم دین نے اُڑتے ہوئے بادلوں کو دیکھ کے مایوسی سے آہ بھری۔ جانے یہ بارش کب ہوگی؟  کب اتنا مینہ برسے گا کہ اچھی فصل ہو اور پیٹ بھر اناج گھر میں پڑے۔ ٹیوب ویل پہلے تو اس کے استعمال میں تھا۔ لیکن ملک اکبر کے خلاف گواہی دینے کے بعد ملک نے اپنے ٹیوب ویل سے اس کی زمینوں کو پانی دینے سے انکار کردیا تھا۔ تو اس کے بعد سرکاری نہر کا پانی ہی اس کی امید تھا۔

 

 

 

 

سیدھا آدمی تھا دنیاوی جوڑ توڑ سے نابلد کبھی کسی کےذ ریعے پٹواری کو کہلواتا کبھی کسی چھوٹے زمیندار کی منت سماجت کرتا کہ تحصیلدار سے کہہ کر میرے کھیتوں کو پانی لگوا دو۔ ملک اکبر کے خلاف گواہی اس نے صرف انسانیت کے نام پر دی۔ برادری ہو یا نہ ہو پر گاؤں کی بیٹیاں بہنیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں نہ چودھری اکبر کے بندے دُلے چوکیدار کی بیٹی کی عزت پہ ہاتھ ڈالتے نہ وہ بیچاری کنویں میں کُود کے اپنی جان دیتی۔ جس وقت دُلے چوکیدار کی بیٹی گاؤں کی گلی میں مسجد کے پاس والے کنویں کی منڈیر پر چھلانگ لگانے کیلئے کھڑی تھی۔ کرم دین اپنے گھر سے کھیتوں میں جانے کیلئے نکل رہا تھا۔ ہاجرہ نے تین لوگوں کے سامنے کنویں میں چھلانگ لگائی تھی ایک تو کرم دین تھا جو پیچھے تھا کنویں کے قریب چودھری اکبر کا خاص آدمی مہر الٰہی بخش اور اس کے پیچھے انور تھا۔ دونوں نے لڑکی کو بچانے کی کوئی کوشش نہ کی۔

صبح پولیس نے کنویں سے لڑکی کی لاش برآمد کی، اس کی حالت سے لگ رہا تھا کہ زیادتی کی گئی ہے۔ پولیس نے جب لوگوں سے پوچھ گچھ کی تو کرم دین خود ہی بول اٹھا کہ اس نے کنویں کے قریب لڑکی کے پیچھے الٰہی بخش اور انور کو دیکھا تھا۔ پولیس ان  دونوں کو گرفتار کر کے لے گئی۔ پورے گاؤں میں دُہائی مچ گئی کہ کرم دین نے ملک اکبر کے بندوں کے خلاف گواہی دی ہے۔ کوئی اور موقع ہوتا تو چودھری اکبر کرم دین اور اس کے خاندان کو کولہو میں پِسوا دیتا لیکن اس بار بات اس پر آرہی تھی اس لئے خاموش رہا۔

ہمارے دیہی علاقوں میں تعلیم کا فقدان صرف اس لئے رکھا جاتا ہے کہ لوگ روشن خیالی سے دور رہیں اور بدستور جاگیرداروں کے ظلم برداشت کرتے رہیں۔ جاگیرداروں کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنا رعب دبدبہ قائم رکھنے کیلئے بدمعاشوں کی چھوٹی موٹی فوج رکھی جائے جن سے ڈر کر لوگ اس جاگیردار کی عزت کرنے اور اسکے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہوں۔

بس وہ دن اور آج کا دن کھیتوں سے پانی کا انکار ہوگیا بلکہ وہ لوگ جو چودھری اکبر کے نام سے بدکتے تھے انہوں نے خود ہی کرم دین سے سوشل بائیکاٹ کرلیا۔ پہلے تو اسے اور اس کے گھر والوں کو اندازہ نہ ہوا لیکن جب نیتی گجری نے اپنے بیٹے کی شادی کیلئے کرم دین کے گھرانے کو شادی کی دعوت نہ دی۔ حالانکہ کرم دین کی بیوی صیبو اور نیتی کا بہت یارانہ تھا۔ تب اسے اندازہ ہوا کہ لوگوں کے کھچے کھچے رہنے کی وجہ دراصل چودھری اکبر والا معاملہ ہے۔ اسکے اپنے دو لڑکے تھے جو سکول جاتے تھے۔اسے اپنی بیٹیوں کو پڑھانے کا بڑا شوق تھا لیکن کبھی اتنا لمبا چوڑا کما ہی نہ پایا کہ بچیاں سکول جاسکیں۔ قرآن مجید پڑھنے کے بعد اب وہ گھر کے کام کاج میں ماں کا ہاتھ بٹاتیں اور ساتھ ساتھ اجرت پر کشیدہ کاری کرتیں۔ لیکن حالات سدھرنے میں نہیں آرہے تھے کیونکہ کمانے والا تو وہ اکیلا ہی تھا۔ بچیاں کہاں اتنا کما پاتی تھیں۔ گاؤں کے ایک اور چھوٹے زمیندار کے کھیتوں میں کپاس کی چنائی کا کام چل رہا تھا۔ اس نے کرم دین کو کہلا بھیجا کہ اپنی دو بڑی بیٹیوں کو کپاس چننے کیلئے بھیج دے جس کی اجرت روزانہ دی جائے گی۔ گاؤں کی اور عورتیں بھی یہ کام کررہی تھیں، نہ چاہتے ہوئے بھی کرم دین نے اجازت دیدی۔ ایک تو بچیوں کے ملنے جلنے سے سماجی تعلقات میں بہتری آئے گی دوسرا چند پیسے ہاتھ آئیں گے۔ اس کی بڑی دونوں بیٹیاں عارفہ اور آصفہ دونوں کپاس چننے جانے لگیں۔ دونوں جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھ رہی تھیں، ماں نے حالات کے پیشِ نظر انہیں سمجھایا کہ کسی کے متعلق بات مت کرنا اور صرف کام سے کام رکھنا۔

بچیوں کو کام پہ جاتے چند ہفتے ہی ہوئے تھے کہ چودھری اکبر نے اپنے ایک کارندے کے ذریعے کہلا بھیجا کہ کرم دین اپنی بیٹیوں کو حویلی کام کاج کیلئے بھیج دے۔ لیکن یہاں اس نے انکار کردیا وہ ابھی دُلے چوکیدار کی بیٹی کے انجام کو بھولا نہیں تھا۔ اور زمین تھی کہ سوکھی پڑی تھی۔ فصل کو پانی ملتا تو وہ تیار ہوتی۔ اور وقت تھا کہ  بھاگ رہا تھا۔ کرم دین کو دوسرے گاؤں کے ایک زمیندار نے مشورہ دیا کہ پٹواری سے ملو، تاکہ کسی طرح تحصیلدار کو کہہ سن کر فصل کیلئے پانی کا بندوبست کیا جاسکے۔ اب کی بار حالات سے مجبور ہوکر وہ خود ہی پٹواری سے ملنے چلا گیا۔ عموما ً دیہی علاقوں میں پٹواری ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ وہی حاکم ، وہی تحصیلدار، وہی کمشنر اور وہی مجسٹریٹ۔ ۔۔ پریشان حال کرم دین کو فیقا پٹواری امید کی کرن لگ رہا تھا۔ فیقے نے پہلے تو سنی کی ان سنی کردی لیکن جب چوہدری رنگ علی نے بھی فیقے کی ذرا منت ترلا کیا کہ بال بچوں والا بندہ ہے کچھ لے دے کے اس کے کھیتوں تک پانی کا بندوبست کروا دو، تو بادلِ ناخواستہ فیقے پٹواری کو ہامی بھرنی ہی پڑی۔ اس نے دس ہزار نقد میں ہفتے کے دو دن کیلئے نہری پانی کی قیمت کا عندیہ دے دیا۔کرم دین کے پاس اگر دس ہزار نقد ہوتے تو کیا وہ بیٹیوں کو کپاس چننے کیلئے کسی کے کھیت میں بھیجتا۔ یہ سوچتے ہوئے وہ مایوس ہوکر لوٹ آیا۔

گھر آتے ہی وہ صحن میں پڑی چارپائی پر ڈھے سا گیا۔ صیبو روٹی پکانا چھوڑ کر فوراً  پانی کا کٹورہ لے کر اس کے پاس آئی۔ اس نے دھیرے دھیرے بیوی کو سارا حال بتا دیا۔ بیوی نے تسلی دی اور جب شام کو بچیاں کھیتوں سے کپاس کی چنائی کر کے لوٹیں تو اس نے دونوں بیٹیوں کے کان سے سونے کی بالیاں اتروا کر کرم دین کے حوالے کردیں۔

“کرم دین! زیور کا کیا ہے؟ ہماری زمین سونا اگلتی رہے بچیوں کیلئے زیور بہتیرا۔ تو فکر نہ کر گزر جائے گا یہ وقت بھی۔”

کرم دین نے آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ بالیاں ایک پڑیا میں باندھ کر کُرتے کی جیب میں رکھ لیں۔ علی الصباح وہ مضافاتی قصبے کے سنار کے پاس وہ بالیاں بیچ آیا، دس ہزار سے چند سو روپے اوپر تھے۔ اس نے وہ چند نوٹ بیوی کو دئیے اور دس ہزار لے کر پٹواری کے پاس چلا گیا۔ پٹواری کے سامنے پیسے رکھتے ہوئے وہ ر ندھی ہوئی آواز میں بولا۔ “فیقے میں بڑا مجبور ہوں کھیتوں کو پانی لگوا دے تاکہ میرے بال بچوں کا پیٹ بھر سکے۔ ہمیں محتاج ہونے سے بچا لے۔” فیقے نے پیسے شلوکے کی جیب میں ڈالتے ہوئے کہا ” تُو فکر نہ کر کرم دینا! تیرے کھیتوں کو پانی لگ جایا کرے گا۔”

اور پھر یونہی ہوا۔ کرم دین کے سوکھے کھیت ہفتہ میں دو دن پانی لگنے سے سیراب ہوگئے اور فصل بہتری کی طرف چل پڑی۔ اب پھر چار دن بعد پانی کی ضرورت ہوگی۔ امید ہے فصل اچھی رہ جائے گی۔ وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ زمین کو پانی پھر نہ لگا۔ وہ پھر پٹواری کے پیچھے پیچھے۔۔۔۔ اب کی بار اسے فیقے کی بات سمجھ میں نہ آئی۔ وہ کچھ پریشانی اور کچھ حیران سا اسکے چہرے کی جانب تکنے لگا۔ فیقے کو اندازہ ہوگیا کہ کرم دین کے پلے اس کی بات نہیں پڑی۔ اس نے ذرا  رازداری سے کہا “کرم دینا! دیکھ تو نے پیسے دئیے میں نے جوں کے توں تحصیلدار کو پکڑا دئیے۔ یار باش آدمی ہے ۔۔۔۔ تُو اپنی وڈی دھی کو رات کو تحصیلدار کے پاس بھیج دینا کھیتوں کو پانی لگ جائے گا۔ فجر ویلے گھر جاتے ہوئے لڑکی گھر لے جانا۔” کرم دین کو یوں لگا جیسے سخت پالے میں کسی نے اس کے کپڑے اتار دئیے ہوں۔ اس کے ماتھے پہ پسینہ آگیا۔ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولا “تُو نے مجھے دلّا سمجھ رکھا ہے۔”؟

فیقے نے چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ ہمدردی بٹورنے کے انداز میں کہا “دیکھ یہ تیرے بھلے کی بات ہے ۔۔ ۔ نہیں تو وہ دن دور نہیں جب گاوْں کے کنویں سے تیری دھی کی لاش نکلے گی۔

تحصیلدار نہ سہی چودھری اکبر کے بندے سہی۔۔۔۔ وہ تیری گواہی بھولا نہیں ہے۔” تحصیلدار کی بات یہیں رہ جائے گی۔۔۔۔ کھیتوں کو پانی بھی لگ جائے گا۔”

کرم دین کے پاوْن من من بھر کے ہوگئے اور اسے گھر دنیا کے آخری کنارے پہ لگ رہا تھا۔ دھیرے دھیرے قدم رکھتا وہ بہت دیر میں گھر آیا تو صیبو کو لگا کہ شاید پانی لگانے کیلئے لالچی فیقے پٹواری نے مزید پیسے نہ مانگ لئے ہوں۔ وہ کرم دین کیلئے پانی لائی لیکن وہ اٹھ کر نہ بیٹھا۔ صیبو خود کلامی کرنے لگی۔ “کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔ ہم اپنی بکریاں بیچ دیں گے تاکہ زمین کو پانی لگے۔۔۔ گھر کا سامان بیچ دیں گے۔ سود پہ پیسہ ادھار لے لیں گے۔ کرم دین تُو فکر نہ کر۔” لیکن کرم دین نے کوئی جواب نہ دیا۔ اب تو اس  کا ماتھا ٹِھنکا کرم دین تو بےہوش تھا ۔۔۔۔ وہ چیخی، چھوٹی بیٹی کو آواز دی جلدی سے ستو گھول کر لائی، بچی باپ کے تلوے ملنے لگی۔ کئی بار پانی چھینٹے منہ پہ مارنے سے کرم دین ہوش میں آگیا اور زار و قطار رونے لگا۔ تب بہت اصرار کے بعد کرم دین نے زبان کھولی۔ صیبو کو لگا کہ وہ اپنے پیروں پہ کھڑی نہ رہ سکے گی۔ وہ صحن کے کچے فرش پہ ہی بیٹھ گئی، اس کے آنسو تھمتے نہ تھے۔ زیرِ لب وہ فیقے پٹواری اور چوہدری اکبر کو کوسنے بھی دیتی جارہی تھی۔ آواز اس لئے مدھم رکھی کہ کہیں پڑوس میں کوئی سن نہ لے۔ اس رات کرم دین ااور صیبو رات بھر جاگتے رہے کہ گویا بیٹیوں کی رکھوالی بھوکے بھیڑیوں سے کررہے ہوں۔ گھر پر عجیب مردنی سی چھائی تھی۔

اگلے دن مغرب کے بعد فیقے پٹواری نے کرم دین کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا،۔ فیقے پر نظر پڑتے ہی کرم دین کچھ زیادہ ہی بےبسی محسوس کرنے لگا۔ اسے اندر صحن میں بٹھا لیا۔ لسی لے کر صیبو خود آئی، گلاس پکڑا کر اس کے منت ترکے کرنے لگی کہ تحصیلدار کو کچھ رقم اور بکریاں دی جاسکتی ہیں بیٹی کے علاوہ۔ لیکن فیقہ لڑکی کو کئی بار کھیتوں سے آتے جاتے ہوئے دیکھ چکا تھا۔ اپنی بات کی توثیق کیلئے کہنے لگا کہ اگر تحصیلدار صاحب کو تمہاری لڑکی پسند آگئی تو اگلی فصل تک تمہاری زمین کو پانی ملتا رہے گا بنا کسی معاوضے کے۔ تم لڑکی تیار کرکے میرے اڈے پہ لے آنا اور صبح لے جانا۔ میاں بیوی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور جیسے کوئی فیصلہ کرلیا۔ دونوں یکدم بولے “ٹھیک ہے”۔ پٹواری نے شاطرانہ انداز میں کہا ” اوئے کرم دینا! آج تک یہی ہوتا آیا ہے یہ تحصیلدار لوگ عیاش پٹھے ہوتے ہیں تو اپنا کام نکلوانے کیلئے ایسا کرنا پڑتا ہے۔ اور تیری دھی کونسا خوشی سے ایسا کرے گی۔ وہ اپنے گھر والوں، ماں باپ، بہن بھائیوں کیلئے کررہی ہے۔ نہ یہ دنیا کی اور اس گاوْں کی پہلی لڑکی ہے جو تحصیلدار کے پاس جائے گی۔” اپنی رو میں فیقے نے تو کہہ دیا اور دونوں میاں بیوی پھٹی پھٹی نظروں سے اسے دیکھتے رہے۔

دو دنوں بعد کھیتوں پہ ہی کرم دین کو اطلاع مل چکی تھی کہ تحصیلدار کا تبادلہ دوسرے علاقے میں ہوگیا ہے۔ وہ ہانپتے کانپتے پھر فیقے کے پاس پہنچا “اب کیا کریں میری زمین کو پانی چاہیے۔ تم کچھ کرو۔ اپنی دو بکریوں کے عوض اس نے اس ہفتے کے پانی کا بندوبست کرلیا۔ اگلے ہفتے نیا تحصیلدار آرہا ہے لڑکی تیار رکھنا۔ اگلے ہفتے نیا تحصیلدار آگیا۔۔۔۔ عابد بڑے شہر کا رہائشی پڑھا لکھا صاف ستھرا سا نوجوان لڑکا جو اس نوکری پہ اس علاقے میں تقرری پر پہلی بار آیا۔ ابھی اسے پٹواریوں کی شرانگیزیوں، گاوْں کے چوہدریوں کی سیاستوں اور ریشہ دوانیوں اور مظلوم لوگوں کی بےبسی کا اندازہ نہیں تھا۔ اپنی نوکری کے دوسرے ہی دن عشاء کے بعد کرم دین لڑکی کو کھیس میں چُھپا کر فیقے کے ڈیرے پہ لے گیا جہاں سے وہ دونوں تحصیلدار کی رہائش کی جانب چل پڑے۔ ڈاک بنگلے کے چوکیدار نے طنزیہ نگاہوں سے کرم دین اور اس کی بیٹی کی جانب دیکھا۔ جب برآمدے میں تحصیلدار عابد آیا تو یہ اندازہ نہ کر سکا کہ کھیس میں مرد ہے یا عورت۔ فیقے نے مدعا بیان کیا کہ چوہدری نے کرم دین کے سماجی قطع تعلقی کر رکھی ہے اس لئے اسے نہر کا پانی فصل کیلئے چاہیے۔ عابد نے اسے منظور کرلیا یہ سنتے ہی فیقا اٹھ کھڑا ہوا اور ساتھ ہی کرم دین بھی رب راکھا کہتے ہوئے چل پڑے۔ عابد واپس اندر جانے کیلئے مڑا تو اس کی نظر چارپائی سے آگے مونڈھے پہ بیٹھے بندے پہ پڑی تو کہنے لگا بھائی تمہارا کیا کام ہے  ۔۔

کھیس سے نسوانی آواز آئی “تحصیلدار جی چاچے فیقے نے کہا تھا کہ ابا کے کھیتوں کو پانی تب ملے گا جب تُو تحصیلدار کے پاس رات گزارے گی۔” عابد ششدر رہ گیا اور اس نے چوکیدار کو آواز دی اور پٹواری اور کرم دین کو واپس بلوا لیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فیقے کے سامنے آتے ہی عابد نے اس کے منہ پر کئی طمانچے مارے اور مغلظات کا انبار تھا جو رک نہیں رہا تھا۔ تب رو کر کرم دین نے کہا کہ وہ پچھلے تحصیل دار کو دس ہزار روپے کے عوض کھیتوں میں دو بار پانی کیلئے رشوت دے چکا ہے۔ اور دو ہفتے پہلے پانی کیلئے پٹواری کو دو بکریاں دی تھیں۔ تحصیلدار نے کرم دین اور اس کی بیٹی کو واپس جانے کا کہا ۔ ۔ وہ خود کو تھپڑ مارنے لگا کوسنے اور بددعائیں دینے لگا کہ وہ حافظِ قرآن کا بیٹا ہے، خود حافظِ قرآن ہے، باپ نے ساری عمر حلال کمایا اور کھلایا اور مجھے برائی کی دلدل میں دھکیلا جارہا تھا۔ اسے خود میں سے بساند آرہی تھی کہ جیسے وہ کسی گندے نالے میں جا پڑا ہو۔ اسے لگا کہ وہ جس چیز کو چھوئے گا اس میں سے بھی رشوت خوری کی، حرامزدگی کی، گھٹیاپن کی بساند خود میں سےآنے لگے گی۔ وہ تڑپ تڑپ کررونے لگا کہ یااللہ میں کس طرح تیرا شکر ادا کروں کہ تُو نے مجھے گناہ سے بچا لیا یا اس بات کا شکر کروں کہ کرم دین کی کنواری بیٹی بچ گئی۔ یا میں اس بات کا ماتم کروں کہ مجھے رشوت میں عورت پیش کی گئی۔ یاللہ مجھے معاف کردے۔ عابد برآمدے کے ٹھنڈے فرش پہ بیٹھا زار و قطار رو رہا تھا اور دور کھڑا چوکیدار حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply