ہم دونوں پیدل چل رہے تھے اور ایک ایسے چوک کے پاس پہنچے جس کے ایک طرف تو اہل حدیث کی مسجد تھی جس کے مرکزی دروازے پر ‘سیرت سید الشباب الجنۃ ، شہید کربلا کانفرنس’ کا جہازی سائز اشتہار لگا ہوا تھا- اور دوسری طرف اہل تشیع کی مسجد و امام بارگاہ تھی ، وہاں پر ‘عشرہ محرم’ کا بڑا سا اشتہار لگا ہوا تھا-
میرے ساتھ چلنے والا، ساتھی وہاں اچانک رکا، اور مجھے سے کہنے لگا،
“عامر بھائی ! ایک بات بتاؤں(اس کا انداز ایسا تھا جیسے کوئی بہت بڑا راز مجھے بتانے جارہا ہو)
جب تک میں آپ سے نہیں ملا تھا اور آپ کی تحریریں پڑھا کرتا تھا تو مجھے لگتا تھا کہ آپ ‘شیعہ’ ہو اور میں خالو اور ان کے بیٹے کو کہا کرتا تھا کہ ہمارے ہاں تو کوئی بھی ‘شیعہ’ نہیں ہے تو یہ ‘عامر بھائی’ کو کیا ہوا؟ خالو اور ان کے بیٹے میری بات سن کر مسکراتے اور بس یہ کہتے کہ ‘اسی سے مل کر، اسی سے سوال کرنا، وہی تمہیں بتائے گا’ -”
میں نے اس کی بات سنی اور پھر یہ سوال کیا کہ اب کیا سمجھتے ہو؟
اس نے کہا، “مجھے اتنا تو سمجھ آکیا ہے کہ آپ ‘شیعہ تو نہیں ہیں، کیا ہیں، یہ ابھی تک سمجھ نہیں آیا”
میں اس کی بات سن کر ہنس پڑا، اور پھر اسے کہا
“ہمارا مسئلہ ہے کہ ہم جب 2023ء کی حسیت کے ساتھ پہلی صدی ہجری میں ہوئے واقعات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس زمانے میں ہونے والی استعمال ہونے والی اصطلاحوں کو ہو بہو آج مستعمل اصطلاحوں کے مترادف سمجھ لیتے ہیں – مثال کے طور پر میں اپنے مطالعے اور علم کے مطابق یہ کہہ سکتا ہوں کہ جس وقت امام علی علیہ السلام مسلمانوں کے امیر المومنین بنے اس وقت سے لیکر دوسری صدی ہجری شروع ہونے تک ‘شیعہ’ کا ایک مطلب حضرت علی المرتضی کا ہر ایک پیرو ہوتا تھا، جب تک وہ پیرو رہتا وہ شیعہ علی کہلاتا تھا اور اس میں پہلی صدی ہجری کے آخر تک پانچ خلفائے راشدین کو ماننے والے، تین کی بیعت پر قائم رہنے اور ایک (حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ) کی بیعت توڑنے والے، اور علی المرتضی کی امامت منصوص من اللہ ماننے والے وہ سب شامل تھے جو پہلے امام علی علیہ السلام ، پھر امام حسن علیہ السلام اور پھر امام حسین علیہ السلام کے ساتھ کھڑے رہے اور کوفہ ہو یا مدینہ ہو یا بصرہ ہو یا یمن ہو الغرض جہاں جہاں شیعان علی تھے ان کی اکثریت تو غیر امامی شیعہ تھے’
میری بات سن کر وہ کہنے لگا،
تو کیا کوفہ کے ان غیر امامی یا امامی شیعہ نے امام حسین اور ان کے نائب مسلم بن عقیل سے دھوکہ کیا؟
(سچی بات ہے کہ اس کی بات سن کر، میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا، ذی الحج ساٹھ ہجری اور محرم 61 ہجری میں مظلوم قتل ہونے والے کوفہ کے کئی شیعان آل محمد کے تاسف بھرے چہرے میرے سامنے آگئے اور میں خود کو بھی مجرم محسوس کررہا تھا)
میں نے اس سے کہا،
‘جب کوئی کہتا ہے کہ کوفہ کے شعیان آل محمد’ نے امام حسین علیہ السلام کو بلایا اور ان کے بھیجے نائب مسلم بن عقیل سے دھوکہ کیا اور پھر وہ کوفہ میں سرداران شیعان علی المرتضی کو ‘کوفی لا یوفی’ کہہ کر پکارتا ہے تو میرے سامنے سب سے پہلے کوفہ شہر کے ایک محلے میں آباد قبیلہ مذحج کے سردار ہانی بن عروہ مذحجی مرادی غطیفی کا چہرہ آجاتا ہے۔ اس چہرے پر دشمنوں کے طعنوں سے کوئی تاسف نہیں ابھرتا بلکہ تاسف تب ابھرتا ہے جب کوئی خود کو ‘آل محمد’ کا پیرو کہتا ہو اور پھر ایسے الفاظ منہ سے نکالتا ہو’
تم جانتے ہو ہانی بن عروہ کون تھے؟ کتنی عمر تھی ان کی؟
اس نے جواب میں نفی میں سر ہلایا،
تو میں نے کہنا شروع کیا،
“یقینی بات ہے کہ تمہیں واقعی پتا نہیں ہوگا- اور جو لوگ نام جانتے ہیں ان کی اکثریت کو بھی پتا نہیں ہے کہ یہ کون تھا کیونکہ ان ناموں سے معرفت ‘کوفی لا یوفی’ کی تہمت سے ‘شیعان آل محمد’ کو بری کردے گی- یہ جو بات بات میں کوفہ کے سرداران شیعان آل محمد پر بے وفا ہونے کی تہمت لگاتے ہیں یہ کبھی ان کے بارے میں ان محدثین کبار کا حوالہ نہیں دیں گے جنھوں نے بتایا کہ ‘ہانی بن عروہ، سلمان بن صرد الخزاعی، مالک الاشتر’ کون تھے۔
میں حوالوں کی ثقالت سے تمہیں پریشان کرنا تو نہیں چاہتا، مگر مجبور ہوں، تھوڑا تھک گیا ہوں، شیاٹکا کے درد کی باقیات کے سبب اب مجھ میں کھڑے ہونے کی سکت نہیں ہے، آؤ یہیں اس چوک کے کنارے اس فٹ پاتھ پر بیٹھ چلتے ہیں”
محرم کی 7 تاریخ اور آٹھویں رات تھی اس چوک کے قریب مرکزی امام بارگاہ کے سبب صفائی ستھرائی کے سبب سڑک کنارے فٹ پاتھ بیٹھنے کے قابل تھے اور پیدل چلنے والوں کے لیے راستہ کھلا تھا باقی ہر قسم کی ٹریفک کے لیے چوک کے چاروں اور راستے بند تھے۔
ہم دونوں بیٹھ گئے۔ اور میں نے اپنے موبائل سے ایڈوب ایکروبیٹ ایپ ميں بنا اپنا موبائل کھولا اور اس میں محفوظ کتاب طبقات الکبیر از محمد بن سعد منبع زھری کھولی اور اس میں ھانی بن عروہ کا تذکرہ نکال لیا-
‘ہانی اپنے والد کی طرح صحابی تھے (ایک قول ہے کوفہ کے بزرگ تابعی تھے اور انہوں نے اپنے والد عروہ کی طرح (امام) علی ابن علی طالب، امیر المومنین کے ساتھ تین جنگوں (جمل، صفین، نہروان) میں شرکت کی’
یہ پڑھ کر وہ بول پڑا،
‘اس کا مطلب ہے کہ وہ حضرت علی ابن ابی طالب رض کے مدینہ سے نکل کر عراق آنے اور کوفہ میں شہید ہوجانے تک ان کے ساتھ رہے جیسے ان کے والد علی ابن ابی طالب رض کے ساتھ رہے تھے’
محمد بن سعد منبع زھری صاحب طبقات الکبیر نے لکھ
إن عمره كان يوم قتل بضعا وتسعين
جس روز ہانی قتل ہوئے تو وہ 92 برس کے تھے۔
اور یہ عبید اللہ ابن زیاد کے قصر الامارہ میں عصا کے ساتھ سہرا لیتے ہوئے تنہا شاید اس خیال سے چلے گئے تھے کہ عبیداللہ ابن زیادہ بانوے برس کے بوڑھے پر بھلا کیا ستم ڈھائے گا-
لیکن جب اس نے ہانی کے سامنے امام علی علیہ السلام اور دیگر اہل بیت کی توہین کی (بنو امیہ کی حکومت والے امام علی، امام حسن کو خاص طور پر برا بھلا کہتے اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے پر مجبور کرتے تھے) اور ہانی بن عروہ کو بھی ایسا کرنے پر مجبور کیا تو ہانی بن عروہ اپنا صبر فراموش کربیٹھے انہوں نے جس عصا کے ساتھ ٹیک لگائی ہوئی اسے ہی عبیداللہ ابن زیاد کے سر پر مار دیا،
“وكان يتوكأ على عصا بها زج ، وهي التي ضربه بها ابن زياد ”
“وہ جس عصا سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے اس کی چھڑی انہوں نے ابن زیاد کو ماری”
كما تقدم في ترجمة مسلم . قال أهل السير : ولما ورد نعيه ونعي مسلم إلى الحسين ( عليه السلام ) جعل يقول : ” رحمة الله عليهما ” يكرر ذلك ثم دمعت عينه .
‘جیسا کہ پہلے مسلم (بن عقیل) کے تذکرے میں بھی گزر چکا ہے کہ اہل سیر (سیرت لکھنے والوں /سوانح نگار کہہ لیجئے) نے کہا: جب ان کی (ہانی بن عروہ) اور مسلم بن عقیل کے قتل کی خبر (امام) حسین (السلام) تک پہنچی راہگیروں کے توسط سے تو انھوں نے سنکر فرمایا ‘رحمۃ اللہ علیھما -اللہ دونوں پر اپنی رحمت فرمائے۔۔۔۔۔ اس (دعا) کی تکرار کرتے رہے یہاں تک کہ ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے’
(عجب دغا باز، دھوکہ باز تھے کوفہ کے شیعان علی کے جن کے بانوے سالہ سردار بھی گورنر کی بدزبانی پر تن تنہا ہوتے ہوئے بھی لاٹھی سے ہی داد شجاعت دینے لگتے تھے کیسے امام حسین تھے جنہیں جب ‘کوفی لا یوفی ‘ کی قتل کی خبر ملتی ہے تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور وہ رب کریم کے حضور ان کے لیے دعا کرنے لگتے ہیں)
(ہانی بن عروہ اور مسلم بن عقیل ‘یوم خازر’ کو قتل کیے گئے تھے – یہ وہ دن ہے جس دن (حضرت) مختار ثقفی(رحمۃ اللہ علیہ) کی قیادت میں شیعان علی حیدر کرار اور عبیداللہ ابن زیاد کی قیادت میں اموی لشکر کے درمیان کوفہ میں نہر خازر کے مقام پر معرکہ ہوا جس میں عبیداللہ ابن زیاد قتل ہوا تھا)
“قبیلہ مذحج (اور دیگر کوفہ کے شیعان علی ) کو ہانی بن عروہ اور مسلم بن عقیل کے قتل کی خبر اس وقت ملی جب بنوامیہ کے حامی سپاہیوں نے کوفہ کے بازار میں دونوں کی سر کے بغیر لاشوں کو گھسیٹنا شروع کردیا- اس پر وہ بڑی تعداد میں وہاں پہنچے اور وہاں پر مسلح تضادم ہوا- دونوں اطراف سے بڑی جانیں گئیں مگر قبیلہ مذحج والے ہانی بن عروہ اور مسلم بن عقیل کی لاشیں چھیننے میں قائم ہوگئے اور وہ انہیں اپنے ساتھ لے گئے اور جاکر ان کی تدفین کی ۔ یہ آٹھ ذی الج 60 ہجری کا دن تھا”
یہ سب سنکر اس نے کہا
“عامر بھائی! کیا یہ واقعات کربلا کے ضمن میں اتنا غیر اہم واقعہ ہے کہ اس کی گونج ہمارے کانوں میں پڑتی ہی نہیں؟’
میں نے کہا،
‘یہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو ، اگر ‘کوفی لا یوفی’ کی گردان کرنے والے یہ بتانے لگیں کہ شیعان حیدر کرار کو جب 8 ذی الحج کو یہ پتا چلا کہ ان کا سردار ہانی بن عروہ اور ان کے محبوب امام کے نائب کی بے سر لاشیں کوفہ کے بازار میں گھسیٹی جارہی ہیں(آج کی معروف اصطلاح میں اسے ‘لنچنگ’ کہیں گے) تو وہ بنوامیہ کے سپاہیوں سے لڑ مرے ، ان میں سے بہت سے اپنی جانوں سے گزر گئے اور اپنے سردار اور نائب امام کی لاشوں کو چھین کر لے گئے اور عزت و اخترام سے دفنایا تو ایسا بیان سننے والے ان سے نہیں پوچھیں گے کہ جب کوفہ کے شیعان علی تھے ہی بزدل، شیخی باز، تھڑ دلے، منافق، دھوکے باز، عہد شکن تو یہ عبید اللہ ابن زیاد کے سپاہیوں سے لڑنے والے اور جانیں دینے والے کون تھے؟”
ابھی تو امام حسین علیہ السلام مکّہ سے نکلے ہی تھے اور مزدلفہ کا دن ہی تھا جب یہ کوفہ میں مسلم بن عقیل، ہانی بن عروہ اور دیگر کئی لوگ شہید ہوئے۔۔۔۔ جب سے عبید اللہ ابن زیاد نے کوفہ میں قدم رکھا تھا تب سے کوفہ میں دار و رسن کا نیا دور شروع ہوگیا تھا- قید و بند، قتل و غارت گری ہورہی تھی ، پورے کوفہ کو چاروں اور سے بند کیا جارہا تھا ، یزید دمشق سے فوجوں پر فوجیں بھیج رہا تھا اور دن بدن فوجیں جمع ہورہی تھیں- یہ سب کیوں ہورہا تھا اگر کوفہ کے شیعان علی ابن ابی طالب اپنے ہی امام اور اس کے نائب کو شہید کرانے کا منصوبہ بنائے بیٹھے تھے- زرا عقد الفرید میں ایک شاعر کا مرثیہ پڑھیں
اجل! قتل مسلم و قتل به امل كل مسلم
اجل! اک (مسلم) قتل ہوا ، اور ہر مسلم کی امید قتل ہوگئی
و اسقطوا بجسمه من علي القصر
اور انھوں نے اس کے جسم کو محل سے گرادیا
سقوط الجسم لا سقوط الاسم
جسموں کا گرایا جانا ‘اسم’ کو نہیں گراتا
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں